چند ماہ قبل کی بات ہے ۔ میں لاہور کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد باہر نکل رہا تھا کہ ایک شخص مسجد کے احاطے میں کسی سے جھگڑتا ہوا دکھائی دیا۔ قریب پہنچ کر دیکھا تویہ میرے ایک بزنس مین دوست نکلے۔معلوم کرنے پر بتایا کہ ان کی مسز کا دوران نماز قیمتی موبائل فون چوری ہو گیا ہے۔ وہ دیگر خواتین کے ساتھ اوپر والی منزل میں موبائل فون زمین پر رکھ کر نماز پڑھ رہی تھیں۔ قریب ہی ان کے بچے کھیل رہے تھے۔ نماز ختم کی تو دیکھا وہاں موبائل نہ تھا۔ یہ انتہائی قیمتی فون تھا جس کی قیمت پچاسی ہزار روپے تھی۔ دیگر نمازی خواتین کی تلاشی لینے پر بھی جب موبائل نہ ملا تو انہوں نے بچے کو خاوند کے پاس بھیجا جس نے انہیں ساری روداد سنائی۔ میرے دوست نے مجھ سے کہا۔ آپ بھی اس مسجد میں گزشتہ کئی برسوں سے نماز جمعہ پڑھ رہے ہیں، اس مسجد کے شعلہ بیان خطیب آپ کے واقف کار ہیں، کیا آپ میرا یہ مسئلہ حل فرمائیں گے؟میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ میں اس معاملے کو یوں ہی چھوڑ کر چلا جائوں۔ یہ اخلاقیات اور انسانی ہمدردی کے منافی تھا۔ ایک شخص نے بتایا کہ وہ سامنے جو باریش بزرگ گاڑی میں بیٹھ رہے ہیں‘ یہ مسجد کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ہم فوراً ان کے پاس پہنچے اور انہیں سارا ماجرا سنایا۔ موصوف اس وقت گاڑی میں سوار ہو رہے تھے۔ ان کا ایک پائوں اندر اور ایک باہر تھا۔ انہوں نے ساری بات سنی اور ایک اورباریش نوجوان کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ وہ صاحب آپ کا مسئلہ حل کریں گے۔ میں نے کہا یہ ہمارا نہیں آپ کا بھی مسئلہ ہے۔ اس مسجد میں ایک مدرسہ بھی ہے اور میری معلومات کے مطابق اس میں ڈیڑھ سو بچے زیرتعلیم ہیں۔ ہمیں شک ہے کہ یہ حرکت کسی طالبعلم کی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم مزید کچھ کہتے‘ وہ گاڑی میں بیٹھ کر نکل گئے۔ چاروناچار ہم ان کے بتائے ہوئے شخص کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ میرا اب اس مسجد اور مدرسے سے تعلق نہیں‘ میں تو صرف نماز جمعہ پڑھنے آیا تھا۔تاہم انسانی ہمدردی کے تحت میں آپ کی تھوڑی بہت مدد کر سکتا ہوں۔ خاتون کے ساتھ جو دو بچیاں تھیں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مدرسے کے ایک طالبعلم کو دو مرتبہ نماز کے دوران وہاں آتے دیکھا ہے لیکن وہ چہرہ نہیں دیکھ سکیں۔ مزید بتایا کہ دوران نماز دس بارہ سال کا ایک لڑکا اسی صحن کے ایک طرف نلکے پر کپڑے دھو رہا تھا۔ ہم نے مطالبہ کیا کہ تمام بچے جمع کئے جائیں تاکہ یہ بچیاں اس لڑکے کو پہچانیں جو کپڑے دھو رہا تھا۔ پہلے تو تعاون سے انکار کیا گیا لیکن جب میرے دوست نے اپنے سیشن جج بھائی کا حوالہ دیا اور میرے بارے میں بتایا تو وہ ڈر گئے۔ سارے بچے جمع کئے گئے تو ان بچیوں نے اس لڑکے کو پہچان لیا۔ اس لڑکے سے جب پوچھا گیا کہ نماز کے دوران وہاں دو مرتبہ کون سا طالب علم آیا تھا تو انہوں نے ایک لڑکے کا نام لیا۔ اس کے کپڑوں کا جو رنگ انہوں نے بتایا ‘خاتون کی بچیوں نے بھی اس رنگ کی تصدیق کر دی۔ وہ لڑکا قطار میں کھڑے ان لڑکوں میں موجود نہ تھا۔کچھ لڑکوں کو باہر بھیجا گیا جو اسے ایک پارک سے پکڑ لائے۔اسی اثنا میں اس خاتون نے اپنے خاوند کو پیغام بھیجا کہ اس لڑکے نے وہاں موجود خواتین کے ساتھ نماز میں بدتمیزی بھی کی۔ جس پر ا س لڑکے کو الگ کمرے میں لے جا کر چھتر ول کی گئی تو اس نے موبائل فون لا کر دے دیا۔ ہم نے کہا اس لڑکے کو مدرسے سے نکالیں ورنہ ہم تھانے میں رپورٹ درج کرا دیں گے۔ اس کے بعد ہونے والی بدنامی کے ذمہ دار آپ لوگ ہوں گے۔ مسجد کے چند لوگ جو پہلے غائب تھے اب اچانک سامنے آ گئے اور اسے بچے کی غلطی کہہ کر معاملہ گول کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ہم نے کہا بچے سے غلطی ہو گئی لیکن یہاں کا پورا نظام جس طرح چل رہا ہے‘ اس طرح تو یہ غلطیاں ہوتی رہیں گی۔ خواتین کے لئے مختص جگہ پر جوان لڑکے بے دھڑک گھوم رہے ہیں‘ یہ نماز کے وقت چوریاں کرنے اور کپڑے دھونے میں مصروف ہیں اور آپ لوگ معاملے کو دبانا چاہتے ہیں۔ اسی دوران مسجد کے ایک قاری نے جو مجھے جانتے تھے‘ اور جو گزشتہ دس برس سے لاہور کی ایک بڑی مسجد میں تراویح پڑھا رہے تھے‘ مجھے ایک طرف لے جا کر بتایا کہ یہاں کے حالات واقعی خراب ہیں‘ کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک بات بتا کر انہوں نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ کہنے لگے یہاں باتھ روم کی دیواروں پر بچوں اور ایک استاد کے بارے میں غیر مناسب جملے لکھے ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا تمام بچے دیہات سے آئے ہیں۔ کچھ اساتذہ بھی یہاں مقیم ہیں لیکن ان سب کے اوپر کوئی کنٹرولنگ اتھارٹی موجود نہیں۔اس مسجد اور مدرسے کے مستقل خطیب میرے واقف تھے۔ میں نے یہ تمام معاملات ان کے گوش گزار کرنے کا فیصلہ کیا۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ لاہور سے باہر فلاں علاقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں ‘ اس لیے موجود نہیں۔ میں نے موصوف کو فون ملایا اور سارا قصہ سنایا۔ میری توقع کے برعکس انہوں نے دفاعی لہجہ اختیار کر لیا اور کہنے لگے ہم ان پر الزام لگا رہے ہیں۔ مزید فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے تو کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ میں نے کہا آپ کے مدرسے میں کیا کچھ ہو رہا ہے ‘ ہم ایک مرتبہ نماز پڑھنے آئے ہیں ہمیں معلوم ہو گیا ہے جبکہ یہ سب کچھ آپ کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور آپ کو معلوم نہیں۔ اب جبکہ ہم آپ کو سب کچھ بتا رہے ہیں اور ثبوت موجود ہیں تو آپ کچھ تو ایکشن لیں۔ کہنے لگے میں اب چوبیس گھنٹے تو وہاں نہیں رہ سکتا ویسے بھی میں الیکشن مہم میں مصروف ہوں اور 11مئی سے پہلے واپس نہیں آ سکتا۔ میں نے کہا 11مئی میں ابھی دو ہفتے باقی ہیں، باقی معاملات تو اپنی جگہ مگر آپ کم از کم اس لڑکے کو تو یہاں سے نکالئے تاکہ دوسروں کو عبرت اور ہمیں اطمینان ہو کہ جس مساوات اور عدل و انصاف کا درس آپ دوسروں کو دیتے ہیں‘ جب آپ کے کسی اپنے سے جرم کا ارتکاب ہو تو آپ اسی عدل اور انصاف کو خود پر بھی لاگو کرتے ہیں۔ میری بات جاری تھی کہ دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔ دو روز قبل کی ایک خبر ملاحظہ کیجئے۔ ساندہ کے علاقے شبلی ٹائون میں دینی تعلیم دینے والے استاد نے مبینہ طور پر اپنے ہی دس سالہ طالب علم کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ پولیس نے متاثرہ بچے کے والدکی درخواست پر ملزم کو گرفتار کرلیا۔ واقعے کے مطابق چھٹی کے دن عبدالغفار نے بچے کو صفائی کے بہانے روک لیا اور زیادتی کا نشانہ بنا کر فرار ہو گیا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا۔ میں نہیں جانتا کہ اس خبر میں کتنی صداقت ہے لیکن چوری کے مذکورہ واقعے نے جس کا میں چشم دید گواہ ہوں ‘ میری آنکھوں سے بہت سے پردوں کو ہٹا دیا ہے۔ جن ’’عالموں‘‘ اور’’علاموں‘‘ کے نزدیک انتخابات‘ ایک مسجد اور مدرسے کے تقدس سے زیادہ اہمیت رکھتے ہوں(موصوف کو دو سواکیس ووٹ ملے) ‘ جن کے اپنے بچے امریکن سکولوں میں پڑھتے ہوں لیکن مدرسوں کے نادار اور دیہاتی بچوں کو وہ کمپیوٹر کے قریب تک نہ پھٹکنے دیتے ہوں اور جو دوسروں کو تو یہ درس دیتے ہوں کہ نبی اکرمﷺ نے کہا تھا کہ بنو مخزوم کی فاطمہ کی جگہ میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا‘ جب اس نبی ﷺ کے منبر کے وارث اپنی ناک کے نیچے ہونے والی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرنے لگیں تو پھر جان لیجئے‘ ایسی سرزمین اور ایسے ملکوں کا مقدر عذاب‘ ذلت اورخود کش دھماکے ہی ہوا کرتے ہیں اور جس وطن میں حکمرانوں، علماء ، دانشوروں اورکالم نویسوں کے قول ان کے فعل کی چغلی کھانے لگیں، وہاں ہر روز، ہر گلی اور ہر دروازے سے اخلاقیات کے جنازے ہی اٹھا کرتے ہیں۔