ہم بنگلہ دیش سے ’’صرف‘‘ دس برس پیچھے ہیں‘ یہ جاننے کے لیے آپ بنگلہ دیش کے ضلع کولاپارا کی خاتون خانہ لبونی اختر کو دیکھ لیجئے۔ دو سال قبل تک‘ اسے ہر شام یہ مشکل درپیش رہتی تھی کہ اپنی دو بیٹیوں کی توجہ سکول کے کام پر کیسے مرکوز رکھے۔ برقی روشنی نہ ہونے کے باعث بچیوں کو مٹی کے تیل کی مدھم روشنی میں پڑھنا پڑتا تھا۔ لالٹین کو صاف کرنا، مٹی کا تیل خریدنا اورمسلسل فکر لگے رہنا کہ کہیں غلطی سے آگ نہ لگ جائے، روزانہ کا جھنجھٹ ہوا کرتا تھا۔ جب گھر کی ٹین کی چھت پر شمسی توانائی کا ایک پینل نصب ہوا تو ان کی زندگی بدل گئی ۔اتنی بجلی پیدا ہو نے لگی کہ تین کمرے روشن ہو گئے۔بیٹیوں کی شکایت بھی دور ہو گئی اور وہ بخوشی سکول کا کام مکمل کر نے لگیں۔ وہ ان ایک کروڑ لوگوں میں شامل ہو گئے جو ایک عشرہ قبل شروع ہونے والے ایک سرکاری پروگرام سے مستفید ہو رہے تھے۔ یہ پروگرام بنگلہ دیش حکومت اور عالمی بینک کی معاونت سے 2003 ء میں شروع کیا گیا۔ مقصد اُن ہزاروں دیہات کو روشن کرنا تھا جہاں سورج کے ساتھ ہی لوگوں کی زندگی بھی اگلی صبح تک کیلئے غروب ہو جاتی تھی۔ یہ پروگرام ’’کلک‘‘ کر گیا۔ اس کے تحت ہر گھر کو ایک سولر سسٹم مہیا کیا جانا تھا جس کے ذریعے گھر کے چار بلب اورایک پنکھا چلایا جا سکتا تھا۔ دیہاتیوںکے لیے یہ بڑی نعمت تھی۔ دن کے وقت تو یہ کسی طرح گزارا کر لیتے لیکن رات کا عذاب جھیلنا قدرے مشکل تھا۔ بچوں کی پڑھائی اور کام کاج میں مشکلات کے باعث پسماندگی بھی بڑھ رہی تھی۔یہ پسماندگی دور کرنے کے لیے حکومت نے 2015 ء تک قریباً دو کروڑ لوگوں تک شمسی بجلی پہنچانے کا پروگرام بنایا۔ شمسی توانائی سے بجلی مہیا کرنا شاندار فیصلہ تھا،کیونکہ دیہی علاقوں کے رہنے والے اس کا خرچ اٹھا سکتے تھے اور اس کی تنصیب میں لمبا چوڑا انفراسٹرکچر ‘ سرکاری محکموں کی امداد یا وقت درکار نہیں تھا بلکہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ایک گھر کو روشن کیا جا سکتا تھا ۔اس کے تحت ہر صارف کو ایک شمسی پینل اور ایک بیٹری دی جانی تھی۔ یہ پینل 20 سال تک روشنی دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ہر صارف 4,500 ٹکا یا 57.82 ڈالر(پانچ ہزار سات سو روپے ) ادا کر کے سولر سسٹم حاصل کر سکتا تھا۔ اس کے بعد اسے ماہانہ 36 ماہ کے لیے 750 ٹکا (9.63 ڈالر یا ایک ہزار روپے ) دینا تھے۔ غریب لوگوں کے لیے یہ زبردست ریلیف تھا۔ اس پروگرام کا ریسپانس اتنا شاندار تھا کہ دس برسوں میں 22 لاکھ سولر پینلز نصب ہو گئے جن سے بنگلہ دیش میں 90 میگا واٹ بجلی پیدا کی جانے لگی جبکہ 2015ء تک 170 میگا واٹ کا ٹارگٹ رکھا گیا۔ 20 لاکھ شمسی پینل نصب کرنے کی کامیابی کی خوشی میں ڈھاکہ میں ایک تقریب بھی منعقد ہوئی جس کی مہمان خصوصی وزیر اعظم شیخ حسینہ تھیں۔ اس پروگرام کے سات فائدے ہوئے۔ ایک، ہزاروں دیہات روشن ہو گئے۔ دو‘ بچے تعلیم حاصل کرنے لگے جس سے شرح خواندگی میں اضافہ ہو گیا۔ تین‘ رات کے وقت بجلی ملنے سے لوگوں کا کاروبار چل نکلااور معیشت مضبوط ہونے لگی۔ چار‘ شمسی توانائی میں تیل وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے ماحول کو لاحق خطرات بھی کم ہو گئے۔ پانچ‘ روایتی بجلی میں ہر ماہ بھاری بل آتے ہیں لیکن یہ بجلی مکمل طور پر مفت اور مسلسل ملتی تھی اس لیے لوگوں کی جیب پر غیر ضروری بوجھ کم ہو گیا اور وہ یہ پیسے بچت یا دیگر جگہوں پر استعمال کرنے لگے۔ چھ‘ لوگوں کو ذہنی سکون اور اطمینان حاصل ہو گیا کیونکہ اگر بجلی نہ ملتی تو وہ آج بھی سڑکوں پر حکومت کے خلاف ٹائر جلا رہے ہوتے اور سات‘ہر سال مٹی کا تیل برآمد کرنے کے سلسلے میں 120 ملین ڈالر کی بچت ہونے لگی کیونکہ شمسی توانائی کے استعمال کے بعد دیہات میں اس کی مانگ کم ہوگئی تھی۔ یہ بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے خطیر رقم تھی ۔ حکومت نے اس رقم کو دیہی علاقوں میں سڑکیں وغیرہ بہتر کرنے پر لگایاجس سے نوکری کے مواقع پیدا ہونا شروع ہو گئے اور یوں غربت بھی کم ہوئی۔ اس پروگرام کی کامیابی کے بعد بائیو گیس پلانٹ اور کھانا پکانے کے بہتر چولہے مہیا کرنے کے منصوبے شروع ہو گئے یوں ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جس کا فائدہ صرف او رصرف کروڑوں غریب عوام کو ہوا اور آج بھی ہورہا ہے ۔ جی ہاں‘ ہم بنگلہ دیش سے ’’صرف‘‘ دس برس پیچھے ہیں۔ آج ہماری حکومت کو بھی خیال آگیاہے کہ وہ بھی اس ملک کے لیے کچھ سوچ لے۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت نے چین اور دیگر ممالک کے ساتھ کئی معاہدے کیے ہیں جن کے تحت پاکستان میں شمسی توانائی کے پینل بنانے کے کارخانے لگائے جائیں گے۔صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت بھی اپنے طور پر منصوبہ شروع کرنے والی ہے۔ تاہم اگر یہ منصوبے مرکزی حکومت کے تحت ایک چھتری تلے شروع کیے جاتے تو زیادہ موثر ثابت ہوتے۔ یہ منصوبے کاغذوں کی دھول میں گم ہوتے ہیں یا حقیقت بنتے ہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا تاہم اگر حکومت کی نیت صاف ہے تو اسے چنداہم اقدامات کرنا ہوں گے۔ایک، ملکی سطح پر جو پینل بنائے جائیں وہ عالمی معیار کے ہوں۔ دو‘ یہ بیس برس تک روشنی دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔تین‘ پینلزکی وارنٹی ہو۔ چار‘ ڈرائی بیٹریاں اور انورٹر بھی ملک میں تیار کیے جائیں۔ پانچ‘ حکومت بینکوں کے ذریعے آسان اقساط پر سولر سسٹم جاری کرے۔ چھ‘ جو لوگ سولر سسٹم لگائیں حکومت انہیں بجلی کے نرخوں میں چھوٹ دے جیسا کہ بیرونی ممالک میں ہوتا ہے اور سات‘ نئے تعمیر ہونے والے گھروں اور دیگر تعمیرات کو سولر سسٹم سے مشروط کر دیا جائے کیونکہ نیا گھر بنتا ہے تو مالک کے پاس خطیر رقم ہوتی ہے اور اس رقم سے دو تین لاکھ روپے علیحدہ کرنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ یقین کیجئے اگر حکومت نے بنگلہ دیش جیسا ویژن اپنا لیا تو یہ کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن اگر چند سو طالب علموں میں سولر لیمپ بانٹ کر اسے محض الیکشن سٹنٹ بنایا جاتا رہا ‘جعلی اور پسندیدہ کمپنیوں کو ٹھیکے اور کمیشن دینے کی روایت برقرار رکھی گئی اور اگر اربوں روپے اپنی ہی ایک جیب سے نکل کر دوسری جیب میں جاتے رہے تو پھریہ پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا اور حکومت بھی فیل ہو جائے گی اور یہ ثابت ہو جائے گا کہ عوام کے دل جیتنے کے لیے جس ویژن‘ کمٹمنٹ اور ول پاور کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہمارے حکمران اور سیاستدان اس سے محروم ہیں۔