میں نے یہ واقعہ کسی کتاب میں پڑھا تھا‘ روزنامہ’’ دنیا‘‘ میں آ کر مجھے اس کی تعبیر مل گئی۔ ’’ایک نوجوان کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی وہ بھی ایک کامیاب شخص کہلائے‘ وہ جس کام کو ہاتھ لگائے ‘ اس میں مہارت حاصل کر لے اور جو کاروبار کرے اسے پر لگ جائیںاور وہ عروج کی انتہا کو پہنچ جائے۔ تاہم وہ جو بھی کام کرتا ‘ ناکام رہتا۔ جب ساری کوششیں ناکام ہوئیں تو وہ مایوسی کا شکار ہو گیا۔ اسے اپنی ناکامی کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔ ایک رات اس نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا۔ بزرگ نے اس سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنا حال بیان کیا۔ بزرگ نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کر چل دئیے ۔ نوجوان کیا دیکھتا ہے کہ اس کے سامنے سات چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں۔ اس نے حیرت سے بزرگ کی طرف دیکھا۔ بزرگ نے اسے پہلے تالاب میں اترنے کی ہدایت کی۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا۔ اس تالاب کا پانی کافی ٹھنڈا تھا۔ وہ کچھ دیر تک اس تالاب میں رہا۔ بزرگ نے اسے اگلے تالاب میں اترنے کا اشارہ کیا ۔ اس کا پانی قدرے کم ٹھنڈا تھا۔ پھر بزرگ نے اسے اگلے تالاب میں جانے کو کہا۔ اس کا پانی معتدل تھا۔ اس سے اگلے تالاب کا پانی ہلکا گرم تھا۔بزرگ ہر دس منٹ کے بعد اگلے تالاب میں جانے کا کہتے رہے اور وہ ان کا حکم مانتا رہا۔ ہر اگلے تالاب کے پانی کا درجہ حرارت مختلف تھا۔ جب وہ ساتویں تالاب میں پہنچا تو اس کا پانی انتہائی گرم تھا۔ باہر آکر اس نے بزرگ سے اس سارے عمل کی وجہ پوچھی تو وہ بولے۔ پہلے تالاب کا پانی شدید سرد اور ساتویں تالاب کا پانی خاصا گرم تھا۔ اگر میں تمہیں کہتا کہ تم ساتویں گرم تالاب میں اتر جائو تو شاید تم کبھی نہ اترتے۔ اسی لیے میں نے تمہیں سب سے پہلے ٹھنڈے تالاب میں جانے کا کہا۔ جب تم اس میں اترے تو تمہارا جسم اس کا عادی ہو گیا۔ دس منٹ بعد تم دوسرے تالاب میں پہنچے تو اس کا درجہ حرارت تھوڑا سا مختلف تھا۔ تمہارا جسم اس کا بھی عادی ہو گیا۔ اس کے بعد تم اگلے تالاب میں پہنچے۔ اس طرح ہوتے ہوتے تم انتہائی گرم پانی میں پہنچ گئے لیکن تمہیں عجیب محسوس ہوا نہ ہی تمہارے جسم نے غیر معمولی ردعمل دکھایا۔ تم جس ماحول سے گزرتے رہے تمہارے جسم نے خود کو اس کا عادی بنا لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب تم انتہائی گرم پانی میں پہنچے تو بھی تم سکون اور اطمینان محسوس کر رہے تھے۔ تم کامیابی چاہتے ہو تو تمہیں اسی فارمولے پر عمل کرنا ہو گا۔ تمہیں اپنے جسم کو سختیوں کا عادی بنانا ہو گا۔ اس دنیا میں ایسے بھی خطے ہیں جہاں منفی چالیس ڈگری پر لوگ کام کر رہے ہیں جبکہ ایسے بھی ملک ہیں جہاں لوگ آگ برساتے سورج کے انگاروں پر زندگی گزار رہے ہیں۔بظاہر یہ مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ انسان چاہے تو اپنے آپ کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار کر سکتا ہے۔ ہر اس مشکل سے گزر سکتا ہے جس سے دوسرا گزرا ہو۔ اس کے لیے صرف تین چیزیں چاہئیں۔ لگن‘ برداشت اور مستقل مزاجی ۔اگر تم نے ان میں مہارت حاصل کر لی اور اگر تم خود کو سختیوں کا عادی کرتے رہے تو ایک دن آئے گا تم ہر طرح کے حالات اور ماحول میں محنت کے عادی ہو جائو گے اور یہ محنت اور یہ ثابت قدمی تمہیں کامیابی کے عروج پر لے جائے گی۔‘‘ میں نے گزشتہ برس 14مئی کو ایڈیٹوریل سیکشن جوائن کیاتھا‘3ستمبر کو اخبار کا اجرا ہوا اور اس وقت سے اب تک میں بھی مختلف تالابوں سے گزر رہا ہوں اورہر تالاب سے گزرنے کے بعد میں خود کو پہلے سے زیادہ توانا اور سخت جان محسوس کر رہا ہوں اور اس کی وجہ ’’دنیا میڈیا گروپ‘‘ ہے۔ میں نے یہاں آکر دیکھا ‘آپ جتنی زیادہ محنت سے کام کریں گے‘ اتنا ہی زیادہ سیکھیں گے اور اتنا ہی زیادہ آپ کو اعتماد حاصل ہو گا۔’’دنیا‘‘ اخبار کی کامیابی بلا شبہ ٹیم ورک کا نتیجہ ہے لیکن اس کامیابی کے لیے ماحول’’ دنیا‘‘ کی مینجمنٹ نے مہیا کیا ہے۔ میں نے بہت سے اداروں میں کام کیا ہے لیکن ’’دنیا‘‘ اور دیگر اداروں میں ایک فرق واضح ہے۔ یہاں پر کوئی شخص مکھیاں مار کر وقت نہیں گزار سکتا۔ آپ یہ نہیں کر سکتے کہ حاضری لگائیں اور اس کے بعد سات یا آٹھ گھنٹے کسی طرح پورے کر لیں اور گھر چلے جائیں۔ اگر آپ نے سروائیو کرنا ہے تو آپ کو کام کرنا پڑے گا اور یہی وہ ماحول ہے جس کی دیگر اداروں میںکمی ہے۔ جس طرح ’’دنیا‘‘ ٹی وی نے کامیابی کے زینے طے کیے ہیں اور جس طرح صرف ایک برس کے اندر روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے اپنا لوہا منوایا ہے‘ اس کے پیچھے وہی سپرٹ اور ٹیم ورک ہے جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔ مجھے یاد ہے اخبار کے ابتدائی دنوں میں کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔ شروع کے چند ہفتے روٹین مختلف رہی۔ میں صبح نو بجے دفتر آ جاتا اور اکثر آدھی رات کے بعد گھر پہنچتا۔ شروع میں مشکل محسوس ہوتی ۔ صرف تین یا چار گھنٹے کی نیند کا میں عادی نہ تھا۔ لیکن کام کا بوجھ مجھ پر حاوی نہ ہو سکا۔ اس کی ایک وجہ کام سے رغبت ہے۔ اگر آپ کسی کو کوئی ایسا کام کرنے کوکہیں گے جو اسے پسند ہی نہیں‘ وہ آپ کو خاطر خواہ نتائج نہیں دے گا۔ آپ دنیا بھر کے کامیاب لوگوں کی مثالیں دیکھ لیجئے‘ جو لوگ ترقی کی بلندیوں تک پہنچے اس کی وجہ کام سے ان کی محبت تھی۔ بہت سے ایسے لوگوں نے اپنی فیلڈ اس وجہ سے تبدیل کر لی کہ انہیں اپنے کام سے لگائو نہ تھا۔ جب وہ اپنے پسندیدہ شعبوں میں گئے تو ان کی چھپی ہوئی صلاحیتیں بھی سامنے آئیں اور ان کی کارکردگی کو بھی چار چاند لگ گئے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے گروپ ایڈیٹر جناب نذیر ناجی صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ جتنا ان سے ایک برس میں سیکھا ہے شاید کئی دہائیوں میں نہ سیکھ سکتا۔عربی‘ فارسی اور تاریخ کے شعبوں کے ماہر جناب حفیظ الرحمن قریشی جیسی شفیق اور نرم خو شخصیت بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ سجاد کریم صاحب اداریہ نویسی کے ذریعے اہم ایشوز کو روزانہ اخبار کی زینت بناتے ہیں ۔ بیک وقت اردو‘ انگریزی اور فارسی میں مہارت رکھنے والے بہت کم ہوں گے‘ ملک فیض بخش صاحب ان میں سے ایک ہیں۔ جناب اسلم کولسری صاحب جیسے سنجیدہ اور شگفتہ طبیعت رکھنے والے شاعر کی موجودگی ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔ میں اپنے سیکشن میں تمام حضرات میں جونیئر ہوں۔ یہ سب علم کا ایک سمندر لیے ہوئے ہیں ۔ مجھے اُمید ہے کہ اگر اسی سپرٹ اور اسی جذبے کے ساتھ یہ قافلہ آگے بڑھتا رہا تو روزنامہ’’ دنیا‘‘مستقبل میں بھی کامیابی کے زینے طے کرتا چلا جائے گا اور ہم سمجھ جائیں گے کہ ہمیں اپنی محنت کا ثمر مل گیا، ہم کامیاب ہو گئے!