پہلا رائونڈ حکومت کے خلاف گیا

مسلم لیگ ن کے رہنما، کارکن اور میڈیا میں ان کے حمایتی تسلیم نہیں کریں گے، مگر یہ حقیقت ہے کہ حکومت اعصاب کی جنگ ہارچکی ہے۔ اس نے وہ تباہ کن غلطی کر دی جس کے بعد کبھی کوئی حکومت سکون سے کام نہیں کر پائی۔ اکتوبر کا یہ آخری ہفتہ حکمران جماعت اور حکمران خاندان کی زندگی کا اہم ترین ہفتہ تھا۔اس میں شک نہیں کہ صورتحال کڑی اور اعصاب شکن تھی۔ عمران خان نے اسلام آباد دھرنے کا اعلان کر کے حکومت کوآزمائش میں ڈال دیا تھا۔ کئی سازشی تھیوریاں اس کے بعد جنم لینے لگی تھیں۔ یہ درست ہے کہ ایسی اعصاب چٹخانے والی صورتحال میں کوئی بھی لیڈر یا حکمران غلطی کر سکتا ہے، مگرمیاں نواز شریف جیسے تجربہ کار سیاستدان جو تیسری بار وزیراعظم بنا، ان سے یہی توقع تھی کہ وہ ٹھنڈے دل ودماغ سے فیصلے کریں گے اور اپنے تجربے سے تحریک انصاف کو مات دینے کی کوشش کریں۔ افسوس کہ جمہوریت ، آئین اور قانون کی دعوے دار ،علمبردار سیاسی جماعت اور سیاسی حکومت معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے بجائے غیر جمہوری ہتھکنڈوں پر اتر آئی۔ مخالفین پر کریک ڈائون، خواتین کو مارنا، سیاسی کارکنوں کو گھسیٹ کر پولیس گاڑیوں میں ڈالنا، شیلنگ ، تشدد، گرفتاریا ں، نظربندیاں...یہ وہ سب حربے ہیں جو غیر جمہوری اور آمرانہ حکومتیں روا رکھتی ہیں۔ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت بھی وہی کر رہی ہے تو اس میں اور جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت میں کیا فرق رہ گیا ؟ سچ تو یہ ہے کہ عملی طور پر کچھ فرق باقی نہیں رہا۔ 
اس اعصاب شکن جنگ میں دبائو تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں پر بھی تھا۔ عمران خان نے فیصلہ کن دھرنے کا اعلان تو کر دیا مگر پارٹی کے اندر یہ خدشہ موجود تھا کہ دھرنا کامیاب نہ ہوا تو کیا ہوگا؟ تحریک انصاف کے ایک دو رہنمائوں سے بات ہوئی تو ان کی باتوں سے لگا کہ اندر سے وہ بھی پریشان ہیں کہ خان صاحب کچھ زیادہ آگے نکل گئے ہیں، واپسی کا راستہ رکھا ہی نہیں۔ اس قدرآگے جانے کے بعد اگر ناکامی ہوئی،جس کے امکانات بہرحال موجود تھے ، تو ایسی صورت میں سیاسی تباہی یقینی ہے۔ خود تحریک انصاف کے لئے بھی ایک چیلنج تھا کہ وہ اسلام آباد اتنے زیادہ آدمی اکٹھے کر لے جس سے دبائو بڑھانا ممکن ہوسکے۔ کہناآسان بات ہوتی ہے، مگر پچاس ہزار آدمی اکٹھے کرتے بھی دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ پچھلے دھرنے کے موقعہ پر لاکھوں لوگ جمع کرنے کا دعویٰ کیا گیا، مگر بمشکل دس پندرہ ہزار لوگ لے کر خان اسلام آباد داخل ہوا۔ دھرنے کے دوران بھی خان صاحب پچیس تیس ہزار سے زیادہ لوگ جمع نہیں کر پائے تھے،اس وقت تو عوامی تحریک کا سہارا موجود تھا، جن کے منظم کارکنوں نے دھرنے کاشروع کے کئی ہفتے تقویت پہنچائے رکھی۔ اس بار تو ایسا بھی نہیں تھا۔ تحریک انصاف کی قیادت ، رہنما اور کارکن دل ہی دل میں یقیناً خوش ہوں گے کہ انہیں حکومت نے اس آزمائش سے بچا لیا اور شہر شہر دھرنے کی آپشن مہیا کر دی۔ جو شو وہ دو نومبر کو لگانا چاہ رہے تھے، وہ پانچ روز پہلے سے شروع ہوگیا۔ ایک رائے یہ ظاہر کی گئی تھی کہ اس بار میڈیا دھرنے کو پہلی کی طرح کوریج نہیں دے گا۔ اب جب سیاسی احتجاج ہوگا، کارکن سڑکوں پر نکلیں گے، شہر بند ہوجائے گا تو میڈیا اور کیا دکھا سکتا ہے؟کوئی چینل چاہے بھی تو تحریک انصاف کے احتجاج کے سوا اور کچھ نہیں دکھا پائے گا۔
دو سال پہلے دھرنا دیا گیا تو اسے حکومت نے نہایت دانشمندی اور احتیاط سے ڈیل کیا۔ لوگوں کو جمع ہونے دیا گیا، ان پر گولیاں چلانے سے گریز کیا گیا، شروع میں ایک آدھ ٹکرائو کے بعد دھرنے کے شرکا کو نہیں روکا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سیاسی اجتماع کا مقابلہ سیاسی انداز سے کیا ۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ وہاں پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئیں، جمہوریت کے حق میں تقریریں ہوتی رہیں۔صورتحال یہ ہوگئی کہ عمران خان کے سوا تمام سیاسی قوتیں نوازشریف کے ساتھ کھڑی تھیں،جماعت اسلامی نے درمیان میں رہنے کی کوشش کی، مگر اس کے لئے بھی تحریک انصاف کا کھل کر ساتھ دینا ممکن نہ رہا۔ ایسی صورتحال میں اگر کسی تیسری قوت نے مداخلت کرنا بھی تھا تو اس کے لئے ممکن نہ رہا۔ یہ ہوتا ہے سیاسی تدبر اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو استعمال کرنا۔اس بار بھی اگر اجتماع ہونے دیا جاتا تو قوی امکانات تھے کہ بہت بڑا دھرنا نہ ہوپاتا، دوسرا اسلام آباد شہر کو اگر بند کردیا جاتا تو تحریک انصاف عوامی تائید سے محروم ہوجاتی اور کسی بھی حلقے کے لئے اس کی سپورٹ کرنا ممکن نہ رہتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تو حکومت کے لئے بہت آسانی پیدا ہوگئی تھی۔ وہ صرف عدالتی فیصلے کے ساتھ کھڑی ہوتی اور باقی کام عدالت نے کرنا تھا۔ عمران خان اگر نہ مانتا تو توہین عدالت کا سامنا اسے ہی کرنا پڑتا۔ 
حکومت نے جو حکمت عملی اپنائی ، وہ مایوس کن اور غیر جمہوری رویے کی مظہر ہے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے یوتھ کنونشن پر کریک ڈائون کی کوئی تک نہیں تھی، پنڈی کو بند کرنا ا ور لال حویل کو سیل کرنا عاقبت نا اندیشانہ اقدامات ہیں۔ شیخ رشید عوامی سیاستدان ہیں، وہ جس طرح موٹر سائیکل پر سوار ہو کر پولیس کو جل دے کر کمیٹی چوک پہنچے اور پھر کمال ہوشیاری سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، اس سے شیخ صاحب کو سیاسی فائدہ ہی پہنچا۔ یہ درست ہے کہ ابھی تک تحریک انصاف کے کارکن بڑی تعداد میں باہر نہیں نکلے ، مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی احتجاج کی تاریخ بھی بدل چکی ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران بڑے جلسے جلوس تو نکلتے رہے ہیں، مگر ایجی ٹیشن کا سٹائل بدل گیا ہے، بہت سے لوگ گھرمیں بیٹھ کر ٹی وی سکرین پر احتجاج دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں شہباز شریف کی واپسی، نواز شریف کی واپسی اور پھر ائیرپورٹ سے جدہ بھیج دینے کے مواقع پر کون سے مسلم لیگی کارکن باہر نکلے تھے؟ خود بارہ اکتوبر ننانوے کو شریف حکومت کی برطرفی پر کہاں احتجاج ہوتا رہا؟ کون بھول سکتا ہے کہ بیگم کلثوم نواز اکیلی گاڑی میں نکلتی رہیں ، ان کی گاڑی کرین سے اٹھا کر معلق کر دی گئی تھی اور کوئی مسلم لیگی کارکن انہیں بچانے کے لئے باہر نہیں نکلا۔ تحریک انصاف کے کارکن تو پھر بھی کچھ نہ کچھ نظر آ رہے ہیں، شیلنگ اور لاٹھی چارج کھانے کا انہیں تجربہ نہیں، اس کے باوجود وہ نکل تو رہے ہیں۔تحریک انصاف کی حکمت عملی بھی یہی نظر آتی ہے کہ ایک ہی دن سب لیڈر اور کارکن گرفتار ہونے کے بجائے چھوٹے چھوٹے شو کر کے میڈیا پر اپنے احتجاج کو زندہ رکھیں ، دو ونومبر کو شائد وہ اپنی قوت مجتمع کر کے باہر نکلیں گے۔
حکومت پہلا رائونڈ ہار گئی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی بھی ختم ہوگئی اور اس کے کارکنوں پر پولیس کا کریک ڈائون عوامی ہمدردی پیدا کرے گا۔ اب یہ تحریک انصاف کا امتحان ہے کہ وہ اپنے احتجاج کو کس قدر طویل لے جا سکتی ہے؟ اپوزیشن کے پچاس سو کارکن بھی باہر نکلتے رہیں تو ٹی وی کیمروں کے لئے کافی ہے، انہیں اپنی من پسند غذا مل جائے گی۔ حکومت کی خواہش پرامن ماحول ہوتی ہے جبکہ ٹکرائو اور احتجاج خواہ کس قدر چھوٹے سکیل کا ہو، وہ اپوزیشن کے حق ہی میں ہوتا ہے۔ 
پس نوشت : جب پولیس کوحکمران سیاسی حربوں کے لئے استعمال کریں گے تو پھر پولیس انسپکٹروں اور اہلکاروں کو لوٹ مار اور عام آدمی کے استحصال سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ یہ کالم لکھ رہا تھا کہ اوکاڑہ سے معروف ادیب اور شاعر علی اکبر ناطق کا فون آیا۔ علی اکبر ناطق کے ناول نولکھی کوٹھی نے ادبی حلقو ں میں بڑی پذیرائی حاصل کی، پینگوئن جیسا عالمی شہرت یافتہ ادارہ اسے بھارت سے شائع کر رہا ہے،روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین میں یہ ناول سلسلہ وار شائع ہو رہا ہے۔ ناطق کی کتابیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس جیسے ادارے نے شائع کی، شاعری اور افسانوں کا انگریزی ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔اس سطح کے ادیب کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ علی اکبر ناطق کی ہمشیرہ کو مبینہ طور پر ان کے خاوند نے تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایسے بے رحمانہ اور بہیمانہ قتل کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی جار ہی ۔ گلوگیر آواز میں نوجوان ادیب نے بتایا ،'' ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ڈی پی او ہماری بات سن لے ، قائل ہو تو کارروائی کرے۔ قتل ہمارا ہوا ہے اور ظلم کا نشانہ بھی ہم بن رہے ہیں۔‘‘ صوبائی انتظامیہ اور پولیس کی اعلیٰ قیادت میں سے کوئی ہے جو ایک جینوئن ادیب اور استاد کو انصاف دلا سکے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں