بنیادی ڈھانچہ نہیںہلایا جاتا

کپل شرما بھارت کے مشہور کامیڈین اور شو ہوسٹ ہیں۔ ان کا ٹی وی پروگرام بھارت کے مقبول ترین کامیڈی شوز میں سے ایک ہے۔ پہلے وہ کلر ٹی وی پر پروگرام کرتے تھے، آج کل سونی سے شو کر رہے ہیں۔ کپل شرما کا شو پاکستان میں بھی بڑے شوق اور دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔ ہلکا پھلکا مسالے دار پروگرام ہے، جس میں مختلف اہم سیلیبریٹیز کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ گپ شپ اور گفتگو کی جاتی ہے، جو دیکھنے والوں میں پسند کی جاتی ہے۔ بطور اینکر، کامیڈین کپل شرما بہت مقبول ہے۔ جب اس کا شو کلر ٹی وی سے ختم ہوا توشاہ رخ خان، اکشے کمار اور ابھیشک بچن جیسے سپرسٹارز نے بھی کپل شرما سے ہمدردی کا اظہار کیا اور اس کے نئے شو کے لئے نیک تمنائیں بھیجیں۔ چند دن پہلے دبئی میں مقیم ایک بھارتی مسلمان نے فیس بک پر میسج کیا۔ کہنے لگے کہ کپل شرما جیسا مقبول اینکر بھی اگر اپنے کسی ٹی وی شو کے دوران بھارت میں سیکولرازم کے وجود پر کوئی سوال اٹھائے اور اس کے لئے خاص طور سے ماہرین کو مدعو کرے تورات ڈھلنے سے پہلے بھارت بھر میں ہنگامہ مچ جائے گا۔ اگلے دن کپل شرما کے لئے بھارت میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔ لوگ دو تین سوال کریں گے کہ آخر ایک ٹی وی اینکر کب سے اہل ہوگیا کہ اس حساس اور متنازع موضوع پر سوال اٹھائے اور بحث شروع کرے، ایسا کرنے کا سبب کیا تھا اور کہیں اس کے پیچھے انتہا پسند ہندو لابی تو کارفرما نہیں؟ بھارتی فیس بک فرینڈ کا کہنا تھا: '' بھارت میں ہر قسم کے بحث مباحثے چلتے رہتے ہیں، ٹی وی ٹاک شوز پر دن رات نت نئی بحثیں جاری رہتی ہیں، مگر اس سب شورشرابے، لڑائی جھگڑوں میں بھی ٹی وی والوں، دانشوروں اور صحافیوںکو اپنی حدود کا اندازہ ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کس حد تک جانا ہے، کہاں پر سوال اٹھانا ہے اور کن کن چیزوں کو بالکل نہیں چھیڑنا۔ بھارت میں سیکولرازم ایسا ہی ایک موضوع ہے، جس پرقومی سطح کے شدت پسند ہندو لیڈر بھی کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘ 
یہ فیس بک چیٹ پیمرا کے اس حکم کے تناظر میں ہو رہی تھی، جس کے تحت اداکار حمزہ علی عباسی کو ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے سے روک دیا گیا۔ حمزہ علی عباسی نے آئوٹ آف دا وے جا کر ایک نہایت حساس اور متنازع بحث چھیڑنے کی کوشش کی تھی۔ عوامی رد عمل پر پیمرا نے فوری نوٹس لیا اور حمزہ عباسی کا پروگرام بند کر دیا۔ اس پابندی کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں ایک بڑی اکثریت نے خوشی کا اظہار کیا، وہاں یہ بحث بھی شروع ہوئی کہ پابندی لگانا زیادہ سخت اقدام تھا، کیونکہ صرف ایک سوال ہی تو اٹھایا گیا، جس میں کوئی حرج نہیں۔ انہیں سادہ سی بات سمجھ نہیں آئی کہ اس معاملے میں تین غلطیاں ہوئیں، پہلی تو غلط مقام، غلط وقت اور غلط بندے نے یہ معاملہ چھیڑا، دوسرا جس طرح اسے اچھالا جانے لگا، یوں معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی لمباچوڑا ایجنڈا ہے، تیسرا یہ بے وقت کی راگنی تھی۔ پاکستان اس وقت جس قسم کے مسائل میں الجھا ہے، اس میں یہ خطرناک بحث چھیڑنے کی کوئی تک ہے نہ جواز۔ 
ویسے سوشل میڈیا نے پچھلے چند ماہ میں دوسری بار اپنی قوت تسلیم کرائی ہے۔ اس سے پہلے بھارتی اداکارہ نرگس فخری کا ایک نہایت فضول اور واہیات اشتہار اخبارات میں شائع ہوا،اس پر مین سٹریم میڈیا تو خاموش رہا، مگر سوشل میڈیا پر ایک طوفان امڈ آیا۔ ایک دو دنوں کے اندر اتنا شدید عوامی ردعمل دیکھنے کو ملا کہ وہ موبائل کمپنی جس نے مخرب الاخلاق اشتہار دیا تھا، اس نے اس قبیل کے دوسرے دو اشتہارات روک لئے اورایک نسبتاً صاف ستھرا اشتہار جاری کیا۔ حمزہ عباسی والے معاملے میں بھی سوشل میڈیا نے بھرپور عوامی ردعمل کا 
اظہار کیا اور اس بار تو منظم انداز میں پیمرا کو تحریری شکایات بھیجی گئیں۔ اس کے ثمرات بھی مل گئے۔ دونوں واقعات میں مین سٹریم میڈیا(اخبارات، چینلز) یا تو ہکا بکا خاموشی سے دیکھتا رہا یا پھر یوں لگا کہ جیسے عوامی جذبات کا انہیں اندازہ ہی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کو عوام کی نبض پر انگلیاں رکھ کر چلنا چاہیے، ورنہ لوگ اپنی رائے بنانے کے لئے سوشل میڈیا کی طرف دیکھنا شروع ہوگئے 
تو پھر بڑی مشکل ہو جائے گی۔ پچھلے کچھ عرصے میں پیمرا نے کئی بہت اچھے اور جرأت مندانہ اقدامات کئے ہیں، مگر ان کی ویسی تحسین نہیں کی گئی، جیسی ہونی چاہیے تھی ۔ اس کے کردار کو بھی سراہنا چاہیے۔ پیمرا ٹی وی ٹاک شوز پر نظر رکھے ہوئے اور بدتمیزی یا غیر اخلاقی گفتگو کے کئی واقعات پر اس نے جرمانے کئے اور نوٹس جاری کئے۔ جرائم کہانیوں پر مبنی ٹی وی پروگرام روکنا تو بہت ہی اچھا اور مستحسن فیصلہ تھا۔ اس پر شائد ابھی تک مکمل عملدرآمد نہیں ہوسکا، مگر اس عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ پاکستان کے دو صوبوں کی اسمبلیاں اس کے خلاف قرارداد منظور کر چکی ہیں۔ ان کرائم سٹوریز والے پروگراموں کا واحد مقصد ریٹنگ لینا ہے، ان میں غیر اخلاقی گفتگو، جرائم پر اکسانے والے واقعات اور غیر شائستہ مکالمے عام ملتے ہیں۔
بات بھارت کے حوالے سے شروع ہوئی تھی۔ بھارت میں سیکولرازم کے علاوہ، جمہوریت، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق وغیرہ کے حوالے سے ایک باقاعدہ نظریہ موجود ہے کہ یہ بھارتی ریاست اور آئین کا بنیادی ڈھانچہ (Basic Structure) ہے، جس میں تبدیلی یا ترمیم کا پارلیمنٹ تک کو اختیار نہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے کئی فیصلوں میں بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن کو متعارف کرایا اور بھارتی پارلیمنٹ کی منظورکردہ بعض آئینی ترامیم کو منسوخ کر دیا۔ اس دلیل کے ساتھ کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا حق ہے، مگر اس کے نام پر آئین تباہ کرنے کااختیار بالکل حاصل نہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے دو فیصلے بہت مشہور ہیں۔کیساونندرا بھارتی بنا م ریاست کیرالہ (1973,4scc225) میں جسٹس ہنس راج کھنہ نے یہ مشہور اصطلاح استعمال کی۔ منروا ملز بنام یونین آف انڈیا (Air 1980,sc1789) میں بھارتی سپریم کورٹ نے کیساونندرا فیصلے کو مزید واضح کرتے ہوئے بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن کو دنیا بھر میں مقبول بنا دیا۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے سیکولرازم کو اس بیسک سٹرکچر میں شامل کیا، اس کے علاوہ فیڈرل طرز حکومت، پارلیمانی نظام، بنیادی انسانی حقوق، عدلیہ کی آزادی وغیرہ وغیرہ کو ان چیزوں میں شامل کیا، جنہیں چھیڑا نہیں جا سکتا۔ حتیٰ کہ پارلیمنٹ بھی ان میں ترمیم کا حق نہیں رکھتی کہ ایک طرز سے یہ آئین کی روح ہیں۔ بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن کے مطابق اس آئین کے بیسک سٹرکچر یا بنیادی ڈھانچے کو صرف اس صورت میں بدلا جا سکتا ہے جب کوئی نئی دستور ساز اسمبلی بنے، جس کا عوام سے مینڈیٹ ہی نیا آئین بنانے کا ہو، ورنہ روٹین میں بننے والی پارلیمنٹ بھی یہ حق نہیں رکھتی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن کو دنیا کے کئی ممالک میں اپنایا گیا ، بنگلہ دیش میں بھی سپریم کورٹ نے انور حسین چودھری بنام بنگلہ دیش کے فیصلے میں یہی استدلال لیا ہے۔ قارئین میں سے ممکن ہے کچھ کو نہ معلوم ہو کہ پاکستان میں بھی عدالت عظمیٰ اپنے ایک مشہورفیصلے (ظفر علی شاہ کیس) میں یہ قرار دے چکی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت آئین میں ترمیم کر سکتی ہے، مگر چند چیزوں کو نہیں چھیڑا جا سکتا، ان میں اسلامی دفعات، فیڈرل طرز حکومت، پارلیمانی نظام ، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں۔ ایک طرح سے یہ پاکستانی آئین کا بیسک سٹرکچر یا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ 
حمزہ عباسی والے معاملے کے بعد ہمارے ٹی وی اینکرز اور ہر دوسرے روز چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے خواہاں لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہر معاملے کو یوں رواروی میں نہیں چھیڑا جا سکتا۔ کچھ چیزیں اور معاملات ریاست اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کی طرح ہوتے ہیں، ریاستیں ان پر استوار ہوتی ہیں۔ جس طرح سیکولرازم بھارتی ریاست کا مرکزی ستون ہے، اسی طرح پاکستان کا اسلامی تشخص، اسلامی جمہوریہ ہونا پاکستانی ریاست کا مرکزی ڈھانچہ ہے۔ اس کے بغیر پاکستان کا وجود بھی خدانخواستہ ممکن نہیں رہے گا۔ اسلام پاکستان کامحور تھا، ہے اور رہے گا۔ آئین میں کی جانے والی اسلامی ترامیم کی بھی یہی صورت حال ہے، ان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی ترمیم سرفہرست ہے۔ اسے کوئی چھیڑنے کا سوچ سکتا ہے نہ ہی ایسی غلطی کرنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں