نائب علی بازار‘ ڈھاکہ سے 80کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گائوں ہے ۔ گائوں میں سعید نامی شخص چائے کا کھوکھا لگاتا ہے۔ اس کے چار بچے ہیں جو ایک جھونپڑی نما گھر میں رہتے ہیں۔ تین سال قبل تک سورج غروب ہوتے ہی یہ گھر بھی تاریکی میں ڈوب جاتا تھا اوراس کی وجہ بنگلہ دیش کی حکومت تھی۔ یہ دعویٰ کرتی رہی کہ دیہات میں مقیم دس لاکھ سے زائد لوگوں کو جلد بجلی فراہم کرے گی۔ یہ وعدہ وعدہ ہی رہا اور سعید جیسے لاکھوں لوگ اس وعدے کے انتظار میں سوکھتے رہے۔ تاہم ایک دن سعید سٹپٹا اٹھا۔ اس نے جمع پونجی نکالی‘ کچھ پیسے اُدھار پکڑے اور بیوی کا زیور بیچ کر شہر چلا گیا۔ وہ بجلی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں تھا۔ ایک بڑی دکان میں پہنچا جہاں یو پی ایس ‘ جنریٹر اور سولر سسٹم موجود تھے۔ یو پی ایس سعید کے لیے بے کار تھا کیونکہ بجلی اس کے گائوں میں آتی ہی نہیں تو پھر یو پی ایس سے منسلک بیٹریوں کو ری چارج کیسے کرے گا۔ دوسری آپشن جنریٹر کی تھی۔ جنریٹر ڈیزل سے چلتا تھا ۔ اس نے حساب لگایا اگر وہ صرف رات کے چار گھنٹے بھی ڈیزل چلائے تاکہ اپنی دکان کو روشن رکھ کر زیادہ گاہکوں کو متوجہ کر سکے تو اس کے لیے اسے روزانہ کئی لیٹر ڈیزل خریدنا پڑے گا۔ یہ اس کے وارے میں نہیں آتا تھا۔ ’’پہلے جنریٹر پر پیسے خرچوں اور پھر روز اس کا تیل ڈلوائوں‘ اس طرح تو میرا ہی تیل نکل جائے گا‘‘ سعید بڑبڑایا۔ اب اس کے پاس ایک ہی آپشن باقی تھا کہ وہ سولر انرجی سسٹم لگا لے۔ اس کے اسے چار فائدے تھے۔ ایک ‘ اس میں روزانہ کے تیل کا کوئی خرچ نہ تھا، دو، سولر انرجی سے حاصل ہونے والی بجلی کا کوئی بل نہیں آنا تھا، تین ‘ صرف دو سالوں میں اس کی لاگت پوری ہو جانی تھی اور چار‘ یہ سسٹم 25سال کے لیے کافی تھا۔ سعید نے فوراً پیسے نکالے ‘ سسٹم لیا اور گائوں لوٹ آیا۔ اگلی شام کو جب سورج غروب ہوا تو گائوں کا صرف ایک گھر اور ایک دکان روشن تھی۔ یہ سعید کا گھر اور سعید کی دکان تھی۔ اس نے ایک سو بیس واٹ کا سولر پینل گھر کی چھت پر لگایا، اس سے ایک بیٹری منسلک کی اور یوں اس کا گھر اور گھر کے ساتھ منسلک دکان روشن ہو گئی۔ وہ گاہک جو سرشام گھروں کو لوٹ جاتے تھے یا موم بتی والی دکانوں میں گرمی میں بیٹھتے تھے‘ ان کا رخ سعید کی دکان کی جانب ہو گیا۔ سعید کی آمدن صرف تین ماہ میں اتنی ہو گئی کہ اس نے دکان چار گنا وسیع کر لی۔ چائے کے ساتھ کھانے کا چھوٹا سا ہوٹل بھی کھول لیا‘ اس کی بیوی اور دو بچے بھی اس کا ہاتھ بٹانے لگے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کاروبار پھیلنے لگا اور وہ گائوں کا امیر ترین آدمی بن گیا۔آہستہ آہستہ دیگر لوگوں نے بھی ہمت پکڑی اور ایک سال کے اندر اندر پورا گائوں سولر سسٹم پر منتقل ہو گیا۔ وہی سورج جو سارا برس اس گائوں کو دھوپ پہنچاتا تھا اب بجلی بھی مہیا کرنے لگا تھا۔ اب لوگوں کو حکومت کے جھوٹے وعدوں کی بھی ضرورت نہیں رہی تھی۔ حکومت بجلی دے بھی دیتی تو شاید اب یہ خود ہی ٹھکرا دیتے کیونکہ انہیں مفت بجلی مل رہی تھی جبکہ حکومت کی فراہم کردہ بجلی کے ساتھ ہر ماہ بلوں کا کرنٹ بھی لگنا تھا اور یہ بجلی ہر سال مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی جانی تھی، چنانچہ دیہاتیوں کے لیے سولر سسٹم سے بہتر کوئی چوائس نہ تھی۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں قیام کے دوران معلوم ہوا کہ برطانیہ بھی تیزی سے سولر انرجی اپنا رہا ہے۔ وہاںگھروں اور دفاتر کی چھتیں پینتالیس ڈگری زاویے سے جھکی ہوئی ہیں جو سورج کی توانائی حاصل کرنے کیلئے بہترین زاویہ ہے۔ لیکن برطانیہ کا موسم آئیڈیل نہیں ہے۔ وہ لوگ پاکستان اور اس خطے کے دیگر ممالک کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ برطانیہ میں سورج بہت کم نمودار ہوتا ہے۔ اوسطاً پانچ چھ گھنٹے سورج کی روشنی سے جتنی توانائی مل سکتی ہے وہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود سولر سسٹم لگانے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہمارے خطے میں سورج گرمیوں میںچودہ گھنٹے اور سردیوں میں دس گھنٹے نکلتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم آئیڈیل جگہ پر موجود ہیں۔ لیکن یہاں لوگ سولر سسٹم کی بجائے یو پی ایس اور جنریٹرز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ سولر سسٹم کی بہت زیادہ قیمتیں ہیں ۔ مارکیٹ میں کئی لوگ سولر کے نام پر سراسر دھوکے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ لیکن چند جینوئن لوگ بھی موجود ہیں۔ میں نے جس سے بھی سولر انرجی کی بات کی اس نے کہا لاکھوں روپے کہاں سے لائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہر دوسرے شخص کے پاس دس سے پچاس ہزار روپے تک کا موبائل فون موجود ہے۔ لوگ مہنگی ترین گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ ہزاروں روپے ہوٹلوں میں کھانے پر اڑا دئیے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ بچت کر کے یا فالتو چیزیں فروخت کر کے سولر انرجی کے لیے پیسہ نکالنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہر ماہ بجلی کے بھاری بل ادا کرنے کو تیار ہیں‘ میٹر ریڈروں کے ہاتھوں خواری بھی برداشت کر لیتے ہیں‘ بجلی چوروں کے بل کا بوجھ بھی اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں‘طرح طرح کی ایڈجسٹمنٹس ‘ سرچارج اور ٹیکسوں کو بھی ہضم کر لیتے ہیں اور بل درست کرانے کے لیے صبح سے شام تک دھکے کھانے کو بھی راضی ہیں لیکن ڈیڑھ دو لاکھ روپے خرچ کرکے پچیس برس تک مفت بجلی حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ چند روز قبل میرے ایک دوست نے چیختے ہوئے بجلی کا بل میرے سامنے اچھال دیا۔ کہنے لگا’’ حد ہو گئی۔ کبھی فالتو یونٹ کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ کبھی فلاں سرچارج کبھی فلاں ٹیکس۔ بجلی کے محکمے نے تو مجھے پاگل کر دیا ہے۔ چار روز سے مسلسل محکمے کے چکر لگا رہا ہوں۔ کوئی کسٹمر سنٹر کی طرف بھیج دیتا ہے۔ کوئی ریونیو آفس کی راہ دکھاتا ہے اور کوئی ایس ڈی او کے پاس جانے کا کہتا ہے۔ میں پورا ایک ماہ اکیلا گھر رہا ہوں۔ بیوی بچے پشاور گئے تھے۔ لیکن بل اسی ہزار کا آ گیا ہے۔ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ بل کیسے ٹھیک ہو گا کون کرے گا؟ میں کہاں جائوں کس سے فریاد کروں۔ تم تو اخبار نویس ہو میرا مسئلہ آسانی سے حل کرا دو گے‘‘ میں نے اسے گائوں نائب علی بازار کے مکین سعید کی کہانی سنائی تو اس کے سوئے ہوئے طبق جاگ اُٹھے ‘ مجھ سے مصافحہ کیا اورسولر سسٹم کی تلاش میں نکل گیا۔