اپنے بچوںکو زندہ رہنا سکھائیں!

اس کالم کے عنوان سے شاید لگے کہ میں بچوں کو حفاظت کرنے کے گُر سکھانے کے حوالے سے کچھ کہنا چاہ رہا ہوں، ان کی سیفٹی تربیت یا انہیں درپیش خطرات کے متعلق کوئی نصیحت یا کچھ اور۔ ایسا نہیں ہے۔ مجھے گمان ہے کہ اپنے بچوں کی صحت اور حفاظت کے حوالے سے والدین متفکر رہتے ہیں‘ اور ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی کچھ نہ کچھ سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ ہاں اپنے بچوں کو زندہ رہنے، خوابوں، خواہشوں اور تمنائوں سے رچی بسی زندگی گزارنے کا خواب دکھانا ایسا کام ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ہم نے اپنی زندگی میں بے شمار ایسے لوگ دیکھے، جنہوں نے ماہ و سال کے اعتبار سے ٹھیک ٹھاک زندگی گزاری، ساٹھ، پینسٹھ، ستر سال، بعض تو اسی پچاسی سال بھی جیے، مگر اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ، نصف یا اس سے بھی زیادہ‘ دو تہائی کے لگ بھگ انہوں نے تکنیکی طور پر زندہ رہ کر گزاری۔ وہ کھاتے پیتے، ملازمت یا کاروبار کرتے، بچے پیدا کرتے اور دیگر کاروبار زندگی نمٹاتے رہے۔ شب و روز میں سب کچھ تھا، مگر زندگی کا رس، اشتہا اور خوبصورتی غائب تھی۔ وہ اپنی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے جتن کرتے رہے، مگر دوسروں کو آسانیاں فراہم کرنے کی لذت سے محروم تھے۔ ان کی زندگیوں میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ، کر گزرنے کا عزم اور جوش غائب (Missing) تھا۔ سب سے بڑھ کر وہ خواب نہیں دیکھتے تھے۔ ان کی آنکھیں سپنوں کی لذت سے آشنا نہیں تھیں۔ ایسا کرنا شاید انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ ایک خاص حد تک دنیاوی خواہشات پوری کرنے کو ہی خواب پورا کرنا سمجھتے تھے‘ اور تمام زندگی حقیر، معمولی، پست اہداف کے پیچھے بھاگتے رہے۔ اس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ انہیں خواب دیکھنے، بڑے خواب دیکھنے کی تربیت ہی نہیں ملی۔ کسی نے انہیں اپنے ارد گرد کی دنیا بدل دینے، زندگی کی بدصورتیوں کو کم کر کے ان کی جگہ خوبصورتی بھر دینے کے بعد پیدا ہونے والی لذت، اطمینان اور طمانیت قلب کے بارے میں بتایا ہی نہیں تھا۔
یہ کام پہلے مرحلے پر گھر میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں والدین بچوں کو معمولی خواب دکھاتے ہیں۔ اپنی محرومیوں کو بچوں کے ذریعے دور کرانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کوئی خود ڈاکٹر نہیں بن سکا تو اپنے بچے کو شروع ہی سے یہی پھونک مارے گا کہ تم نے ڈاکٹر بن کر دکھانا ہے۔ ملازم پیشہ لوگ سول سروس کا سنہری سپنا دکھاتے ہیں۔ کاروباری لوگ بچوںکے دلوں میں بڑا بزنس مین بن جانے کی خواہش جگاتے ہیں۔ اس سے آگے وہ خود نہیں دیکھ سکے تو دوسروں کو کیا دکھا سکیں گے؟ دوسرے مرحلے پر سکول اور اساتذہ ایسا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے تدریس کے شعبے میں وہ لوگ آتے ہیں جو زندگی میں کچھ نہیں کر پاتے۔ وہ سائنس کے طلبہ جن کا میرٹ نہیں بن پاتا، وہی گریجوایشن اور ان میں سے بعض ماسٹرز کرتے ہیں۔ سوشل سائنسز میں تو حالات اور بھی بدتر ہیں۔ انٹر آرٹس میں عموماً وہی آتے ہیں، جنہیں سائنس اور انگلش زبان مشکل لگتی ہے۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ایف اے اور بی اے کی انگریزی پاس کرنا ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ اردو، اسلامیات، تاریخ وغیرہ میں ایم اے کر کے لیکچرر اور بعض پہلے سے سکول ٹیچر بن جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو مضامین وہ پڑھاتے ہیں، ان سے انہیں خود محبت نہیں، طلبہ میں کیسے محبت پیدا کریں گے؟ چند ایک مستثنیات ضرور موجود ہوں گی، اس سے ہرگز انکار نہیں، مگر اکثریت کا یہی حال ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں سکول ٹیچرز اور لیکچررز سے زیادہ دل برداشتہ (Demotivated) اور فرسٹریٹڈ کم ہی لوگوں کو پایا۔ یہ ہمیشہ شکوہ کناں رہتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی تنخواہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ خوش اسلوبی سے گھر چل سکے، ٹیوشن پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے تو دو دو تین تین اکیڈمیوں میں جا کر پڑھاتے اور پھر تھک ہار کر بستر پر گر پڑتے ہیں۔ صرف نمبر حاصل کرنے کی جنگ لڑنا ہی تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد رہ گیا۔ تربیت، بچوں کی شخصیت کی گرومنگ، ان میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنا، خواب دیکھنا، اپنی صلاحیتوں کو اعلیٰ سطح پر استعمال کرنا، تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانا... اس جیسے سنہری الفاظ اور اقوال کا تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں۔ باقی بچی عملی زندگی، وہاں تو بے رحم دوڑ جاری ہے۔ ایک دوسرے کے کندھے پر چڑھ کر، گردنیں کاٹ کر آگے نکل جانے کی سفاکانہ کشمکش۔ ایک خاص پیٹرن پر زندگی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ رولر کوسٹر پر سفر کی طرح، جنہیں کسی جوائے لینڈ، گیم پارک میں رولر کوسٹر پر سواری کرنے کا اتفاق ہوا ہو، وہ آسانی سے یہ بات سمجھ سکتے ہیں۔ رولر کوسٹر تیز رفتاری سے آگے بڑھتی، کبھی اوپر پٹڑی پر چڑھتی، کبھی نہایت تیز رفتاری سے نیچے کو پھسلتی، اچھلتی، کودتی آگے کو بڑھتی ہے۔ آدمی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچ سکتا، وہ ان جھٹکوں، نشیب و فراز کے سفر کے ساتھ ہی بہتا چلا جاتا ہے۔ وقت اور زندگی ہم میں سے بیشتر کے ساتھ ایسا ہی کر رہی ہے۔ جو دو چار فیصد یا دس بیس فیصد بچ گئے ہیں، وہ بھی دراصل اس دوڑ سے ہی نکل گئے ہیں۔ زندگی ان میں بھی نہیں، آگے بڑھنے، زندہ رہنے کا جذبہ ان میں بیدار ہی نہیں ہو سکا۔ وہ پہلے ہی مرحلے پر دست بردار ہو گئے، ہتھیار پھینک دیے۔ اب دن بھر سونا، ٹی وی دیکھنا اور دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنا ہی مشغلہ ٹھہرا، گھر والوں سے لڑتے جھگڑتے دو وقت کی روٹی کھا لی، کہیں سے سگریٹ مانگ کر پی لیا۔
کرنا کیا چاہیے؟ یہ تین حرفی سوال اتنا سادہ نہیں۔ اس کا جواب بھی اتنا مختصر اور سادہ نہیں۔ ہر ایک کی زندگی کا پیٹرن مختلف ہے، اسے ایک دوسرے کی تقلید میں نہیں گزارا جا سکتا۔ انسانوں اور فیکٹری سے نکلے بسکٹوں میں فرق ہوتا ہے، ہر ایک کا سانچہ الگ، شخصیت کے ذائقے مختلف اور تقدیر بھی ایک سی نہیں۔ دو کام ضرور کرنے چاہئیں۔ ایک یہ کہ اپنی زندگی کے رولر کوسٹر کے سفر میں چند لمحوں کا وقت اپنے لئے بھی نکالیں۔ ہو سکے تو تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں، کیسے زندگی گزار رہے ہیں، مقصدیت سے عاری اس انسانی زندگی اور جانوروں کی زندگی میں کیا فرق ہے؟ کھاتے، پیتے، آرام، اپنی جوڑی اور اولاد تو جانور بھی پیدا کرتے ہیں۔ ممکن ہو تو رات کو سونے سے پہلے پانچ دس منٹ کے لیے اپنی زندگی، اپنی خواہشات، خوابوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ زیادہ نہ ہو سکے تو اپنی روزمرہ زندگی کے ساتھ ہی کسی بڑے مقصد، عزم کو شامل کر لیا جائے، اپنے وقت اور صلاحیتوں کو پانچ دس فیصد بھی کسی فلاحی منصوبے، رفاہی تنظیم کو دیا جائے، اپنے آس پاس موجود لوگوں کی زندگیوں میں کچھ نئے خوبصورت رنگ بھرے جائیں، کسی کے چہرے پر پھیلی تفکر کی چند سلوٹیں کم ہو جائیں، لبوں پر ایک مسکراہٹ آ جائے... یہ کام بھی کم نہیں۔ صرف اپنے لیے گزارے جانے والے دس برسوں سے دوسروں کے لیے بِتائے گئے دس منٹ بھی افضل ہیں۔ 
دوسرا بڑا کام جس سے ہم اپنے خیالات، سوچ اور فکر کو مہمیز لگا سکتے ہیں، اسے بلند کر سکتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں کتاب کو شامل کرنا ہے۔ مطالعے کی عادت ڈال لینے سے آدمی کی شخصیت کا ارتقا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ وہ پہلا مرحلہ ہے، جس سے چیزیں بہتر ہونے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ میں مطالعے کے لیے کبھی زیادہ شرطیں نہیں رکھتا۔ اپنی پسند کے موضوعات پر پڑھنا شروع کیا جائے۔ مثبت، تعمیری لٹریچر کو ترجیح دی جائے اور اس میں کچھ حصہ... دس پندرہ سے لے کر پچیس تیس فیصد تک، فکشن کا بھی شامل کیا جائے۔ فکشن وہ چیز ہے، جس سے والدین سب سے زیادہ روکتے ہیں، حالانکہ بچوں کو سب سے زیادہ ضرورت اس عمر میں کہانیاں پڑھنے کی ہوتی ہے۔ چاہے، وہ جنوں، بھوتوں، پریوں اور سپر ہیروز والی کہانیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک برطانوی ادیب کے بقول فکشن کے دو فائدے ہیں: پہلا یہ کہ فکشن آپ کو پڑھنے کا عادی بناتا ہے‘ یہ جاننے کی خواہش کہ اس کے بعد کیا ہوا‘ صفحہ پلٹنے کی خواہش اور پڑھنا جاری رکھنا‘ چاہے وہ دشوار ہی کیوں نہ ہو‘ اور اس وجہ سے کہ کوئی کردار مشکل میں ہے اور آپ نے یہ جاننا ہے کہ ان سب باتوں کا انجام کیا ہو۔ یہ بڑی طاقتور خواہش ہے۔ دوسرا فائدہ دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی کا پیدا ہونا ہے۔ جب آپ ٹی وی یا فلم دیکھتے ہیں‘ تو کردار مختلف واقعات سے گزر رہے ہوتے ہیں‘ جبکہ آپ ایک طرح سے لاتعلق ہوتے ہیں۔ نثری فکشن کا معاملہ مختلف ہے، اس میں آپ تنہا اپنے تخیل کی مدد سے ایک دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ جب آپ کتاب پڑھنے لگتے ہیں تو دنیا کے بارے میں ایک اہم چیز بھی سیکھ لیتے ہیں کہ دنیا کو بدلا جا سکتا ہے۔ فکشن آپ کو ایک نئی دنیا دکھاتا ہے۔ یہ آپ کو وہاں لے جاتا ہے جہاں آپ کبھی نہ گئے ہوں۔ جب آپ ایک دفعہ دوسری دنیائیں دیکھ لیتے ہیں تو آپ کو وہ دنیا مطمئن نہیں کر پاتی جس میں آپ رہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ عدم اطمینان بڑا اچھا ہے۔ غیر مطمئن لوگ اپنی دنیا کو بدل سکتے ہیں، اسے بہتر بنا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں