زمینی حقائق

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے بعدہمارے ہاں ایک ہیجان کی لہرآئی ہے۔ میڈیا، خاص کر نیوز چینلزکی دھڑا دھڑ بریکنگ نیوز اور ضرورت سے زیادہ پرجوش ٹاک شوزکا یہ تاثر بنانے میں اہم کردار ہے۔ پاکستانی چینلز تو خیر ہم شروع ہی سے بھگت رہے ہیں، آج کل بھارتی نیوز چینلز بھی دیکھنے کا اتفاق ہو رہا ہے۔دونوںا طراف کا میڈیا ہر ایشو کو ربڑ کی طرح کھینچنے کا عادی ہوچکا۔ہمارے بیشتر اینکرز نے چونکہ فرض کر لیا ہے کہ کرنٹ افیئرز سے ہٹ کر پروگرام کرنا مباح نہیں اور یہ کہ غلطی سے بھی کسی پروگرام میں صحت، تعلیم، ماحولیات جیسے ایشوز کا ذکر نہ آ پائے۔ ایسی صورت میں حالات حاضرہ کے حوالے سے ہونے والا ہر واقعہ ٹاک شوز کی زینت بنتا ہے اور وہ اسے اس وقت تک کھدیڑتے رہتے ہیں جب تک اس کے تمام دھاگے آپس میں الجھ نہ جائیں۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اور پاک بھارت تعلقات کو ایک ہی لاٹھی کے ساتھ ہانکنے کی کوشش ویسے ہی غلط ہے۔ یہ دونوں الگ معاملات ہیں۔ 
ہارٹ اف ایشیا کانفرنس بنیادی طور پر افغانستان سے متعلق ہے۔افغان معیشت اس کا بنیادی ہدف ہے، مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ افغانستان کا اصل مسئلہ اس وقت معیشت نہیں، بلکہ ملکی استحکام ہے۔سوال دو ہی ہیں۔ امریکہ کے بعد کے افغانستان کا نقشہ کیسا ہوگا اور دوسرا موجودہ افغان حکومت خاص کر اشرف غنی کا مستقبل کیا ہوگا؟ افغانستان کے حوالے سے تین چار باتیں واضح ہوچکی ہیں اور افغان ایشو کو مانیٹر کرنے والے ہمارے لبرل تجزیہ کار بھی انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پہلی یہ کہ امریکہ کو افغانستان میں فوجی حوالے سے شکست ہوئی ہے، اس کے مقاصد اس حد تک ضرور ناکام ہوئے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی مستحکم افغان حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا اورطالبان کی جس حکومت کا اس نے خاتمہ کیا اور طالبان لیڈروں کو دہشت گرد قرار دیا تھا، اب ان کے ساتھ ہی مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگیا ہے، تاہم امریکہ کی اس شکست پر خوشیاں منانا قبل از وقت ہے ۔ سپرپاورز اتنی آسانی سے پسپا نہیں ہوتیں، امریکہ نے بھی افغانستان کے اندر انتشار پھیلانے والے بیج بو دئیے ہیں، اس حوالے سے بہت زیادہ ہوشیار اور مستعد رہنے کے ضرورت ہے۔
افغانستان کے حوالے سے دوسری حقیقت یہ واضح ہوچکی کہ موجودہ افغان حکومت ، افغان فوج اور انٹیلی جنس ادارے افغان طالبان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ واضح لفظوں میں افغان طالبان ان کے بس کا روگ نہیں۔ یہ حقیقت اب امریکیوں کے ساتھ افغان اشرافیہ بھی تسلیم کر چکی ہے کہ افغان طالبان آج کے افغانستان کی سب سے اہم زمینی حقیقت ہے۔ طالبان کو اقتدار میں شامل کرنا پڑے گا، اس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔ ہمارے ہاں بعض حلقے افغان طالبان کے حوالے سے مغالطوں کا شکار ہیں، ان کی معلومات ادھوری اور اندازے درست نہیں۔ وہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی(نام نہاد تحریک طالبان پاکستان) کے دہشت گرد گروہوں کی طرح کی کوئی تنظیم سمجھتے ہیں۔سوشل میڈیا پر اکثر مباحث میں یہ لاعلمی صاف نظر آتی ہے۔نئے نئے لبرل ازم کو پیارے ہونے والے بعض سادہ لوح دوست اس حوالے سے اس قدر آگے چلے جاتے کہ وہ افغان طالبان کو منتخب افغان حکومت کا باغی قرار دے دیتے ہیں۔میں اس موضوع پر کئی بار تفصیل سے لکھ چکا ہوں، ایک بار پھر دہراتا چلوں کہ افغان طالبان نام نہاد پاکستانی طالبان سے مختلف اور الگ ہیں، ان کا ایجنڈا بالکل مختلف اور صرف افغانستان تک محدود ہے ، وہ پاکستانی ریاست کے قطعی طور پر مخالف نہیں۔افغان طالبان کے بغیر ہونے والے انتخابات کوکبھی مکمل طور پر افغان عوام کا مینڈیٹ تصور نہیں کیا جا سکتا ، نہ ہی عالمی سطح پر کوئی ایسا سوچتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں حریت کانفرنس کبھی حصہ نہیں لیتی، ان کی طرف سے بائیکاٹ کی اپیل کی جاتی ہے ، اس کے باوجود الیکشن ہوتے ہیں اور کبھی ٹرن آئوٹ پچاس فیصد تک بھی ہوجاتا ہے، اس کے باوجود عالمی سطح پر کسی بھی مبصر نے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کو کشمیری عوام کی حقیقی معنوں میں منتخب اسمبلی قرار نہیں دیا، ہر اہم معاملے میں حریت کانفرنس کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے افغانستان کی حقیقی اسمبلی اس وقت وجود میں آئے گی، جب طالبان بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کا حصہ بنیں۔ 
افغانستان کے حوالے سے چوتھی حقیقت یہ ہے کہ مستقبل کا سیٹ اپ جنگوں کے بجائے مذاکرات کے ذریعے طے پائے گا۔ 96ء کی کہانی نہیں دہرائی جا سکتی، وقت بہت آ گے جا چکا۔ افغان طالبان کو مذاکرات کے عمل کا حصہ بننا پڑے گا اور گارنٹیئرز شامل ہونے کے بعد ہی سیاسی، مذاکراتی عمل آگے بڑھے گا۔ خوشی قسمتی سے افغان طالبان کے قائد ملا اختر منصور کا اس امر کا احساس ہے، مذاکرات کے عمل میں وہ پوری طرح شریک ہوئے تھے اور یہ مذاکرات افغانستان کے اندر پرو انڈین لابی ، عبداللہ عبداللہ اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی نے سبوتاژ کرائے۔ یہ عمل دوبارہ شروع ہو گا۔ پاکستان پوری یکسوئی سے اشرف غنی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ یہ بات حالیہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں واضح کر دی گئی کہ پاکستان اشرف غنی کوکامیاب کرانے کی ہرممکن کوشش کرے گا۔
رہے پاک بھارت مذاکرات کی بحالی، اس حوالے سے بہت زیادہ پرامید ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاک انڈیا تعلقات کے حوالے سے جلتی آگ پر پانی امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی طر ف سے ڈالا گیا۔ مقصد اس محاذ کو ٹھنڈا کرنا ہے، امریکہ اور مغرب پوری طرح مشرق وسطیٰ کی جانب متوجہ ہونا چاہ رہے ہیں، بڑا محاذ وہاں کھل چکا ہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ اگلے چند ماہ کے لئے پاک بھارت محاذ پر خاموشی اور لوپروفائل رہے۔وہ جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں آگ بھڑکی تو وہ دو نیوکلیئر قوتوں کی وجہ سے فوراً ہی کنٹرول سے باہر ہوجائے گی۔اس لئے نریندر مودی پر دبائو ڈالا گیا۔ مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہونا مثبت علامت ہے، لیکن یہ بات ہر ایک کو سمجھنی چاہیے کہ جب تک پاکستان اور بھارت کے مابین حقیقی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی، اس وقت تک ہر قسم کی مصنوعی کوشش ناکام رہے گی۔ عوام کا عوام کے ساتھ رابطے جیسے راگ ماضی میں بھی بے اثر رہے ، اب بھی ان کا کوئی فائدہ نہیں۔بھارت کو تجارتی راہ گزر دینے کی تجویز ہی مضحکہ خیزاور بچگانہ ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے مزے سے یہ کہہ دیا کہ افغانستان کے لئے بھارتی سامان لے جانے کا تجارتی راستہ کھولا جائے ۔ سادہ سوال ہے کیوں؟ بھارت کو آخر یہ آئوٹ آف دی وے سہولت کس لئے دی جائے؟ہمارے ہاں ایک حلقہ اس کا یہ جواب دیتا ہے کہ تجارت ہونی چاہیے ، جنگوں میں کچھ نہیں رکھا، لڑائی کب تک چلتی رہے، دوستی اور تجارت ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ضرورت سے زیادہ سادہ لوحی (Over Simplification)ہے۔ بھیا جی! ہم کب کہتے ہیں کہ جنگ ہو،کون چاہتا ہے کہ کشیدگی چلتی رہے؟ اصل مسئلہ بھارت کا رویہ ہے۔سرکریک جیسا مسئلہ جو کئی برس پہلے حل ہونے تک پہنچ گیا تھا، بھارت اس سے بھی پیچھے ہٹ گیا۔ سیاچن سے فوجیں واپس بلانے کی بات جنرل کیانی سے لے کرنواز شریف تک کر چکے ہیں مگر بھارت اس پر خاموش ہے۔ صرف اس لئے کہ اگر سرکریک جیسا چھوٹا مسئلہ حل ہوگیا تو پھر سیاچن کی باری آئے گی، وہ بھی ختم ہوگیا تو پھر سارا فوکس مقبوضہ کشمیر پر آجائے گا۔ بھارت اسی وجہ سے مزید چھوٹے چھوٹے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ پاک بھارت کرکٹ سیریز جس کا کسی تنازعے سے تعلق نہیں، جو آئی سی سی کے تحت روٹین میں ہونی ہیں، اسے بھی دانستہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے تاکہ بھارتی ٹیم کا پاکستان کے ساتھ سیریز کھیلنا بھی بھارت کی جانب سے ایک سہولت دینا سمجھا جائے گا۔ ایسے فیک ایشوز کھڑے کر کے بھارتی لیڈر کسے بے وقوف بنانا چاہ رہے ہیں؟
اس لئے عرض یہ ہے کہ افغانستان تک بھارت کے تجارتی کاریڈور والا معاملہ بہت دور کی بات ہے۔ پہلے تو پاک بھارت بنیادی ایشوز پر بات ہونی چاہیے، کشیدگی اس سے کم ہوگی، مصنوعی اقدامات سے نہیں۔ویسے بھی تجارتی راستہ کھولنے والا فیصلہ ایک ہی بار ہونا ہے، اس قسم کے فیصلے ریورس نہیں ہوسکتے کہ پھر عالمی سطح پر ضامن بیچ میں آ جاتے ہیں۔ پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے اچھی بات صرف ایک ہے کہ اس بار نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کا اس میں کردار ہے۔ پاکستانی تناظر میں اس کا مطلب ہے کہ سول اور ملٹری واقعتاً ایک ہی صفحے پر ہیں۔اس بار یا تو مذاکرات جلد ناکام ہوجائیں گے یا پھر واقعتاً آگے بڑھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں