سوشل میڈیا کے بے پناہ امکانات

ہفتہ کی شام اسلام آباد میں گزری۔ سخت گرمی میں لاہور سے اسلام آباد کا سفر اور پھر سات گھنٹے تک ایک سمینار میں بیٹھے رہنا، ٹھیک ٹھاک قسم کی آزمائش تھی۔ دو راتوں سے نیند پوری نہیں کر پایا تھا، ہفتہ کی صبح چھ بجے اٹھنا پڑا ، رات کو دو بجے کے قریب سونے کا موقع ملا۔ شدید تھکن کے باوجود ایک سرشاری کی کیفیت طاری رہی۔ آرچر آئی کے سوشل میڈیاسمینار میں شریک ہونا شاندار تجربہ تھا۔ بڑے عرصے کے بعد ایسے سامعین دیکھے جوکئی گھنٹوں کا سفر کر کے اس سمینار کے لئے اسلام آباد کے اس ہوٹل میںاکٹھے ہوئے، نصف شب کے بعد تک جاری رہنے والے پروگرام میں بھرپور انداز سے وہ موجود رہے، تیکھے سوالات پوچھے جاتے رہے۔ اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے مقررین کے لئے بلا تعصب تالیاں بجاتے نوجوانوں کو دیکھ کر بڑا حوصلہ ہوا۔ ایک بار پھرشدت سے احساس ہوا کہ مایوسیاں پھیلانے والے دانشور سماج میں چپکے سے در آنے والی تبدیلیوں سے ناواقف ہیں۔انہیں اندازہ ہی نہیں کہ اپنے ہی جال میں اسیرمرکزی میڈیا کی کمزوریوں اور مستقبل کے ویژن سے عاری ہونے کے باوجود سوشل میڈیا کی شکل میں ایسا پلیٹ فارم قدرت نے مہیا کر دیا، جو پاکستان میں علم وادب کی ڈگمگاتی صورتحال کو ریورس گئیر لگا سکتا ہے۔ 
یہ سمینار ایک بلاگ آرچر آئی کی جانب سے منعقد کیا گیا۔ ثاقب ملک روزنامہ دنیا کے سپورٹس ایڈیشن کے لئے تجزیاتی مضامین لکھا کرتے ہیں۔ وہ فیس بک کے معروف بلاگر بھی ہیں۔ ثاقب نے یہ تجویز پیش کی کہ فیس بک کے معروف لکھاریوں کے ساتھ انٹرایکشن کے لئے سمینار رکھا جائے ،جس میں مختلف فیس بک بلاگر یا یوزر شریک ہو سکیں اور اپنے پسندیدہ لکھنے والوں کے ساتھ مکالمہ میں شریک ہوسکیں۔ اس سلسلے کا یہ پہلا پروگرام تھا جو اسلام آباد میں ہوا، اس کے بعد لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں بھی اس قسم کے پروگرام ہوں گے۔ مختلف مصروفیت کے باعث اوریا مقبول جان، خورشید احمد ندیم صاحبان شریک نہ ہوسکے۔ معروف ادیب اور دانشور پروفیسر فتح محمد ملک خصوصی طور پر شریک ہوئے اور ڈیڑھ دو گھنٹے تک اسلامی ریاست بمقابلہ سیکولرازم کی بحث میں حصہ لیا۔ سکیورٹی سٹیٹ کے حوالے سے بحث اور بعض دیگر ڈسکشنز میںخاکسار کے علاوہ انویسٹی گیٹو رپورٹر عمر چیمہ، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، فرنود عالم، شکیل چودھری، اکمل شہزاد گھمن، عاطف حسین اور بعض دوسرے فیس بک لکھاری شامل ہوئے۔ ڈائجسٹوں کے لئے شکاری، مداری جیسی مقبول سلسلہ وار کہانیاں لکھنے والے احمد اقبال کے ساتھ خصوصی انٹرایکٹو سیشن بھی ہوا۔بڑی حیرت ہوئی کہ گلگت، سکردو کے علاوہ لاہور ، ملتان، میانوالی، تونسہ، ساہی وال ، فیصل آباد سے کئی گھنٹوں کا سفر طے کر کے فیس بک یوزرز شامل ہوئے ۔ایک چھت کے نیچے، مولوی، مسٹر، لبرل، سیکولر ،اسلامسٹ سب اکٹھے تھے ، مگر ایک بار بھی تلخ کلامی نہیں ہوئی ،خندہ پیشانی کے ساتھ اختلافی آرا برداشت کی گئیں۔ 
سوشل میڈیا میں بنیادی طور پر فیس بک اور ٹوئٹر کو شمار کیا جاتا ہے۔ ٹوئٹر کا اپنا ایک خاص کردار ہے۔ ٹوئٹر کے ٹوئیٹ مختصر ہوتے ہیں،140 الفاظ سے زیادہ نہیں لکھا جا سکتا۔ ٹوئٹر ان لوگوں کو سوٹ کرتا ہے جو ون لائنر کہنا جانتے ہیں، اپنے مختصر تبصرو ں سے وہ ٹرینڈز سیٹ کرتے اور رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ ٹوئٹر کی ایک خاص اہمیت کے باوجود میرے خیال میں فیس بک زیادہ بڑے اور فیصلہ کن انداز میں استعمال کی جا سکتی ہے۔فیس بک پرنسبتاً طویل پوسٹیں کی جا سکتی ہیں۔ لوگ اپنے کالم نما نوٹ بھی لکھ کر شیئر کرتے ہیں،اپنے پسندیدہ لکھاریوں کی تحریریں بھی وال پر ڈالی جاتی ہیں۔ اچھا کام یہ ہوا کہ مختلف گروپس بن چکے ہیں، ان کے صفحات میں متعدد لکھاری اپنی تحریریں لگاتے ہیں، گروپ کے ارکان ان پر کھل کر کمنٹس کر سکتے ہیں۔ اردو شاعری، کہانی، ادب، مصوری، موسیقی ، سیاست، فلسفہ، سائنس ، نفسیات اور دوسرے مختلف موضوعات پر ہزاروں گروپ موجود ہیں۔ بعض گروپس میں ایسی معیاری گفتگو ہوتی دیکھی ہے کہ پڑھ کر آدمی اش اش کر اٹھتا ہے۔ 
میرے نزدیک فیس بک کی تین چار خصوصیات ایسی ہیں، جس کے باعث اس سے خاصے امکانات وابستہ کئے جاسکتے ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ اس نے بے شمار بے زبان لوگوں کو زبان عطا کی ہے۔لوگ آزادانہ اپنے رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں اور اس رائے کے بعد ہونے والی بحث سے سیکھ کر اس میں کمی بیشی کی گنجائش بھی باقی رہتی ہے۔ اس قدربڑے پیمانے پر تبادلہ خیال اور مکالمہ کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ آپ خود سوچیں کہ ایک پوسٹ پر بہاولپورسے لاہور،اسلام آباد،کوئٹہ سے کراچی اور پشاور تک مختلف لوگ فوری طور پراپنا تبصرہ کرتے اور بحث کو گرما دیں،اوورسیز پاکستانی بھی جس میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ ایسا پہلے کب ہو سکتا تھا؟دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ فیس بک کی پوسٹوں کے چکر میں لوگوں نے اردوٹائپ کرنا سیکھ لیا۔ گوگل ٹرانسلیٹرنے بھی خاصی آسانی پیدا کی اور سمارٹ فون کی قیمت کم ہونے سے ان کی دستیابی بڑے پیمانے پر ہوگئی۔ سمارٹ فونز پر اردو کی بورڈ انسٹال کر کے نوجوان موبائل ہی سے براہ راست میسج یا کمنٹس اردو میں ٹائپ کر دیتے ہیں۔ اس سے ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا کہ کمپیوٹر اور موبائل پر اردو لکھنے کا ایسا رواج چل نکلا ہے، جس نے اردو زبان کو درپیش ایک چیلنج ختم کر دیا۔ چند سال پہلے تک اردو ادیبوں اور دانشوروں کو خدشہ تھا کہ لوگو ں کو ای میلز، ٹیکسٹ میسجز وغیرہ رومن اردو میں لکھنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے، جس سے چند برسوں بعد نوجوانوں میں اردو لکھنے کا رواج ہی ختم ہوجائے گا۔ ان سب کو اب بے فکر ہوجانا چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی نے نہ صرف وہ خدشہ ختم کر دیا بلکہ اب رومن اردو مٹنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے اردو ادبی جریدے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کئی بند ہوگئے، کچھ دم توڑ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ادبی جرائد کا مستقبل فیس بک گروپس یا ویب سائٹس کی شکل میں مضمر ہے۔ اس کے لئے البتہ ضروری ہے کہ سنجیدہ ادبی قارئین اور ادیب بھی اس پلیٹ فارم کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں منضبط کرنے کی کوشش کریں۔ 
سوشل میڈیا کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہوا کہ لکھنے والوں کے لئے فوری فیڈ بیک کا انتظام ہوگیا ہے۔اخبارات کے قارئین یا نیوز چینلز کے سامعین کے لئے میڈیا ہائوسز فیڈ بیک کا کوئی منظم انتظام نہیں کر پائے۔ ہمارے لکھنے والوں کا ایک مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ ایک خاص حصار میں مقید ہو کر لکھتے ہیں۔ پڑھنے والے انہیں اپنا فیڈ بیک نہیں دے پاتے ۔ کئی لکھنے والوں نے ای میل آئی ڈی تو دے رکھی ہے، مگر وہ اپنا ای میل اکائونٹ خود چیک کرتے ہیں نہ ہی میلز کے جواب کا کوئی بندوست کرتے ہیں۔ خط لکھنے کا رواج ہی نہیں رہا، ٹیکسٹ میسجز کے لئے فون نمبر ہونا ضروری ہے۔ اب فیس بک کی صورت میں کالم نگار اور تجزیہ کار اپنے پڑھنے یا پروگرام دیکھنے والوں سے براہ راست رابطہ رکھ سکتے اورا ن کی رائے جان سکتے ہیں۔ ہمارے بیشتر سینئر کالم نگار ابھی تک فیس بک پر نہیں یا پھر وہ صرف کالم پوسٹ کرنے کی حد تک محدود ہیں۔ میرے خیال میں انہیں اپنے پڑھنے والوں سے رابطہ رکھنے کا رسک لے لینا چاہیے۔ ممکن ہے شروع میں کسی کو سخت تنقید کا سامنابھی کرنا پڑے ، مگر انہیں اپنے نقطہ نظر کو واضح کرنے اور اعتراضات کا جواب دینے کا موقعہ بھی ملے گا۔ فیس بک ہرپیج بنانے والے کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ غیر شائستگی کا مرتکب کرنے والے کو بلاک یا ان فرینڈ کر سکے۔ شائستہ ردعمل نہ دینے والوں پر یہ قدغن لگائی جا سکتی ہے، مگر ایسے سنجیدہ قارئین جو اپنے پسندیدہ لکھنے والے سے مکالمہ یا ان سے کسی خاص نکتے پر سوال پوچھنا چاہتے ہیں، انہیں اس حق سے محروم کرنا مناسب نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں