جواب تلاش کریں

اگلے روز ایک جگہ بات ہو رہی تھی کہ سوال اٹھانے سے زیادہ یہ جواب ڈھونڈنے کا موسم ہے۔ پاکستان آج انتہائی سنگین بحرانوں میں لپٹا ہوا ہے، نئے فتنے اٹھانے یا انتشار پیدا کرنے سے زیادہ در پیش بڑے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ حال اور مستقبل کے حوالے سے ممکنہ اٹھتے طوفانوں کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے چند نکات گنوائے تو وہاں موجود ایک نوجوان نے شرارتاً کہا کہ یہ تو ترقی پسندوں والی باتیں ہیں، اسلامسٹوں کے تو یہ ایشوز نہیں ہیں، آپ تو لیفٹسٹوں والی انقلابی باتیں کر ر ہے ہیں۔ میرا جواب تھا کہ اسلام سے زیادہ ترقی پسند مذہب کون ہوسکتا ہے جو رہتی دنیا تک ساتھ دے گا اور آنے والے زمانوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارا ملک اس وقت اتنے بڑے مسائل کا شکار ہے اور ہماری انٹیلی جنشیا نان ایشوزکو محور بنائے بیٹھی ہے۔ سوشل میڈیا کے مباحث ہوں یا مین سٹریم میڈیا کے روزانہ کے پروگرام اور اخباری صفحات یا پھر علم وادب کے شعبوں میں ہونے والے سیمیناراور علمی پروگرام، ان پر ایک نظر ڈالتے ہی انداز ہ ہو جاتا ہے کہ عام آدمی کے ساتھ ان کا تعلق زیادہ نہیں، یہ سب ڈرائنگ روم کی گفتگو ہے۔ پرسکون ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر ایسی دانشورانہ گفتگو ہو سکتی ہے، ورنہ آگ برساتے سورج میں کچھ دیر گزارتے ہی آدمی کو عملی مشکلات کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔ اسے فوری خیال آتا ہے کہ یہ جو نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ ہر جگہ ذلیل ہوتے پھر رہے ہیں، ان کی زندگیوں میں آسانی لانا ہی سب سے بڑی علمی خدمت ہے۔
ہمارے اہل علم و دانش کو اپنی صلاحیتیں اور دماغ اس اہم ترین نکتے پر کھپانا چاہیے کہ عام آدمی کو انتظامیہ کے ظلم و ستم اور طاقتور استحصالی طبقات سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے؟ تھانہ کچہری کے معاملات میں اصلاحات لانے سے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ریلیف مل سکتا ہے ۔ ہمارے وزیراعلیٰ کے پسندیدہ بیانات میں سے ایک یہ ہے کہ تھانوں کا ماحول درست ہونا چاہیے۔ آٹھ سال سے وہ مسلسل وزیراعلیٰ ہیں جبکہ اس سے پہلے بھی آٹھ دس سال تک اقتدار پر مکمل طور پر قابض تھے، پوچھنا چاہیے کہ دو چار تھانے ہی اچھے ماحول والے بنا لیتے، کیوں نہیں بنا پائے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوںگی، اپنی پسند کے لوگ ڈی پی او بنائے جائیں گے، لاہور جیسے شہر میں بھی تھانوں پر صاحبان اقتدار کی مرضی کے لوگ لگیں گے، پولیس میں اس قدر سیاست بھر دی جائے گی، ٹرانسفر ، پوسٹنگ میرٹ پر ہونے کے بجائے طاقتور شخصیات کی مرضی پر ہوگی تو پولیس کس طرح اچھے نتائج دکھائے گی؟ تھانہ کلچر کیسے بدلے گا؟ جن لوگوں کو خیبر پختونخوا (کے پی کے)کسی کام سے جانے یا سیاحت کی غرض سے سفر کرنے کا اتفاق ہوا، وہ گواہ ہے کہ وہاں کی پولیس کا رویہ پنجاب کی پولیس سے یکسر مختلف ہے۔ خیبر پختونخوا کی پولیس پہلے بھی پنجاب کی سفاک اور بے رحم پولیس سے بہتر تھی، تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ٹرانسفر پوسٹنگ کے معاملات میں حکومتی مداخلت صفر کر دی اور آئی جی پولیس کو صوبے کی تاریخ کے سب سے زیادہ اختیارات دے دیے۔ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر وہاں کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے دوچار پوسٹیں دیکھیں، ہر ایک نے پولیس کے رویے کو سراہا۔ بعض کا کہنا تھا کہ کے پی پولیس کے سپاہی اور افسر فخریہ کہتے تھے کہ ہم پنجاب پولیس نہیں ہیں، آپ خوفزدہ مت ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس کو کیوں نہیں بدلا جا سکتا؟ کے پی میں بھی وہی پولیس ہے، وہی ان کے معاوضے،کام کا بوجھ وغیرہ۔ سب مسائل ایک جیسے ہیں، پھر بھی رویہ اور اخلاق میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ یہ کیسے دور ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب ہم سب کو ڈھونڈنا ہوگا۔
ہمارے ہاں اسلامسٹ ، سیکولر حلقوں کی بحثیں چل رہی ہیں،کبھی ان میں تندی وتیزی آ جاتی ہے تو کبھی آنچ مدھم ہو جاتی ہے، مناقشہ بہرحال جاری ہے۔ ہمارے خیال میں رائٹسٹ کہیے، اسلامسٹ یا مذہبی مزاج والے لوگ کہہ لیجئے ان میں اور لبرل، سیکولر، ترقی پسند افراد کے مابین مشترک نکات ڈھونڈنے چاہئیں۔ ایسی بہت سی کامن باتیں ہیں، جن پر مل کر کام ہوسکتا ہے، خاص کر ملک کی تعمیر و ترقی کا ایجنڈا اگر سامنے رکھا جائے تو بڑی آسانی سے چند ایک باتوں پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے لبرل، سیکولر عناصر نے جمہوریت کے
دفاع کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے، انہیں ہمیشہ تشویش رہتی ہے کہ سسٹم کو خطرات لاحق ہیں اور اسے ہر حال میں چلنے دینا چاہیے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر اسلامسٹوں کا بہت بڑا حلقہ متفق ہے۔ تمام دینی سیاسی جماعتیں جیسے جماعت اسلامی، جے یو آئی فضل الرحمن گروپ، جمعیت اہل حدیث وغیرہ جمہوریت کے ہر حال میں چلتے رہنے، اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار سے باہر رہنے اور سیاسی استحکام کے حق میں ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ جماعت اسلامی پر ماضی میں تنقید ہوتی رہی، اب تو اس کا رویہ ایک خاص حوالے سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ایک اقلیت ایسی ہے جو جمہوریت پر تنقید کرتی ہے، مگر عملاً ان کی ایک فیصد کے برابر بھی موجودگی اور اہمیت نہیں ہے۔ اب اسلامسٹوں اور لبرل، سیکولر سب کو مل کر جمہوریت کو مستحکم کرنا اورجمہوری نظام میں اصلاحات لے آنی چاہئیں۔ سب سے پہلے الیکشن کا نظام ہے۔ قانون کے مطابق ہمارا پورا الیکشن ایک آدھ ارب کے اخراجات میں مکمل ہو جانا چاہیے۔ عملی طور پر ہزاروں کروڑ تک پھیل گیا ہے، کم سے کم بھی سو ڈیڑھ سو ارب جنرل الیکشن میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت ہی خطرناک بات ہے، جس کے مضمرات کا ہمارے دانشور قطعی طور پر اندازہ نہیں لگا پا رہے۔ کرپشن کی بڑی دو تین وجوہات میں سے ایک الیکشن کا حد درجہ مہنگا ہو جانا ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی رکن اسمبلی پندرہ بیس کروڑ لگا کر اسمبلی میں پہنچے گا تو پہلی خواہش تو اس کی وہ خرچہ واپس نکالنے کی ہوگی اور پھر چند کروڑ روپے اگلے الیکشن کے لئے مختص کرنا،
پھر اپنی ڈیرے داری کے لئے بھی مال بنایا جاتا ہے۔ یہ سب کرپشن عوام کے لئے مختص ترقیاتی پروگراموں میں کی جاتی ہے یا پھر ملازمتیں پیسے لے کر باقاعدہ فروخت کی جاتی ہیں۔ ہم سب نے جان بوجھ کر بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بھائی جب تک الیکشن سستا نہیں ہوگا، سیاسی عمل سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی، مگر اس مسئلے کا حل کوئی نہیں سوچ رہا۔ اس طرح مئی تیرہ کے الیکشن کے بعد یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ شفاف انتخابات کرائے بغیر سیاسی عمل قابل اعتماد نہیں بن سکتا۔ شفاف ومنصفانہ انتخابات کے لئے ہمیں اپنے انتخابی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ہوںگی۔ یہ اہل دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ایشو پر فوکس کریں اور ایک ایسے فول پروف سسٹم بنانے میں مدد کریں، جسے توڑنا ممکن نہ ہو۔ بائیو میٹرک انتخابات، اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق اور اس طرح کی کتنی اصلاحات پر اب کام کرنا چاہیے، جب الیکشن سر پر آ جائے گا، تب تو کچھ نہیں ہوسکے گا۔
دو تین ایشوز پر مختصر بات ہوئی تو کالم کی گنجائش ختم ہوگئی۔ ابھی تو تعلیم، صحت جیسے اہم شعبوں میں اصلاحات لانے کا تذکرہ باقی ہے۔ پانی کی کمی، ڈیموں کی تعمیر، ماحولیات بھی کم اہم شعبے نہیں۔ سب سے اہم بات رہ گئی، وہ ہے قرضوں کی ادائیگی میں ہمارے بجٹ کے ایک تہائی سے زیادہ کا خرچ ہونا۔ جب تک قرضوں کی ادائیگی کا مسئلہ حل نہیںہوتا، ہم خسارے کے بجٹ سے باہر نہیں آ سکتے ۔ یہ سب ایسے سوال ہیں، جن کے جواب ڈھونڈنے ہیں، ہم سب نے مل کر، رائٹ کے لوگ ہوں یا لبرل، سیکولر کیمپ کے علمبردار، ان سب کواپنی توانائیاں ملک وقوم کی تعمیر وترقی کے ایجنڈے پر بھی کھپانی چاہئیں۔ اس کا حق زیادہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں