تین فیصلے جن کو سپورٹ کرنا چاہیے!

خبروں کا ایک ہجوم اور واقعات کی یلغار‘ جس میں بہت کچھ نظرانداز ہو جاتا ہے۔ کئی اہم خبریں، غیرمعمولی نوعیت کے فیصلے اسی ڈھیر تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔ آدمی ان کی ستائش کرنے، سراہنے کا سوچتا ہے، مگر پھر کوئی ہنگامی واقعہ توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور یوں وقت کا طوفانی ریلا دوبارہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتا۔ آج سوچا کہ ایسے ہی تین اہم فیصلوں، اقدامات کا ذکر کرتا ہوں، جنہوں نے دل شاد کیا۔ 
تین چار دن پہلے قومی اخبارات میں ڈائریکٹر جنرل پنجاب فو ڈ اتھارٹی نورالامین مینگل کی جانب سے ایک اشتہار شائع ہوا، جس میں کئی مشہور کوکنگ آئل اور گھی کے برانڈز کے بارے میں بتایا گیا کہ فوڈ اتھارٹی کی جانب سے ان پراڈکٹس کے نمونہ جات اکٹھے کئے گئے اور لیبارٹری تجزیہ کی رپورٹس سے واضح ہوا کہ ان میں سے کچھ وٹامن اے کی غیر موجودگی اور کم درجہ سپونیفکیشن کی وجہ سے ناقص معیار کے حامل ہیں جبکہ بعض دوسرے برانڈز کے بارے میں بتایا گیا کہ بدبودار، مصنوعی ذائقوں کی ملاوٹ اور بلند شرح تیزابیت کی وجہ سے فلاں فلاں گھی اور کوکنگ آئل انسانی صحت کے لئے مضر ہیں۔ یہ اشتہار پڑھ کر میں کانپ اٹھا۔ پچھلے کئی برسوں سے ان میں سے ایک دو برانڈز ہمارے گھر میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔
اس بات کی خوشی ہوئی کہ پہلی بار سرکاری سطح پر کسی ادارے نے ایسی اہم اور مفاد عامہ پر مشتمل معلومات عوام سے شیئر کی بلکہ اس کے لئے باقاعدہ اخبارات میں اشتہار دئیے گئے۔ یہ غیر معمولی اقدام ہے، جسے سراہنا چاہیے۔ ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے غیرمعمولی اعلان پر ملک بھر میں نہ سہی، پنجاب میں تو ہنگامہ مچ جاتا۔ اس پر ٹی وی پروگرام کئے جاتے، اخبارات ان کے لئے فرنٹ پیج پر خصوصی جگہ مختص کرکے فالو اپ سٹوریز لگاتے، سماجی تنظیمیں اپنے اجلاس بلاتیں اور بھرپور طریقے سے اس اعلان کی تشہیر کرکے پبلک تک پہنچانے کا سامان کریں، اسمبلی میں یہ بات اٹھائی جاتی اور منتخب نمائندے اپنے ووٹرز کے مفاد میں ایک تحریک چلاتے تاکہ آئندہ کسی گھی، کوکنگ آئل کمپنی کو ناقص مال سپلائی کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ گھی کمپنیوں نے جواباً ہڑتال کر دی۔ سینہ زوری شاید اسے ہی کہتے ہیں۔ بھارت میں ڈیڑھ دو سال پہلے نوڈلز کی ایک بہت مشہور پروڈکٹ کے بارے میں اسی طرح کا ایشو پیدا ہوا۔ لیبارٹری رپورٹس سے معلوم ہوا کہ ان نوڈلز میں سیسے اور بعض دوسرے کیمیکل عناصر کی مقدار زیادہ ہے، جو بچوں کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ بھارت میںاس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ شروع میں بعض ریاستوں نے ان نوڈلز پر پابند ی لگا دی، بھارت کی سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی، عوامی احتجاج، ریلیاں، کانفرنسیں، اخبارات میں مضامین، ٹی وی پروگرام ہوئے، عدالتوں میں لوگ گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ نوڈلزبنانے والی کمپنی نے اپنا تمام مال مارکیٹ سے اٹھا لیا۔ کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا مگر عوامی دبائو کے آگے اور کوئی چارہ نہیںتھا۔ یہ سب ایسی صورت میں ہوا جب بھارت میں بھی پاکستان کی طرح کرپشن بہت زیادہ ہے، پیسے دے کر اپنے حق میں لیبارٹری رپورٹس بنوانا، الزامات کلیئر کرانا عام ہے اور وہاں بھی اشتہار دینے والی کمپینیوں کے خلاف میڈیا میں خبریں شائع نہیں ہوتیں۔ اس کے باوجود جب سرکاری اداروں نے سٹینڈ لیا، پراڈکٹ کا نقصان دہ ہونا ثابت ہو گیا تو پھر کارپوریٹ پریشر بھی بے کار ہو گیا۔ کاش ہمارے ہاں بھی کم از کم کھانے پینے کی چیزوں کی حد تک ہی حکومتی حساسیت قائم ہو جائے، ادارے اس پر نظر رکھیں کہ کہیں کوئی مضر صحت پراڈکٹ تو عوام کو استعمال نہیں کرائی جا رہی؟ ڈبے کے دودھ کے حوالے سے بہت کچھ سننے میں آتا ہے، مگر اس پر خبر صرف اس وقت شائع ہوئی، جب جناب ثاقب نثار نے ہائی کورٹ میں اس حوالے سے کیس کی سماعت کی، تب عوام کو معلوم ہوا کہ ان پرکشش ڈبے کے دودھ میں یوریا، بال صفا پائوڈر اور جانے کیا کیا ملایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ میںجسٹس ثاقب نثار ہی نے اس کیس کی سماعت کی تو کچھ مزید خبریں باہر آئیں۔ اس حوالے سے عوامی مفاد کا خیال رکھنا حالانکہ متعلقہ اداروں کا کام ہے۔ نہایت خوش آئند ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے موجودہ ڈی جی اس حوالے سے فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ محترم نورالامین مینگل سے ہم یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ وہ برائلر مرغی کے حوالے سے مشہور افواہوں کی بھی تحقیق کریں۔ کئی ڈاکٹر اور ماہرین بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ برائلر مرغی کی فیڈ نہایت خطرناک اور مضر ہے، جس کے اثرات مرغی کے گوشت میں موجود رہتے ہیں۔ مینگل صاحب کو چاہیے کہ لیبارٹری سے اس امر کی تحقیق کرا کر اصل حقیقت کو واضح کریں۔ یہ اشتہار پہلا قطرہ ہوناچاہیے، ابھی اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
چند دن پہلے ایک عزیزہ گھر آئیں، کہنے لگیں، ایک عرصے بعد بچوںکو ٹی وی دیکھنے کی اجازت دی ہے، ریموٹ بھی ان کے حوالے کر دیا ورنہ پہلے کچھ دکھانا بھی ہوتا تو ساتھ بیٹھنا پڑتا۔ اسی طرح کا ردعمل ہر جگہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کا کریڈٹ پیمرا اور اس کے متحرک سربراہ کو جاتا ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز پر بندش بڑا کارنامہ ہے، جس پر پیمرا کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ اس میں دوسری رائے نہیں کہ ہمارے ہاں جس طرح بھارتی چینلز کی یلغار ہو چکی تھی اور پھر پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینلز جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے دھڑادھڑ بھارتی ڈرامہ سیریلز دکھائی جا رہے تھے، اس سے بچوں کے والدین بہت پریشان تھے۔ پاکستانی چینلز کے حوالے سے سخت الفاظ اس لئے استعمال کئے کہ ان کو ذرا بھی شرم نہیں آئی کہ ہندو پوجا، دیوی دیوتائوں کے تہواروں سے بھرے ڈرامے دکھائی جا رہے تھے۔ ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں بچوںکو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہمارے گھروں کی شادیوں میں سات پھیرے کیوں نہیں لئے جاتے اور درگا دیوی یا کڑوا چوتھ کے تہوار ہم کیوں نہیں منا رہے؟ ہمارا اپنا کلچر، رسومات اور اقدار ہیں، جن سے نئی نسل کو آگاہ کرنا، ان کی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ بھارتی ڈراموں نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا۔ سوائے چند الٹرا لبرل، سیکولر لوگوں کے، اسلامی اخلاقیات یا اقدار جن کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اس پر ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل موجود تھا۔ پیمرا کا شکریہ، جس نے عوامی خواہشات کی ترجمانی کی اور نہ صرف بھارتی چینلز پر پابندی لگائی بلکہ اسے عملاً نافذ بھی کر دیا۔ اس پالیسی پر سختی اور تسلسل سے کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے کچھ عرصہ قبل شراب کی فروخت کے حوالے سے ایک ایسا تاریخی فیصلہ کیا، جس کو ہفتوں، مہینوں ہمارے میڈیا پر سراہنا، زیر بحث لانا چاہیے تھا۔ افسوس کہ ایسی سردمہری اور بے نیازی سے کام لیا گیا جیسے سندھ، پاکستان میں نہیں، کسی دور دراز کے ملک میں یہ کام ہوا ہے۔ بات سادہ سی تھی، کراچی میں متعدد شراب خانے قائم ہیں، ایک شراب خانہ کے حوالے سے اعتراض اٹھایا گیا کہ یہ خالص مسلمان آبادی میں موجود ہے، جس کا کوئی جواز نہیں، کیس ہائی کورٹ میں گیا، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جناب سجاد علی شاہ نے سماعت کے دوران تکنیکی، قانونی نکات کا جائزہ لیا تو ایک عجیب و غریب انکشاف ہوا کہ حدود آرڈیننس کے تحت غیر مسلموں کو شراب ان کے مذہبی تہوارو ں کے موقعہ پر ہی دی جا سکتی ہے۔ اس پر عدالت نے مختلف رپورٹس طلب کیں اور معلوم ہوا کہ جس قدر غیر مسلم موجود ہیں، وہ اگر روزانہ کئی بوتلیں پی ڈالیں، تب بھی اتنی شراب نہیں بنتی، جتنی فروخت ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ مختلف مذاہب کے رہنمائوں جن میں عیسائی، ہندو اور سکھ شامل ہیں، ان سب نے کہاکہ ہمارے مذہب میں شراب کی اجازت نہیں ہے۔ بات صاف تھی کہ غیرمسلموں کے پرمٹ تو بہانہ ہی ہے، شراب پینے والے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں شراب پر پابندی ہے، مگر اس چور راستے سے شراب بیچی اور استعمال کی جاتی ہے۔ یہ بات طعنہ کے طور پر کی جاتی ہے کہ مسلمان ملک میں شراب پی جاتی ہے جو منافقت ہے وغیرہ وغیرہ۔ منافقت اصل میں یہ ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ غیر مسلموںکے نام نہاد پرمٹ ہی شراب کی فروخت کا باعث ہیں، مگر ان پر پابندی لگانے یا نئی قانون سازی کرنے کی بات کی جائے تو اچانک ہی کئی حلقے متحرک ہو جاتے ہیں۔ انسانی حقوق، اقلیتوںکی آزادی اور نجانے کیا کیا خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ شراب بیچنے کے لائسنس، پرمٹ اور اس کی غیر قانونی فروخت کے معاملے پر مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کو نظر رکھنی چاہیے۔ عدالتوں کے فیصلوں کے بعد اگلا مرحلہ نئی قانون سازی کا ہے، جس کے لئے عوامی دبائو کی موجودگی بہت اہم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں