کیا عمران خان پرفارم کر پائے ہیں؟

مسلم لیگ ن کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے انصاف کا تقاضا ہے کہ اپوزیشن کی سب سے اہم اور بڑی جماعت تحریک انصاف کی پرفارمنس کی بات کی جائے ۔ مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا پچھلی نشست میں جائزہ لیا تھا، تاہم ان کے طرز سیاست اور الیکشن لڑنے کے ماڈل کا جائزہ لینا ابھی باقی، مگر وہ بعد میں، پہلے تحریک انصاف اور اس کے قائد کی تین سالہ کارکردگی پر بات کرتے ہیں۔
مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔عمران خان کے سامنے اس وقت تین آپشنز موجود تھیں۔ سب سے پہلی آپشن یہ تھی کہ وہ صوبائی حکومت بنانے سے گریز کرتے ہوئے بھرپو ر اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔ اس آپشن کے حامی کہتے تھے کہ مرکز کی کھلی اور خوشدلانہ سپورٹ کے بغیر خیبر پختون خوا جیسی نسبتاً کم وسائل رکھنے والی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اس لئے تحریک انصاف کو آل آئوٹ اپوزیشن پر جانا چاہیے۔ دوسری آپشن یہ تھی کہ عمران خان خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اورخود وزیراعلیٰ بن کر کے پی کے کو ماڈل صوبہ بنا دکھائیں۔ یہ ایک بڑا چیلنج تھا، عمران ناکام ہوتے تو ان کی سیاست کو بڑا دھچکا پہنچتا ، مگر کامیابی کی صورت میں وہ ایک انقلاب آفرین لیڈر بن کر سامنے آتے ۔ قباحت یہ تھی کہ وزیراعلیٰ بننے کے بعد وہ قومی سطح کی اپوزیشن نہ کر پاتے ۔ بطور وزیراعلیٰ ان کے لئے پنجاب کے مختلف شہروں میں بڑے جلسے کرنا، تنظیم سازی کے لئے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان کے مختلف شہروں کے دورے کرنا ممکن نہ رہتا۔ عمران خان نے تیسری آپشن کا انتخاب کیا ۔ صوبائی حکومت بنائی ،مگروزیراعلیٰ کے لئے پرویز خٹک کا انتخاب کیا۔ پرویز خٹک سب سے تجربہ کار شخص تھے، جو سیاسی جوڑ توڑ کر کے باآسانی صوبائی حکومت بنا سکتے تھے۔
انتخابات کے بعد جب عمران خان اسمبلی میں حلف اٹھانے ابھی نہیں پہنچے تھے، ڈاکٹروں کے مشورے پر ابھی وہ آرام ہی کر رہے تھے ، اس دوران تحریک انصاف نے لاہور میں مختلف کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں کے ساتھ خان صاحب کی مختصر ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔ ایک ملاقات میں روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی اور یہ خاکسار بھی تھا۔ عمران خان خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ کہنے لگے کہ میں نے ساتھیوں سے کہا ہے کہ ہمیں اس صوبے کو ماڈل صوبہ بنانا ہے۔ یہاں پر ڈیلیور کیا تو اگلی بار ہمیں ووٹ ملیں گے، ورنہ کچھ نہیں ہوپائے گا۔ مختلف آئیڈیاز ان کے ذہن میں تھے کہ جلد از جلد صحت، تعلیم کے حوالے سے اصلاحات کرنی ہیں۔ صوبے کا ایماندار ترین افسر چیف سیکرٹری لگانا ہے، بہترین آئی جی پولیس ہوگا، ہسپتالوں میں ملازمین کی حاضری کے لئے جدید ترین بائیو میٹرک سسٹم لائیں گے۔ پھر خود ہی بتایا کہ شوکت خانم نے یہ سافٹ وئیر ڈویلپ کیا ہے، وہ پانچ ہزار ڈالر میں فروخت کرتے ہیں، مگر ہم مفت صوبے کے تمام بڑے ہسپتالوں میں اسے لگائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اس وقت صوبے کے وزیرخزانہ کے طور پر نامزد ہوئے تھے۔ عمران کہنے لگے کہ مجھے جیسے ہی پتہ چلا کہ جماعت خزانے کی وزارت چاہتی ہے اور سراج الحق کو یہ عہدہ دیا جائے گا تو میں نے فوراً کہا کہ ہاں کر دو ، یہ ایماندار ترین آدمی ہے ۔ دھاندلی کے حوالے سے اس وقت بھی عمران پوری طرح یکسو تھے، انہیں لگ رہا تھا کہ بدترین دھاندلی کے ذریعے انہیں ہرایا گیا۔
آج اس ملاقات کو پورے تین سال گزر چکے ہیں۔ مجھے آج بھی عمران کے فقرے، ان کی آنکھوں کی پرجوش چمک اور چہرے کی سرخی یاد ہے۔ عمران خان نے اس وقت جن عزائم کا اظہار کیا تھا، کاش وہ ان پر فوکس کرتے اور دل وجاں سے اس میں جت جاتے تو جس صوبے نے مئی تیرہ کے انتخابات میں ان پر اعتماد کیا، آج اس کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی۔ عمران خان کی تین چار کامیابیوں کا میں اعتراف کرتا ہوں۔ان کی پارٹی تین سال سے صوبے کی حکومت چلا رہی ہے، مگر عمران خان جو پارٹی کے آل ان آل ہیں، ان پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ سندھ کے برعکس جہاں جناب زرداری صاحب پر مختلف فرنٹ مین رکھنے ا ور کرپشن کے ناقابل بیان الزامات لگائے جاتے رہے، بعض کی تو نیب اور رینجرز نے بھی تصدیق کی ۔خیبر پختون خوا میں جو الزامات سامنے آئے بھی، ان کا نشانہ وزیراعلیٰ خود یا ان کے بعض وزرا ہیں، یا پھر جہانگیر ترین پر تنقید ہوئی کہ صوبائی امور میں مداخلت کرتے اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو ٹھیکے دلواتے ہیں۔یہ الزامات بھی کلیئر ہونے چاہئیں، حکومت کا دامن مکمل صاف اور بے داغ رہنا چاہیے، مگر بہرحال یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے بدترین مخالفین بھی ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگا سکے۔ پولیس کو انہوں نے غیر سیاسی بنا دیا، تاریخ کا سب سے طاقتور آئی جی پولیس صوبے میں ہے، جس کی دیانت داری کے قصے عام ہیں۔پولیس افسروں کی ٹرانسفر ، پوسٹنگ میں کرپشن صفر ہوگئی۔ بعض دوسرے شعبوں میں بھی بہتری ہوئی، دوردراز کے ٹیچروں کی سکولوں میں حاضری یقینی ہوگئی، ہسپتالوں میں اصلاحات کی اگرچہ ڈاکٹرحضرات شدید مزاحمت کر رہے ہیں، مگر چیزیں بہتر ہورہی ہیں۔ ایک صحافی دوست کے بقول صوبے کے پٹواری ، کرپٹ پولیس والے اور غیر حاضر رہنے کے عادی ٹیچر زدن رات عمران خان کو صلواتیں سناتے ہیں۔
یہ مثبت نکات اپنی جگہ مگر عمران خان سے اس سے بہت زیادہ کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ یہ تو سٹرکچرل اصلاحات ہیں، جیسے پرانے ٹوٹے ہوئے پائپ کی مرمت کر کے رستے ہوئے پانی کو کچھ دیر کے لئے محفوظ کر لیا گیا۔ عمران خان تواس گلے سڑے نظام کو مکمل بدل دینا چاہتے تھے ۔ کیا آج خیبر پختون خوا میں کرپشن ختم ہوگئی ہے؟ جن وزرا پر الزامات لگتے ہیں، ان کااحتساب ممکن ہوپایا؟ یہ سچ نہیں کہ جن لوگوں کو کرپٹ کہہ کر نکالا گیا، انہیں دوبارہ اپنی حکومت بچانے کے لئے واپس کابینہ میں لے لیا گیا؟کیا میانوالی کی نمل یونیورسٹی کی طرح کی کوئی ایک بھی ماڈل یونیورسٹی صوبے میں قائم ہوئی؟ عمران خان سے یہ توقع تھی کہ وہ صوبے کے تعلیمی معیار کو اتنا بہتر بنائیں گے کہ دوسرے صوبوں کے لوگ داخلوں کے لئے اپنے بچوں کو ادھر بھیجیں۔ ٹھیک ہے تین سال زیادہ عرصہ نہیں، مگر کیا اس سمت میں پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے؟جواب نفی میں ہے ۔ ہسپتالوں میں اصلاحات لانے میں اتنا وقت کیوں لگ گیا ؟یہ ٹھیک بات ہے کہ دہشت گردی نے صوبے کو مفلوج کئے رکھا، مرکزی ایجنسیوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مگر کیا صوبائی پولیس کی صلاحیت، کارکردگی اور نتائج میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا؟ ایسی تبدیلی جو فوری نظر آئے... جواب ایک بار پھر نفی میں ہے۔ 
اگلا سوال ہے کہ کیا پشاور جو صوبے کا چہرہ ہے، اسے ایک صاف ستھرا ، خوبصورت شہر کہا جا سکتا ہے ؟ ایسی تبدیلی جو فوری نظر آئے...جواب ایک بار پھر نفی میں ہے۔ پشاور میں کچھ بہتری ہوئی ہے۔ٹریفک وارڈنز کے آنے سے کرپشن کا خاتمہ ہوا، ایک دو اچھے پراجیکٹ بھی بنے ، مگر پشاورکانقشہ نہیں بدلا جا سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان پشاور سے قومی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھتے، ان کا اس شہر، صوبے سے گہرا تعلق رہتا، وہ ہفتے میں کم از کم دو دن پشاور گزارتے، ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرتے، خود شہر یوں سے ملتے جلتے رہتے، صوبائی حکومت کی کارکردگی اپنی آنکھوں سے جانچتے۔ پھر اپنے ویژن، بیرون ملک تعلقات اور تحریک انصاف کے لئے ہمدردی رکھنے والے اوورسیز پاکستانیوں سے رابطہ کرتے اور ان کی سرمایہ کاری، ان کے مشوروں سے صوبے کو یکسر بدل دیتے۔ وہاں جانے والا ہر شخص خود یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا کہ خان صاحب کوملک بھر کے معاملات چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے ۔ 
اب خبر آئی ہے کہ آزاد کشمیر کا انتخاب ہارنے کے بعد عمران خان کے پی کے میں تیز رفتاری سے کام کرنے کے لئے یکسو ہوگئے ہیں۔ انہوں نے صوابدیدی فنڈز ختم کر کے بلدیاتی اداروں سے ترقیاتی کام کرانے کا انقلابی اعلان بھی کیا ہے۔ عمران خان کے پاس وقت کم رہ گیا ہے، انہیں بہت تیزرفتاری سے چلنا بلکہ دوڑنا ہوگا۔ کاش کہ وہ پہلے تین برس ضائع نہ کر تے اور تعمیر وترقی کو اپنا فوکس بناتے تو آج نقشہ مختلف ہوتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں