عمران خان کے پاس کیا آپشنزموجود ہیں؟

سب سے پہلے یہ اعتراف کرنا چاہوںگاکہ اصولی طور پر مجھے عمران خان کی طرف سے دو نومبرکو اسلام آباد میں احتجاج اور شہر بند کرنے کی دھمکی پر تشویش ہے۔ اس بات سے متفق ہوںکہ کسی بھی شخص کو اس حد تک احتجاجی سیاست کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ بالکل بھی درست نہیں کہ وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ کر کے کاروبار زندگی معطل کر دیا جائے، شہریوں کی زندگی اجیرن اور حکومت مفلوج ہوکر رہ جائے۔ اسی طرح کسی وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے اور حکومت ختم کرنے کی کوئی روایت قائم نہیں ہونی چاہیے۔ ایک بار اگر ایسا ہو گیا تو پھر بار بار ہوتا رہے گا۔ کل کو عمران خان اقتدار میں آ گیا تو پھر اس کے ساتھ بھی اپوزیشن ایسا کر سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی لکھاری اور تجزیہ نگار مسلسل یہ دلائل دہرا رہے ہیں، ان سے مجھے اصولی طور پر اتفاق ہے۔ درست بات ہے کہ سیاسی نظام ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے، کسی طالع آزما کو آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ سب باتیں بجا ہیں، درست ہیں، ان سے ہر عقل و ہوش رکھنے والا شخص اتفاق کرنے پر مجبور ہوگا۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ پھر عمران خان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کے پاس کیا آپشنز بچی ہیں؟
عمران کے پاس احتجاج کے سوا اورکونسا راستہ کھلا ہے؟ اس سوال کا جواب اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت یا ان کے میڈیا سیل سے مانگا جائے، حکمران جماعت کے اتحادی مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، محمود اچکزئی، ڈاکٹر مالک بلوچ، شیرپائو وغیرہ سے رائے لی جائے یا پھر ہمارے پیارے ملک کو فرینڈلی اپوزیشن کی اصطلاح کا تحفہ دینے والی پیپلز پارٹی اور حکومتی وزیر برائے اپوزیشن امورکا عوامی خطاب پانے والے قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ سب متفقہ طور پر یہی فرمائیں گے کہ عمران خان کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں، وہ پاناما لیکس والا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائے، جہاں( محتاط اندازے کے مطابق ) اگلے ڈیڑھ دو برسوں میں ٹی او آرز طے ہوجائیں گے، تب تک نیا الیکشن سر پر آپہنچے گا تو قوم کے عظیم مفاد میں اس مسئلے کو اگلی پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے گا۔ عمران خان تب تک اپنی کے پی کے حکومت کی طرف رجوع فرمائیں یا آرام سے بنی گالہ میں رہیں اور ٹی وی پر جناب وزیراعظم کے ملک و قوم کے مفاد میں کئے جانے والے عظیم الشان ترقیاتی پروگرام دیکھ کر محظوظ ہوں، دل چاہے تو تالیاں بھی بجا لیں۔ اگلے الیکشن کے بعد،جس میں2013 ء والے نتائج کا ری پلے ہی دیکھنے کے نوے فیصد سے زیادہ امکانات ہیں، اس کے بعد عمران خان چاہے تو ایک بار پھر دھاندلی کا نعرہ لگا سکتا ہے، جس کے بعد پورا حکومتی میڈیا اور اس کے حمایتی قلم کار وتجزیہ کار طنزکے نت نئے اسلوب تراشتے ہوئے خان کا مضحکہ اڑائیں گے، اسے دھاندلی خان کہہ کر نکو بنائیںگے۔ تب خان صاحب چاہیں تواپنے بیٹوںکی تربیت کے لئے انگلستان تشریف لے جا سکتے ہیں، کرکٹ کمنٹری کی آپشن ان کے پاس ہمیشہ کھلی ہے یا پھر دوبارہ سے سوشل ورک شروع کر دیں۔ غرض یہ کہ جو مرضی کریں، مگر پیارے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف کچھ نہ بولیں۔ اس طرح اور اس سے ملتی جلتی باتیں ہیں جو شریف خاندان، ان کے سیاسی اتحادی اور ان سے وابستہ میڈیا والے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پرکہتے اور سمجھاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ میرے جیسے لوگ عمران خان کی آل آئوٹ وارکے حامی نہیں ہیں، احتجاجی تحریک کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانے کو قطعی سپورٹ نہیں کرنا چاہتے۔ دو سال پہلے اسلام آباد کے دھرنے کی میں نے مخالفت کی تھی۔ آج بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ شہر بند کر دینا انتہا پسندی ہے۔ سیاسی عمل میں اس شدت تک نہیں جانا چاہیے۔ مجھے نہیں پتا کہ عمران خان کے اس ایڈونچرکا کیا انجام ہوگا؟ وہ لوگ اکٹھے کر پائے گا یا نہیں؟ اس کے خلاف حکومتی کریک ڈائون ہوجائے گا،گرفتاریاں، نظربندی یا کچھ اور؟ یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ دو نومبر کے فائنل شو میں ابھی نو دس دن پڑے ہیں، امید کرنی چاہیے کہ معاملہ سنبھال لیا جائے گا۔ سوال تو مگر یہ ہے کہ کس سے امید کی جائے؟ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ادارے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ہمارے اس گلے سڑے سسٹم میں اتنی قوت، سکت اور مزاحمت موجود نہیں جو اپنی من مانی پر تلے ہوئے حکمرانوںکو راہ راست پر لا سکے اور جس سے اپوزیشن کو انصاف پانے کی امید ہو۔ میرا اصل دکھ اور المیہ ہمارے سسٹم کی یہی ناکامی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس کوئی ایسی ٹھوس دلیل موجود نہیں جس کے ذریعے میں عمران خان یا تحریک انصاف کو آل آئوٹ وار سے روک سکوں، انہیں قائل کر سکوںکہ آپ اسلام آباد کا محاصرہ نہ کریں، شہر بند نہ کریں، آپ کوہمارا سسٹم انصاف مہیا کرے گا۔ سردست میرے پاس صرف اقوال زریں ہیں، اخلاقی حوالے ہیں، اصولی کتابی باتیں ہیں جو اس کالم کے پہلے پیرے میں سب دہرا دی ہیں، مگر بدقسمتی سے مجھے خود وہ الفاظ کھوکھلے، بے معنی اور کمزور لگ رہے ہیں۔ 
میں نہیں چاہتا کہ عمران خان یا کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے احتجاج کو انتہا پر لے جائے، شہر بند کرے، حکومت الٹانے کی کوشش کرے۔ ان سب باتوں پر میں یقین نہیں رکھتا، ان کی وکالت نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اتنا مایوس بھی ہوںکہ ہمارا یہ سسٹم عمران خان کو انصاف دے سکتا ہے۔ نہیں، قطعی نہیں۔ غیر جانبدار ذہن رکھنے والے کسی شخص کو اس میں شک ہوگا کہ پاناما لیکس والا پورا معاملہ بڑا اہم اور حساس ہے۔ شریف خاندان پر پچھلے بیس برسوں سے یہ الزام لگ رہا تھا کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کر کے لندن میں جائیداد خریدی۔ اس کے جواب میں شریف خاندان، مسلم لیگی رہنما اور ان کے صحافتی وکیل دھڑلے سے انکار کر دیتے تھے۔ پاناما لیکس نے اس دیرینہ الزام کو پہلی بار وزن دیا۔ جناب وزیراعظم نے اس بات کو محسوس کیا اور وہ فوراً ٹی وی پر آئے، قوم سے خطاب کیا، اپنی صفائی پیش کی اور اعلان کیا کہ اس الزام کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا۔ عملی طور پر کیا ہوا؟ حکومت نے سرتوڑ کوشش کی کہ ایسا کوئی کمیشن نہ بن سکے، شاید انہیں معلوم ہے کہ اس طرح وہ بری طرح پھنس جائیںگے۔ دانستہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے گئے، عمران خان نے اتمام حجت کے لئے پارلیمنٹ کی آپشن استعمال کی۔ وہاں پہلے تو پارلیمانی کمیٹی ایسی بنائی گئی جس میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی تعداد زیادہ ہو۔ پھر ٹی او آرز کا ایسا ڈرامہ رچایا گیا کہ کئی مہینے اس میں صرف 
ہوگئے۔ تھوڑی سی بھی معلومات رکھنے والا ہر شخص جانتا تھا کہ یہ اتفاق رائے کبھی نہیں ہوگا۔ مسلم لیگی ارکان اسمبلی نجی محافل میں مسکراتے ہوئے کہتے کہ ہم پاگل ہیں جو اتفاق رائے کر لیںگے، اپنی گردن میں رسہ کیوں ڈالا جائے گا؟پھر ایسا ہی ہوتا رہا۔ پیپلزپارٹی نے تو سیاسی ڈرامہ بازی کی حد کر دی۔ ایک بیان حکومت کے خلاف مگر عملی طور پر حکومت کی سپورٹ۔ متحدہ اپوزیشن بنا کر ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔ عمران نے اپنے طور پر جدوجہد شروع کی تو پھر اسے طعنے دیے گئے۔ لگتا ہے کہ جناب زرداری اور خورشید شاہ اس پوری قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں؟ افسوس کہ قوم اتنی بے وقوف کبھی نہیں تھی، اگر ہوتی تو تین صوبوں سے پیپلزپارٹی کا صفایا نہ ہوتا۔ سندھ میں بھی چونکہ دوسری آپشن نہیں تھی اس لئے وہاں وہ سلوک نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن، نیب ، ایف بی آر نے تو ثابت کیا ہے کہ وہ ریاست کے نہیں بلکہ حکومت کے ادارے ہیں۔ عدالتوںکا ہم احترام کرتے ہیں، ان پرکام کے دبائوکا اندازہ ہے مگربعض اوقات تاخیر سے انصاف مل بھی جائے تو وہ بے فائدہ ہوتا ہے، جیسے خواجہ آصف اور سعد رفیق کے حلقوں کا فیصلہ تین سال گزرنے کے باوجود نہیں ہو سکا، کیا پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد فیصلہ ہونا چاہیے؟ پاناما کیس کا نوٹس لینے کا فیصلہ مستحسن ہے، مگرسپریم کورٹ کوئی تفتیشی ادارہ یا ٹرائل کورٹ تو ہے نہیں ۔ پاناما کوئی قانونی نکتے والا کیس نہیں ہے، اس کے لئے تو جوڈیشل کمیشن ہی بننا چاہیے اور فوراً ۔ عوام اور اپوزیشن رہنمائوںکو قومی اداروں سے انصاف کی امید باقی رہے تو انتہا پر جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے گی۔ پھر شدت پر آمادہ رہنمائوں کو قوم مسترد کر دے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو صرف اقوال زریں کے زور پر عوامی احتجاج اور سیاسی ایجی ٹیشن کو روکنا ممکن نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں