را ایجنٹ کی گرفتاری اور حالیہ منظرنامہ

چار سال پہلے کا چودہ اگست بلوچستان میں گزرا تھا۔ زیارت کے ایک فلاحی سکول کی تقریب تھی۔ جناب ہارون الرشید، برادرم خالد مسعود اور محمد طاہر بھی ساتھ تھے۔ تقریب کے بعد خالد مسعود تو واپس آگئے ، ہم نے کوئٹہ کے ایک خوبصورت پھولوں سے گھرے ہوٹل میں تین چار دن گزارے۔ اتفاق سے انہی دنوں قبائلی سرداروں کا ایک جرگہ بھی ہوا تھا۔ بعض بگٹی، مری اورمینگل سرداروں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ تربت کے ایک نوجوان قبائلی سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان میں سے بیشتر لوگ وہ تھے جنہوں نے (نام نہاد) ناراض بلوچ شدت پسند رہنمائوں حیربیار مری، براہمداغ بگٹی وغیرہ اور تربت میں ڈاکٹر اللہ نذر کی دہشت گرد تنظیم بی ایل ایف کے خلاف کھڑے ہونے کی جرا￿ت کی تھی۔شدت پسندبلوچ رہنمائوں کا آلہ کار بن کر ہتھیار اٹھانے کے بجائے انہوں نے ریاست کا ساتھ دیا ۔ان میں سے بعض قبائلیوں سے پوچھا کہ آپ براہمداغ یا حیربیار مہران مری وغیرہ کے مقابل کھڑے ہیں، کس بات نے اپنی جان خطرے میں ڈال دینے کی تحریک دی ؟ سب کا جواب تھا کہ یہ ''ناراض بلوچ‘‘ رہنمانہیں بلکہ انڈین سپانسرڈرہنما ہیں، جنہوں نے اپنی دھرتی کوبھارتی ایجنسی را سے ملنے والے ڈالروں کے عوض فروخت کر دیا ہے ۔ہم نہ صرف پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، بلکہ ایک طرح سے ہماری یہ لڑائی بھارت اور دنیا کی کئی اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف ہے ، جو بلوچستان میں آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔‘‘
بلوچستان کی صوبائی حکومت کے موجودہ ترجمان انوار کاکڑ ان دنوں متحرک تھے ۔نوجوان انوار کاکڑ سے گفتگو کر کے بہت خوشگوار احساس ہوا۔ وہ مسلم لیگ ن کی طرف سے کوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ چکے تھے، چند ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی، مگر انوار کاکڑ کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ان کا بیانیہ واضح تھا ،''ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے ، وہ دہشت گرد اور غدار ہے ، دوسرا شدت پسندوں کی یہ شورش سو فیصدبھارتی سپانسرڈ ہے، جس کے ثبوت موجود ہیں۔ بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والی تنظیموں سے مذاکرات کے بجائے آپریشن کے ذریعے ان کا صفایا ہونا چاہیے۔ ‘‘ نواب ثنااللہ زہری نے انوار کاکٹر کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا درست فیصلہ کیا۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ایک آئوٹ سپوکن ، مضبوط موقف رکھنے والے دلیر شخص کی ترجمانی کی ضرورت تھی، انوار کاکڑ یہ کام بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ہارون الرشید صاحب کی وجہ سے ہمیں کوئٹہ کے اہم حلقوں کے فیڈ بیک سے آگاہی کا بھی موقعہ ملا۔دو تین باتوں پر یہ ذمہ دار حلقے متفق تھے، '' 1: دنیا کے کئی ممالک کی ایجنسیاں بلوچستان میں سرگرم ہیں، ان میں ہمارے بعض قریبی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی شامل ہیں2: صوبے میں بدامنی پھیلانے کے لئے سب سے زیادہ سرگرم بھارتی ایجنسی را ہے۔3: بلوچ گوریلا کمانڈروں کے را سے تعلقات اور مالی مدد لینے کے ٹھیک ٹھاک قسم کے ثبوت جمع کئے جا چکے ہیں،بعض اہم کمانڈروں ، جیسے ڈاکٹر اللہ نذر کی راکے ایجنٹوں سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی ریکارڈ کی جا چکی ہے۔ ‘‘یہ وہ نکات ہیں جو اب آن دی ریکارڈ کہے جا چکے ہیں، اس لئے انہیںبیان کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اس پر ایک سوال پوچھا کہ آخر یہ تمام ثبوت قوم کے سامنے کیوں نہیں لائے جاتے۔ جواب سادہ تھا، ''ہم یہ ثبوت آگے پہنچا دیتے ہیں، انہیں قوم کے سامنے اور عالمی سطح پر اٹھانا حکومت کا کام ہے ، وہی فیصلہ کرے گی تو ہوپائے گا۔ ‘‘یہ سن کر دل مسوس کر رہ گئے کہ معلوم نہیں پاکستانی حکومت کی کمزور پالیسی کب تبدیل ہوگی اور سچ کو سامنے لانے کی جرا￿ت کی جائے گی۔ 
پچھلے سال ڈیڑھ سے البتہ اعلیٰ سطح پربھارتی خفیہ ایجنسی را کی انوالمنٹ کی بات کی جانے لگی ہے۔ ٹی ٹی پی کو فنڈنگ، کراچی میں بدامنی اور بلوچستان کی شورش کے پیچھے بھارتی ایجنسی کے ہونے کی بات اعلیٰ عسکری قیادت نے بھی کی اور بڑے زوردار الفاظ میں کی۔ وزیردفاع خواجہ آصف کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ را کی مداخلت کے حوالے سے انہوں نے کئی بار بیانات دئیے، ایک آدھ بار تو پارلیمنٹ میں بھی اس پر گفتگو کی۔ حیرت اس پر ہوتی رہی کہ وزیراعظم پاکستان کیوں اس پراسرار خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ ایک حرف بھی منہ سے وہ نہیں نکالتے، ان کے رویوں سے قطعی طور پر ایسا نہیں لگتا کہ بھارت پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے ۔ 
ابھی را کا سرونگ ایجنٹ پکڑے جانے اور اس حوالے سے جو ہوش اڑا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں، اس کے بعد جناب وزیراعظم کی یہ خاموشی مزید کھٹکنے لگی ہے ۔ایسا ہرگز نہیں کہ ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھائی جائے یا کوئی اور شک کیا جائے۔ ظاہر ہے وہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں، عوام سے مینڈیٹ لے چکے ہیں، انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ پاکستانی عوام بھارتی جارحیت اور را کی سازشوں کے حوالے سے کس قدر جذباتی اور حساس ہے ۔سیاسی لیڈر کبھی عوامی جذبات کے برعکس جانے کی غلطی نہیں کرتا۔ اس کے باوجود وزیراعظم نواز شریف اس اہم مسئلے پر اس طرح کھل کر سٹینڈ نہیں لے رہے، جیسا کہ ان سے توقع کی جا رہی ہے۔ دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ یاتو انہیں پاکستانی اداروں سے حاصل شدہ معلومات پر اعتماد نہیں اور ان کے خیال میں حقیقی صورتحال کچھ اور ہے یا پھر انہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی نیت اور خلوص پر غیر معمولی اعتماد ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ را بھارتی حکومت کو بائی پاس کر کے یہ سب سازشیں کر رہی ہے؟ ویسے تو یہ دونوں امکانات اس قدر بعید از قیاس ہیں کہ یہ ممکن نہیں میاں صاحب جیسا جہاندیدہ سیاستدان ان میں سے کسی آپشن کو زیر غور لے آئے ۔ اگر ایسا نہیں اور میرا حسن ظن ہے کہ ایسا نہیں ہوگا تو پھر وزیر اعظم میاں نواز شریف کو کھل کر واضح پوزیشن لینی چاہیے۔ را کی پاکستان کے خلاف سازشوں میں کسی کو کوئی شک 
نہیں اور منطقی طور پر بھی یہ بات درست ہے ، کیونکہ گوریلا تنظیمیں بیرونی فنانسر شپ کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ بلوچستان میں شورش پھیلانے کی کوشش کرنے والی تنظیمیں مالی مدد کے بغیرازخود تحلیل ہوجائیں گی، اگر انٹیلی جنس شواہد کو نظر انداز کر دیا جائے ، تب بھی ان کے فطری اتحادی بھارتی خفیہ ادارے ہی بنتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کو اس بار عالمی سطح پر بھرپور مہم چلانی چاہیے۔ بھارتی ہائی پروفائل ایجنٹ کی گرفتاری معمولی واقعہ نہیں، اس کا زوردار فالو اپ ہونا چاہیے۔ 
اس بار ایک اور اہم پیش رفت بھی نظر آئی۔ پہلی بار پاکستان نے ایران کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کئے اور را کے ایجنٹ کے ایرانی ویزے پر آنے کی بات باقاعدہ طور پر اٹھائی ۔ یہ ایک نیا اور بہت اہم عنصر ہے ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات اور اس میںیہ کہنا کہ کبھی ایرانی زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوجاتی ہے، جسے روکنا چاہیے ، مزید یہ بھی کہنا کہ ایران بھارت پر اپنا اثر استعمال کر کے اسے پاکستان کے خلاف سازشوں سے روکے...یہ بہت اہم پیش رفت ہے۔اس گفتگو کو آئی ایس پی آر کے ذریعے پبلک بھی کیا گیا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے۔ ایک لحاظ سے بالواسطہ یہ بات کہی گئی ہے کہ تہران کو اب واضح پوزیشن لینا ہوگی۔ یمن کے معاملے پر سعودی خواہشات کے مطابق نہ چلتے ہوئے توازن پیدا کرنا، افغانستان کے ساتھ زیادہ بامقصد، پریکٹیکل بنیاد پر سفارت کاری اور اب ایران کے ساتھ حالیہ پیش رفت معمولی بات نہیں۔ کیا پاکستانی ریاست نے اب یہ طے کر لیا ہے کہ وہ کسی کے کہنے پر کسی دوسرے کا کھیل نہیں کھیلے گی نہ ہی اپنے ساتھ کسی کو کھیلنے دے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں