یہ گند صاف کرنا پڑے گا!

ہمارا ملک میں خبروں اور سکینڈلز کی خاصی فراوانی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے تو خاص طور پر ایسی صورتحال چلی آ رہی ہے کہ میڈیا کے لئے یہ انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس خبر کو پہلے نمبر پر رکھیں‘ اور کس کو دوسری ترجیح پر جگہ ملے۔ میرے صحافتی کیریئر کا زیادہ عرصہ میگزین جرنلزم میں گزرا۔ کالم نگاری بارہ تیرہ برسوں سے ساتھ چل رہی ہے۔ ایک زمانے میں نیوز روم میں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ مجھے یاد ہے کہ نیوز روم میں آنے والا ہر سب ایڈیٹر ایک ہی بات کرتا کہ آج کی لیڈ اور سپر لیڈ کیا ہو گی؟ جیسے ہی کسی بڑے واقعے کی اطلاع ملتی، نیوز ایڈیٹر کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی، مچھلی کا شکار کرنے والے مستعد شکاری کی طرح، جسے ڈوری کھنچنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مچھلی کانٹے میں پھنس گئی۔ نیوز روم والے بڑی خبر کو سونگھ لیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز میں براہ راست تو کام نہیں کیا، مگر اندازہ ہے کہ چینلز کے نیوز روم والے زیادہ مضطرب رہتے ہیں۔ انہیں دن میں ایک سے زیادہ بار خبروں کے بلیٹن چلانا ہوتے ہیں۔ گرم گرم خبریں ملتی رہیں تو چینلز کا کام چلتا رہتا ہے، ورنہ یہ غریب کسی معمولی سے ایشو کو ربڑ کی طرح کھینچ کر لمبا کرنے کے چکر میں بے حال نظر آتے ہیں۔ آج کل تو خبروں کی بارش ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز یعنی منگل کا اخبار ہی دیکھ لیجیے۔ پہلے صفحے پر تین چار دھماکہ خیز خبریں تھیں۔ پاناما لیکس کی دوسری قسط آ گئی، جس میں کئی اہم نام شامل ہیں۔ ادھر کوئٹہ میں مشتاق رئیسانی کے گھر سے نوٹوں کی بوریاں برآمد ہوئیں، اب ان کی نشاندہی پر کراچی سے گرفتاریاں ہوئیں، مزید بوریاں پکڑی گئیں۔ کوئٹہ میں بے نقاب ہونے والا کرپشن کا یہ میگا سکینڈل اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں بلوچستان کے قوم پرست رہنمائوں پر بھی الزام آ رہا ہے کہ ان کی حکومت سے یہ گڑ بڑ چل رہی تھی۔ جب ایسی خبریں آ رہی ہوں تو میڈیا ہائپ خود بخود بن جائے گی۔ 
پاناما لیکس والا معاملہ حکومت کی تمام تر کوشش کے باوجود سنبھل نہیں پا رہا اور اب تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ حکومت کے گلے ہی پڑ گیا ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ان کے لئے آسان نہیں‘ اور قومی منظرنامے میں جو چیزیں ابھی تک صاف نہیں تھیں، وہ بھی واضح ہونے لگی ہیں۔ پاناما لیکس والے معاملہ پر حکومت کی حکمت عملی تین نکات پر مشتمل رہی۔ پاناما لیکس کی اہمیت کم ظاہر کرتے ہوئے‘ شروع ہی میں اپنے موقف کی وضاحت کرنا، اس پر زور دینا کہ لیکس میں نام وزیر اعظم کے بچوں کے ہیں اور تیسرا نکتہ اپوزیشن کے خلاف جارحانہ حملہ کر کے انہیں پیچھے دھکیلنا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کی خبریں آتے ہی‘ اسی لئے فوری طور پر ٹی وی پر آ کر خطاب کیا اور جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ اس خطاب پر بعد میں تنقید کی جاتی رہی، مولانا فضل الرحمن سے لے کر گورنمنٹ فرینڈلی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تک سب نے اس پر یہی تبصرہ کیا کہ وزیر اعظم نے خواہ مخواہ یہ بلا اپنے گلے ڈال لی۔ ان لوگوں نے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے تھنک ٹینکس کو انڈر ایسٹیمیٹ کیا۔ میاں صاحب اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ معاملہ یوں آسانی کے ساتھ ختم ہونے والا نہیں۔ بات بھی درست ہے۔ اگر میاں صاحب خطاب نہ کرتے تو کیا معاملہ ختم ہو جاتا؟ ہرگز نہیں! پانامہ لیکس نے ملک میں عرصے سے چلنے والے کرپشن کاروبار کے اوپر سے چادریں، کور وغیرہ اڑا دیے ہیں۔ یہ گندا کھیل اب ننگا ہو چکا ہے۔ اس کا یہی تباہ کن پہلو ہے۔ پاناما لیکس کے بعد کرپشن، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، ملکی خزانے سے اربوں 
روپے لوٹ مار کر کے انہیں باہر بھیجنے والا معاملہ پوری طرح کھل گیا ہے۔ اس گند کو اب چھپایا نہیں جا سکتا۔ 
چند ماہ پہلے ہابسن چوائس پر ایک کالم لکھا تھا۔ پاناما لیکس اور اس کے بعد کی صورتحال میں کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا معاملہ حقیقی معنوں میں ہابسن چوائس بن گیا ہے۔ ہابسن چوائس (Hobson's Choice) انگریزی زبان کی ایک مشہور اصطلاح ہے، سادہ مفہوم میں اس کا مطلب ہے کہ صرف ایک آپشن ہے، ماننا ہے یا نہیں، دوسری کوئی آپشن نہیں۔ اس کا پس منظر دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں کہ سولہویں صدی میں تھامس ہابسن (Thomas Hobson) نامی ایک تاجر کیمبرج، انگلینڈ میں رہتا تھا۔ اس کے پاس چالیس پچاس گھوڑوں پر مشتمل ایک اصطبل تھا۔ وہ اپنے گھوڑے کرایہ پر دیا کرتا۔ ان گھوڑوں میں سے چند ایک اعلیٰ نسل کے تھے۔ ہر گاہک کی خواہش ہوتی کہ وہ اپنے سفر کے لئے سب سے عمدہ گھوڑا منتخب کرے۔ تھامس ہابسن نے اس سے پریشان ہو کر گھوڑے کرایہ پر دینے کی ایک شرط رکھ دی۔ وہ گاہک سے کہتا کہ آپ اصطبل میں جا کر گھوڑا پسند کریں، دروازے سے قریب بندھا ہوا پہلا گھوڑا آپ کو ملے گا۔ لینا ہے تو وہی ملے گا ، ورنہ نہیں۔ اس شرط سے گاہک بڑے چکرائے کہ یہ کیسی چوائس ہے، جس میں ایک ہی آپشن ہے۔ ہابسن نے مگر اس شرط پر سختی سے عمل درآمد کرایا۔ یہ بات آس پاس کے دیہات میں بھی پھیل گئی اور کئی لوگوں نے ہابسن چوائس کے فارمولے کو اپنایا۔ یوں یہ اصطلاح ہابسن چوائس کے نام سے انگریزی لغت کا حصہ بن گئی، جس کے مطابق کسی معاملے میں بظاہر انتخاب کی آزادی ہو، مگر عملی طور پر ایک ہی آپشن موجود ہو۔ آگے بڑھنا ہے تو اسی واحد آپشن کو ماننا ہو گا، ورنہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھنا پڑے گا۔
میرے خیال میں پاکستانی ریاست، قومی اداروں اور مختلف شعبوں سے کرپشن کا خاتمہ کرنا‘ اب ہابسن چوائس بن چکی ہے۔ ہمارے پاس اور کوئی آپشن یا چوائس نہیں۔ حکومتی میڈیا ٹیم کی یہ کوشش ہے کہ تحریک انصاف کے ان لوگوں کو ٹارگٹ کیا جائے جن کے نام پاناما لیکس میں ہیں‘ یا جنہوں نے قرضے معاف کرائے۔ حکومتی وزرا ابھی مصلحتاً پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کی طرح ٹارگٹ نہیں کر رہے، مگر اعتزاز احسن پر حملے شروع ہو گئے ہیں۔ عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کرپشن کرنے والے مسلم لیگ ن میں ہیں یا تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں۔ عام پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ کرپٹ اور لوٹ مار کرنے والے جہاں بھی ہیں، ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جنہوں نے لوٹ مار کی، وہ اس کا حساب دیں۔ ہر سال ملک کے کئی سو ارب روپے لوٹ لئے جاتے ہیں، اس لوٹ مار کی قیمت عام پاکستانی کو بڑھتے ہوئے ٹیکسز کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ کب تک یہ چلے گا؟ اب وقت آ گیا ہے کہ بے رحم اور سفاک احتساب کیا جائے۔ جس جس نے ملک کو لوٹا ہے، خواہ وہ حکومت میں ہے یا اپوزیشن میں، میڈیا میں ہے یا بیوروکریسی میں، سویلین ادارہ یا غیر سویلین... اس سے حساب لیا جائے۔ یہ تماشا ختم کیا جائے۔ جو لوگ کرپشن اور جمہوریت کو منسلک کر رہے ہیں، ڈھکے چھپے الفاظ میں کرپشن کا جواز فراہم کر رہے ہیں، جن کے خیال میں کرپشن ثانوی چیز ہے... وہ لوگ یا تو عوامی جذبات سے ناواقف ہیں یا پھر ان کے اپنے مفادات انہی کرپٹ عناصر سے وابستہ ہیں۔ ورنہ کوئی ہوش و حواس رکھنے والا آدمی کرپشن کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کر سکتا۔ جمہوریت کے نام پر اس لوٹ کھسوٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب اس گند کو ہر قیمت پر صاف کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں