نان سٹیٹ ایکٹرز؟

نوے کے عشرے میں مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آزادی کے لیے ایک بڑی تحریک چلی۔ ایک پہلو اس کا سیاسی تھا، دوسرا اور زیادہ اہم و طاقتور مسلح جدوجہد کا۔ یہ جدوجہد بنیادی طور پر بھارتی مظالم، کشمیریوں کی محرومی اور بھارتی ریاست سے شدید مایوسی کے باعث شروع ہوئی۔ 1987ء کے ریاستی انتخابات نے فرسٹریشن کو عروج پر پہنچا دیا، جس میں کشمیریوں کے مینڈیٹ کو بدترین دھاندلی کے ذریعے چریا گیا تھا۔ آزادی کے لیے پرجوش ذہن رکھنے والے نوجوانوں کو محسوس ہوا کہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے کشمیری اپنا حق کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ یوں کشمیری نوجوانوں پر مشتمل پہلی جہادی تنظیم حزب المجاہدین وجود میں آئی۔ اس تنظیم پر جماعت اسلامی کے نظریات اور سوچ کا غلبہ تھا۔ نوے کے عشرے میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور آواز جماعت اسلامی ہی نے اٹھائی۔ اس عشرے کے اوائل میں افغانستان میں فعال جہادی تنظیموںنے بھی مقبوضہ کشمیر کا رخ کیا کہ افغانستان کا محاذ روسی فوج کی واپسی کے بعد ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ جہادی تنظیمیں ایک سے بڑھ کر چھ ہوگئیں۔ اس کی مختلف وجوہات تھیں۔ کہیں کمانڈروں کے اختلافات، کہیں کچھ اور۔۔۔۔ ہر بات اور اس کی تفصیل اخباری کالموں میں دینا ممکن نہیں۔ 
چھ بڑی جہادی تنظیمیں یہ تھیں۔۔۔۔حزب المجاہدین، البدر، حرکۃ الجہاد الاسلامی، حرکۃ المجاہدین، لشکر طیبہ اور جیش محمد۔ آخر میں بننے والی تنظیم جیش محمد تھی جو مولانا مسعود اظہر نے بھارتی جیل سے رہائی کے بعد قائم کی۔ حزب المجاہدین جماعت کے قریب تھی، اسلامی جمعیت طلبہ کے جو لڑکے مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے لیے جانا چاہتے تھے، انہوں نے حزب میں شمولیت اختیار کی اور بہت سے وہاں شہید ہوئے۔ حزب المجاہدین کے بطن سے ایک اور تنظیم پھوٹی جو''البدر‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کے کمانڈر بخت زمین تھے۔ یاد رہے کہ یہی بخت زمین روس کے خلاف افغان جہاد کے دنوں میں خوست کے تربیتی کیمپ کے نگران رہے جہاں جمعیت کے لڑکے تربیت لینے جاتے رہے۔ یہ وہ دن تھے جب امریکہ بہادر اور پورے مغربی یورپ کے نزدیک جہاد برائی نہیں تھا۔ مجاہدین فریڈم فائٹرز تھے اور وہ سفید ریچھ (سوویت یونین) کو شکست دینے میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ کمانڈر بخت زمین اختلافات کے باعث الگ ہوئے اور البدر قائم کی۔ لشکر طیبہ کا آغاز ہی مقبوضہ کشمیر سے ہوا۔ بہت منظم انداز سے اس نے کارروائیاں کیں اور تھوڑے ہی عرصے میں نمایاں ہوگئی۔
آخری تینوں جہادی تنظیموں (حرکۃ الجہاد الاسلامی، حرکۃ المجاہدین، جیش محمد) کا خاص پس منظر ہے اور وہ آپس میں کئی طرح سے جڑی ہیں۔ حرکۃ الجہاد الاسلامی دینی مدارس کے چند طلبہ نے قائم کی تھی۔ جامعہ بنوریہ ٹائون کے تین طلبہ مولانا ارشاد حسین، قاری سیف اللہ اختر اور قاری عبدالصمد سیال نے روس کے خلاف افغان جہاد شروع ہونے کے فوراً بعد ہی افغانستان کا رخ کیا اور حرکۃ الجہادالاسلامی کی بنیاد ڈالی۔ فضل الرحمن خلیل بھی اس کا حصہ بن گئے۔ دیوبندی مدارس کے طلبہ اس میں شامل ہوئے، مگر یہ صرف مدارس کے نوجوانوں تک محدود نہیں تھی۔ 85ء میں ارشاد حسین، روسی فوج کے ایک حملے میں شہید ہوگئے تو قاری سیف اللہ اختر حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر بنے۔ کچھ اس وجہ سے اورکچھ پالیسیوں کا اختلاف سمجھیے کہ فضل الرحمن خلیل نے حرکۃ المجاہدین قائم کر لی جو جہادی تنظیموں میں بہت معروف ہوئی ۔ 91-92ء میں یہ دونوں تنظیمیں مقبوضہ کشمیرکے وار تھیٹر میں داخل ہوئیں (ازرہ کرم یہ نہ پوچھیے کہ کس نے داخل کیا۔) ان کا انضمام ہوا اور حرکۃ الانصار نام رکھا گیا۔ حرکۃ الانصار کی کارروائیاں بہت تیز اور بھرپور تھیں تاہم حرکۃ الانصارکچھ عرصے بعد ٹوٹ گئی۔ اسے دوبارہ جوڑنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ 
گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ مبینہ طور پر مولانا مسعود اظہر اور کمانڈر سجاد افغانی حرکۃ الانصار کے الگ ہونے والے دھڑوں کو دوبارہ ملانے کے لیے سری نگر گئے تھے، جہاں گرفتار ہوگئے۔ مولانا مسعود اظہر صحافی کا ویزہ لے کر گئے تھے اور یہ بات جھوٹ نہیں تھی۔ مسعود اظہر باقاعدہ طور پر کئی سال ایک معروف دینی جریدے کے ایڈیٹر رہے، ان کا کالم بھی شائع ہوتا رہا۔
مسعود اظہرکے حوالے سے ایک اورکہانی بھی مشہور ہے، ان سے اختلاف رکھنے والے خاص طور پر اس خبر یا ''سازشی تھیوری ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ الزام یہ تھا کہ وہ حرکۃ الانصار کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ اپنی امارت کے چکر میں گئے تھے۔ ان کا اصل مقصد حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر قاری سیف اللہ اختر اور فضل الرحمن خلیل کے بجائے خود امیر بننا تھا۔ یہی مخالف حلقے کوٹ بھلوال جیل میں مسعود اظہر کے اسیری کے برسوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سنگین الزام لگاتے ہیں کہ انہیں جیل میں تمام تر سہولتیں حاصل تھیں، مثلاً فون اور کتابوں سے لے کر باہر کے کھانے تک۔ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ جیل سے فرار کی کوشش کی پاداش میں کمانڈر سجاد افغانی سمیت درجن سے زیادہ جنگجو ڈنڈوں سے پیٹ کر مار ڈالے گئے 
تھے، نصراللہ منصور لنگڑیال بھی شدید زخمی ہوئے، مگر اس رات مسعود اظہرکوکچھ نہیں کہا گیا، آخر کیوں؟ جیسا کہ پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ عسکریت پسند تنظیموں اورکمانڈروں کے حوالے سے ایک خاص قسم کی پراسراریت اور شکوک وشبہات رہتے ہیں، قطعیت سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔ تاہم مسعود اظہر کا رہائی کے بعد جس طرح کا رویہ رہا، جیش محمد مقبوضہ کشمیر میں جتنی متحرک رہی، بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا جس طرح جیش پر الزام لگا، مسعود اظہر بھارتی لابی کی آنکھوں میں جس طرح کھٹکتے رہے، اس سے ان شکوک کی نفی ہوتی ہے۔ 
نائن الیون کے بعد جب کشمیری جہادی تنظیموں پر پابندی لگی، قیادت گرفتار یا نظر بند ہوئی اور کارکن تتر بتر ہوئے، وہ فیصلہ کن اور آزمائش کے لمحات تھے۔ حزب المجاہدین کا ڈسپلن سب سے بہتر تھا، اس میں البدر میں ٹوٹ پھوٹ نسبتاً کم ہوئی۔ لشکر طیبہ کا نظم ، سسٹم اور اس کے ہینڈلر سب کچھ ہی الگ تھا، اس لیے اس پر بھی کم اثر پڑا۔ سب سے زیادہ متاثر حرکۃ الجہاد الاسلامی، حرکۃ المجاہدین اور جیش محمد ہوئیں۔ اس کی تین وجوہات تھیں۔ ان کی قیادت اورکمانڈروں کے افغانستان خاص کر طالبان کے ساتھ گہرے روابط رہے۔ ماضی میں یہ عرب، ازبک، چیچن جنگجوئوںکے قریب اور ان سے متاثر رہے تھے، پھر ان تینوں کا تعلق دیوبندی مسلک سے تھا، افغان طالبان بھی یہی فکر رکھتے تھے اور ٹی ٹی پی کے بیت اللہ محسود اور دیگر کمانڈروں کی فکر بھی یہی تھی۔ الیاس کشمیری جیسے بڑے کمانڈر کے القاعدہ میں شامل ہوجانے سے حرکۃ الجہاد الاسلامی جیسی تنظیم تو مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ گئی اور اس وقت عملی طور پر اس کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔
حرکۃ المجاہدین اور جیش محمد میں بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ 
ہوئی اور سپلنٹر گروپ ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی میں شامل ہوگئے۔ یہ بات البتہ اہم ہے کہ حرکۃ المجاہدین کے کمانڈر فضل الرحمن خلیل اور جیش محمدکے مولانا مسعود اظہر نے ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے۔ ٹی ٹی پی، القاعدہ اور لشکر جھنگوی کے مختلف گروپوں کی تمام تر ترغیب اورکوشش کے باوجود یہ کمانڈر پر امن رہے اور پاکستانی فورسزکے خلاف لڑائی میں شامل نہیں ہوئے۔ 2010ء میں خالد خواجہ کے قتل کے موقع پر ٹی ٹی پی کے ایک گروپ کی جانب سے ایک ویڈیو ریلیزکی گئی، اس کی سی ڈی میڈیا کے مختلف افراد کو بھیجی گئی۔ عثمان پنجابی نامی ایک کمانڈر نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس سی ڈی میں مولانا مسعود اظہر، فضل الرحمن خلیل، لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، البدر اورکمانڈر عبداللہ شاہ مظہر پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے ٹی ٹی پی کی جنگ میں شمولیت اختیار نہیں کی اور اس کے بجائے پاکستانی ریاست، فوج اور ایجنسیوں کا ساتھ دیا جو جہاد سے غداری ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ الزام ہے جو پچھلے دس برسوں کے دوران فضل الرحمن خلیل، مسعود اظہر اور دیگر کمانڈروں کو دہشت گردی کی راہ اپنانے والے اپنے پرانے ساتھیوں سے بار بار سننا پڑا۔ یہ وہ نقطہ ہے جو ریاست اور اداروں کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ جو لوگ ہتھیار پھینک کرسسٹم کا حصہ بن چکے ہیں یا بن رہے ہیں، ان کے لیے راستہ کھلا رکھنا ہوگا۔ میرے جیسے لوگوں کے لیے پاکستانی ریاست ہر فرد، گروہ یا تنظیم پر فوقیت رکھتی ہے۔ پاکستان میرے ایمان کا حصہ ہے۔کوئی بھی شخص ہمارے ملکی، قومی مفادات کے لیے خطرہ بنے تو اس کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے۔ ''نان اسٹیٹ ایکٹرز ‘‘کی خوفناک اصطلاح کا اب خاتمہ ہوجانا چاہیے، یہ سب مگر نہایت سلیقے اور قرینے سے کرنا ہوگا۔ اگر انگلیاں جلائے بغیر آ گ بجھ سکتی ہے تو پھر عجلت میں اسے بھڑکانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں