’’ ہم قدرت کے ساتھ بھی فراڈ کر رہے ہیں‘‘۔ یہ سن کر میں میاں سلطان محمود کا منہ تکنے لگا۔ میاں سلطان محمود انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ پاکستان کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ واپڈامیں کئی سال ملازمت کے بعد اب اپنی کمپنی چلا رہے ہیں۔ یہ کمپنی پاکستان سمیت کئی ممالک کو بجلی کی اہم اشیا فراہم کر رہی ہے۔ ان میں ٹرانسفارمرز بھی ہیں اور جدید میٹرزبھی۔ بجلی کے پول بھی اور گرڈ سٹیشن میں استعمال ہونے والے تکنیکی آلات بھی۔وہ انجینئرنگ کے شعبے میں وسیع تجربے کے حامل تو ہیں ہی لیکن توانائی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب نے مجھے بھی ہلکان کر دیا تو میں نے گاڑی پکڑی اور میاں صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ کہنے لگے: ’’ ہم قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو خاطر میں نہیں لا رہے اور یہی ہمارے بحرانوں کی اصل وجہ ہے۔ توانائی کا بحران ڈنمارک میں بھی پیدا ہوا تھا جب 1973ء میں تیل پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن آج وہی ڈنمارک ہوا سے بجلی پیدا کرنے والا ورلڈ لیڈر بن چکا ہے اور یہ بیس فیصد بجلی صرف ہوا سے پیدا کر رہا ہے ‘ بنگلہ دیش میںبھی اس طوفان نے سر اُٹھایا تھا لیکن ہوا کیا۔ یہی ملک آج اتنا آگے نکل گیا ہے کہ نو برس قبل وہاں سات ہزار گھرانے شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر رہے تھے اور اب ان کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اگلے دو برس میں ان کا ہدف ایک کروڑ لوگ ہیں اور دور نہ جائیں ‘بھارت بھی اس کا شکار رہا ہے اور اب بھی ہے لیکن یہ کم از کم تگ و دو تو کر رہا ہے۔ بھارت لانگ ٹرم پالیسی بنا چکا ہے جس کے تحت یہ رواں سال کے آخر تک بیس ہزار اور 2020ء تک چالیس ہزار میگا واٹ سورج سے حاصل کر رہا ہو گا اور صرف سولر نہیں بلکہ بھارت ہوا سے بھی بارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے اور رواں سال کے اختتام تک اس میں چھ ہزار میگاواٹ کا اضافہ بھی ہو جائے گا‘‘ یہ کہہ کر میاں سلطان رُکے، ایک وقفے کے بعد بولے ’’ اب ذرا اپنے ملک کی حالت دیکھ لیجئے‘ یہاں دھوپ بھی وافر ہے‘ ہوا بھی‘ پانی بھی ‘ کوئلہ اور دیگر معدنیات بھی لیکن اگر کچھ نہیں ہے تو منصوبہ بندی نہیں ہے‘ ول پاور اور ویژن نہیں ہے‘‘ کہنے لگے ’’ ہمارا زیادہ انحصار تیل پر ہے‘ تیل سے یہاں ستاسٹھ فیصد ‘پانی سے اکتیس فیصد اور جوہری توانائی سے محض دو فیصد بجلی بنتی ہے‘ یہ درست ہے کہ ہم نے اگلے دس برس تک چونتیس ہزار میگا واٹ کے ہدف کا منصوبہ بنایا ہے اور فرض کر لیں اس وقت ہم ستائیس ہزار میگاواٹ لے رہے ہوں گے لیکن اس وقت ہماری کل ضروریات اکتالیس ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکی ہوں گی اور ہم ایک مرتبہ پھر چودہ ہزار میگاواٹ شاٹ فال کو لیکر سڑکوں پر ٹائر جلا رہے ہوں گے۔ اس سلسلے میں ہم بہت سے فیکٹر نظر انداز کر رہے ہیں۔ بجلی کے حصول کا پہلا ذریعہ پانی ہے اور پاکستان میں پانی سے بجلی بنانے کی صلاحیت ایک لاکھ میگاواٹ ہے جبکہ ہم ساڑھے چھ ہزار بنا رہے ہیں۔دوسرا ذریعہ شمسی توانائی کا ہے‘ ہمارے ملک میں اوسطاً ساڑھے نو گھنٹے کے حساب سے سورج کی روشنی میسر ہوتی ہے‘ اس لحاظ سے پاکستان میں دیگر ذرائع کے مقابلے میں سورج سے چالیس گنا بجلی پیدا کی جا سکتی ہے‘ تیسرا ذریعہ ونڈ انرجی ہے‘پاکستان ہوا کے ذریعے اڑھائی گنا زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے جبکہ فی الوقت ملک میں صرف ایک جھمپر ونڈ انرجی پلانٹ محض چھ میگا واٹ بجلی بنا رہا ہے جبکہ کل صلاحیت ایک لاکھ تیس ہزار میگاواٹ کی ہے‘ چوتھا ذریعہ بائیو گیس ہے‘ گائے کے گوبر‘ گنے کے ویسٹ‘ کوڑے کرکٹ اور سوکھی روٹیوں سے بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور بجلی پیدا کرنے کا پانچواں ذریعہ بڑا دلچسپ ہے‘ ہم سمندر کی لہروں کو بھی انرجی میں تبدیل کر سکتے ہیں اور جس وقت چودھویں کا چاند نمودار ہوتا ہے تو سمندر میں مدوجزر کی حالت پیدا ہو جاتی ہے‘ اس وقت لہریں انتہائی تیزی سے بلند ہوتی ہیں اور صرف اس موقع اور ان لہروں سے ہی فائدہ اٹھا لیا جائے تو پاکستان میں تین ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے لیکن یہ ہو گا تب جب ہمارے حکمران ارادہ کریں گے اور اس ارادے پر چٹان کی طرح ڈٹ جائیں گے‘ دوسری صورت میں وہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہو رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کم زیادہ ہوتی رہے گی اور ہر آنے والی حکومت کو اپنے ساتھ ڈبوتی رہے گی‘‘۔ گزشتہ روز میاں نواز شریف نے ترک کمپنی کے ساتھ ملاقات میں کوڑے سے بجلی بنانے پر اتفاق کیا۔ کوڑے یا کچرے سے بجلی کیسے بن سکتی ہے یہ میں آج سے چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں‘ لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ آج جب یہ بحران عروج پر ہے تو اس بارے میں سوچ بچار پھر شروع ہو چکی ہے۔ میں نے بہاولپور کے نوجوان سائنسدان شفیق اقبال کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ اس سلسلے میں ہر قسم کی مہارت رکھتا ہے۔ اگر میاں نواز شریف اس سے استفادہ کر سکیں تووطن کی اس سے بڑی خدمت کیا ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ کوڑابجلی میںتبدیل کیسے ہو گا‘ جواب انتہائی سادہ ہے۔ ری سائیکلنگ کے دوران کوڑے کو بائیو فرٹیلائزر میں تبدیل کیا جائے تو گیس بن جاتی ہے‘ اس گیس میں 65فیصد میتھین‘ 34فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ایک فیصد امونیا اور سلفر آکسائیڈ ہوتی ہے‘ دو سو ٹن کوڑے سے 14ہزار کیوبک میٹر گیس بن سکتی ہے جو آٹھ ہزار دو سو لیٹر پٹرول کے برابر ہوتی ہے‘ اگر اس گیس کو بجلی بنانے کیلئے استعمال نہ کیا جائے تو سات لاکھ پچاس ہزار روپے کا پٹرول ہوا میں ضائع ہو جاتا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق ایک کیوبک میٹر گیس سے پانچ کلو واٹ بجلی بن سکتی ہے دوسرے لفظوں میں دو سو ٹن کوڑے کو بجلی میں تبدیل کر کے تقریباً چار ہزار کلوٹ واٹ فی گھنٹہ کے حساب سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور اگر آپ صرف لاہور کی بات کریں تو لاہور میں روزانہ چھ ہزار ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا ہوتا ہے جس میں سے پانچ سو ٹن ویسٹ بسٹر کمپنی جبکہ چار ہزار پانچ سو ٹن سرکاری کمپنی لاہور ویسٹ مینجمنٹ اکٹھا کرتی ہے اور لاہور سے باہر محمود بوٹی کے مقام پر پھینک دیتی ہے جہاں کوڑے اور بدبو کے پہاڑ کھڑے ہو چکے ہیں اور لاہور کی آلودگی کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ اگر لاہور میں اس چھ میں سے تین ہزار ٹن کوڑاکھاد وغیرہ کیلئے استعمال کر لیا جائے اور باقی تین ہزار ٹن سے بجلی بنا لی جائے تو صرف لاہور شہر میںروزانہ چھ ہزار کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی کوڑے سے پیدا ہو سکتی ہے جو نیشنل گرڈ سے منسلک کی جاسکتی ہے اور جو نہ صرف روایتی بجلی سے دس گنا سستی ہو گی بلکہ اس سے لاہور کے تمام ہسپتال‘ تعلیمی ادارے‘ سٹریٹس لائٹس‘ بینک اور چھوٹی فیکٹریاں آسانی سے چل سکتی ہیں ۔ اگر میاں نواز شریف واقعی اس بحران سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو انہیں فوری طور پر ایسے منصوبوں کا آغاز کرنا ہو گا اور ان کی باگ روایتی بیوروکریسی کی بجائے میاں سلطان محمود اور شفیق اقبال جیسے ماہرین کے ہاتھ میں پکڑانا ہو گی وگرنہ ان منصوبوں کا حال سستی روٹی جیسے منصوبوں سے مختلف نہ ہو گا۔