وولبر بچے

کچھ بچے وولبر ہوتے ہیں۔دوسرے سے مختلف، انہیں کچھ زیادہ توجہ، دیکھ بھال کی ضرورت رہتی ہے۔ سیامی بلی کی طرح جو دیکھنے میں نہایت حسین، مگرمزاج میں بلا کی نخریل اورنک چڑھی ہوتی ہے۔اگر گھر میں سیامی بلی پالنی ہے، اس کی دلنشیں چال، معصوم چہرے اور خوبصورت ادائوں سے لطف اٹھانا ہے تو پھرکچھ کشٹ بھی کاٹنا پڑے گا۔سیامی بلی کو گرمی زیادہ لگے گی، ٹھنڈا کمرہ چاہیے ہوگا، غذا خاص ملنی چاہیے، دیگر معاملات میں بھی وہ خاص توجہ کی متمنی ہوتی ہے، نہ دی جائے تو یہ بیزار، چڑچڑی اور مرجھانے لگے گی۔ بچوں کی بھی مختلف اقسام ہیں۔ انہی میں سے ایک قسم وولبر بچے ہیں۔ ابوعہ بھی ایک وولبر بچہ ہے، اس کا ادراک اگرچہ مجھے قدرے تاخیر سے ہوا۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے وولبر اصطلاح کی وضاحت ضروری ہے۔ اس کے لئے مگر آپ کو بچوں کی مشہور کہانی وِنی دا وِچ سنانی پڑے گی۔ 
ونی داوِچ(Winnie the Witch ) ایک دلچسپ کہانی ہے۔ وِنی دراصل ایک وچ یعنی بوڑھی چڑیل ہے جو ایک بڑے محل (کیسل)میں رہتی ہے۔ ونی کو سیاہ رنگ اور گھپ اندھیرا بہت پسند ہے، اپنے محل میں بھی اس نے دیواروں، دروازوں پر سیاہ رنگ کرا رکھا ہے۔ اس کی پالتو بلی کا نام وولبر ہے، اس کا رنگ بھی گہرا سیاہ ہے۔ اصل کہانی میں ویسے بلی کا نام وِلبر(Wilbur) ہے۔ ہمارے گھر میںالبتہ یہ وولبر کے نام سے مشہور ہوئی کہ بڑے بیٹوں صارم اور معز کو وِ لبر کی نسبت وولبر نام زیادہ آسان لگا۔ اس لئے کالم میں بلی کا نام وولبر ہی استعمال ہوگا۔
ایک دن ونی دا وچ کے محل میں ایک بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ ونی چلتے ہوئے وولبر بلی سے ٹکرا کر گر گئی ۔دراصل وولبر کا رنگ بھی سیاہ تھا،ادھر فرش بھی کالے رنگ کاتوونی کو وولبر نظر ہی نہیں آئی۔،ایساتواترسے ہونے لگا۔ شائد ونی کی نظر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی، مگر جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا ہے ، کسی آئی سپیشلسٹ کو دکھانے کے بجائے ونی چڑیل نے اپنے طور پر اس کا حل نکالنا چاہا۔ اس نے اپنی جادو والی چھڑی اٹھائی اور منتر پڑھا ''ایبرا کا ڈیبرا‘‘۔ فوراً ہی وولبر تین چار رنگوں والی بلی بن گئی۔ اس کا سرسرخ رنگ کا، منہ سبز، کان سفیدجبکہ باقی جسم پرسرخ اور زرد کا امتزاج سابن گیا۔ ٹیکنی کلر وولبر نے ونی دا وچ کا مسئلہ تو حل کر دیا، مگر اب وولبر پریشان ہوگئی۔ اسے کوئی بلی سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوا۔ وہ درخت پر چڑھی تو آس پاس اڑنے والے پرندے اس پر ہنسنے اور فقرے کسنے لگے۔ وولبر چونکہ ایک حساس بلی تھی، اس نے اس تنقید کو دل پر لیا اور اداس رہنے لگی۔ اب وہ لان میں چڑیوں کے پیچھے بھاگتی، درخت پر چڑھتی اور نہ ہی گھر میں ادھر ادھر گھومتی پھرتی۔ ونی دا وچ کو تشویش ہوئی۔ اس نے وولبر کا مسئلہ جاننا چاہا ، جب معلوم ہوا تو پھر اس نے وولبر کو دوبارہ سے سیاہ رنگ کی بلی بنا دیا،مگر اپنی جادو کی چھڑی اٹھا کر ایک نئے انداز سے ''ایبرا کا ڈیبرا‘‘ کہا اور پھر ونی دا وچ کا بلیک کیسل نہایت خوبصورت کئی رنگوں والا محل بن گیا۔ جس کا فرش چمکدار سنہرے رنگ کا،دیواروں پر دلکش پینٹ، دروازے اور فرنیچر بھی دیدہ زیب تھے۔اب ونی دا وچ کو وولبر کی کوئی پریشانی نہیں تھی کہ اتنے حسین رنگوں والے محل میںکالے رنگ کی وولبر دور سے دکھائی دیتی تھی۔
وولبر کہانی سننے اور دیکھنے کے بعد ہمارے گھر کے سب سے چھوٹے بچے یعنی تین سالہ ابوعہ (عبداللہ )نے بھی خود کو وولبر قرار دے دیا۔ ایک خاص قسم کی سبز رنگ کی مخملی سٹائل کی جیکٹ وہ پہننے کی فرمائش کرتا اور اس کے بعد منہ سے میائوں میائوں کی آوازیں نکالتا ۔ اگرچہ وہ آوازیں کسی زکام زدہ بھینس سے مشابہ تھیں، لیکن ابوعہ کا اصراررہا کہ انہیں بلی کی آواز تصور کیا جائے اور پھر اس پر ہنسا جائے یا جواباً میائوں کہہ کر داد دی جائے ۔خیر اس طرح ہمارے گھر ایک وولبر بچہ آگیا۔ بچے میری کمزوری ہیں۔ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا، پیارکرنا، باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ پچھلے سال ڈیڑھ سے مصروفیت کچھ زیادہ رہی ہے۔ دفتر کی مصروفیت کے علاوہ لکھنے پڑھنے کا اپنا معمول اور اب سوشل میڈیا پر کچھ وقت دینے سے میرا گھر کے لئے وقت سکڑتا گیا اور اس کے نتیجے میں سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ ایک کمیونی کیشن گیپ پیدا ہوگیا۔ابوعہ سے بڑے بچوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا، مگر وہ تھوڑے ہی پر اکتفا کر گئے ۔ ابوعہ کے بے نیاز رویے نے مجھے پریشان کر دیا، یوں لگا جیسے بطور والد اپنے کردار میں ناکام ہوگیا ۔
ایک دن مجھے خیال آیا کہ بڑی عمر کے لوگوں کی طرح بچوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں،ہر ایک کا اپنا مزاج اور ٹمپرامنٹ ہے۔ وولبر بچے شائد کچھ زیادہ کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ابوعہ کے لئے زیادہ وقت نکالنا شروع کیا۔بازار تک جانا ہوتا، اسے ساتھ بٹھا کر لے جاتا،ایک دن پارک میں لے گیا اوراسے کھیلنے کے لئے خوب وقت دیا۔ گھر میں بھی اس کے ساتھ کھیلنا شروع کیا، گاڑیوں کی دوڑ،اکٹھے بیٹھ کر کہانیاں پڑھنا، کہانیاں سنانا، بچوں کی کارٹون فلمیں دیکھنا۔ چند ہی دنوں میں لگا کہ برف پگھلنے لگی ہے اور رات کو گھر لوٹنے پر ابوعہ نرم محبت بھری نظروں سے منتظر ملتا۔ اندازہ تو پہلے ہی تھا، مگر اس تجربے کے بعدسوچ میں یکسو ہوگیا کہ بعض بچے وولبر ہوتے ہیں۔ انہیں ایبرا کا ڈیبرا کی طرح کے منتر سے اپنے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ ان کے لئے وقت، توجہ اورپیار کی سرمایہ کاری درکار ہے ،تب دل جیت سکتے ہیں۔ 
دو تین دن پہلے ایک دوست ملنے آئے۔ وہ شاعر آدمی ہیں، عمدہ شعر کہتے اور باتیں مزے کی کرتے ہیں۔ گپ شپ ہوتی رہی۔ بچوں کا ذکر آیا تو میں نے یہ وولبر والا قصہ اور وولبر بچے والا تھیوری سنائی۔ سن کر لطف اندوز ہوئے۔ کچھ دیر بعدبولے ، ''آپ نے پڑھا ہوگا کہ ہر انسان کے اندر ایک بچہ چھپاہے، خواہ اس کی عمر کتنی ہوجائے، وہ بچہ موجود رہتا ہے۔اس واقعے سے خیال آیا کہ بندے کے باطن کے اندر کہیں ایک وولبر بچہ بھی موجود ہے۔ نازک مزاج ، حساس ، گداز دل کامالک۔جسے موسم، ہوائیں ، بارش، موسیقی، شعر، دھنک رنگ پسند ہیں۔ سرسراتی ہوائیں، پھولوں کے تختے،بھیگے موسم ، موسیقی کے بکھرے حسین سر، دلنشین لینڈ اسکیپ، رنگ برنگ مناظرمرغوب ہیں۔انسان کے اندر کا وولبر بچہ خوابوں، خیالوں کی دنیا میں رہتا ، خواب دیکھتا، خواب اگاتا اور سپنوں کی تعبیر کے لئے سرگرداں رہتا ہے۔ ایک بظاہر کرخت شکل وصورت کے، پتھر دل اور درشت آواز شخص کے اندر بھی کہیں یہ وولبر بچہ مل جائے گا، جو اس کے اندر نرمی جگاتا اور گاہے آس پاس والوں کو حیران کر دیتا ہے۔‘‘
دوست کی بات سن کر سوچتا رہا کہ اس نے سچ کہا ۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ زندگی کے تیز رفتار سفر ، وقت کے طوفانی ریلے میں بہتے ہوئے ہم اپنے اندر چھپے اس وولبر بچے کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ کیرئر، زندگی کے مشکل ٹاسک، خواہشات کے سنگ میل عبور کرتے ہمیں اس کا خیال ہی نہیں آتا۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ وولبر بچے دیکھ بھال اور توجہ کے متقاضی ہیں۔ اچھی کتاب، شاعری، موسیقی، فلم، اہل علم کی مجالس ، عمل خیراور سب سے بڑھ کرتنہائی میں بیٹھ کر اپنے اندر جھانکنا، اپنے آپ سے مکالمہ کرنا۔ وولبر بچے کو زندہ ، توانا رکھنے کے لئے یہ سب لازم ہے۔ اپنے اندر کے وولبر بچے کی حفاظت کریں۔ اس کا خیال رکھیں کہ یہ آپ کے حقیقی معنوں میں زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں