سلیم احمد میرے مہربان دوست ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے اکائونٹینٹ ہیں۔ چند سال قبل تک مختلف اداروں میں ملازمت کی۔ بہتر معاش کی تلاش امریکہ لے گئی۔ چند دوستوں کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لیااور ایک فارمیسی سے منسلک ہو گئے۔ ایک سال بعد اہلیہ کو بھی ویزہ مل گیا۔ نیویارک میں دو کمروں کا ایک چھوٹا سا پورشن یا فلیٹ بھی سات آٹھ سو ڈالر ماہانہ سے کم میں نہیں ملتا۔ مین ہیٹن کے قریب دو کمروں کے پورشن میں منتقل ہونے کے بعد رہی سہی کمائی اب کرائے اوریوٹیلٹی بلوں میں نکلنے لگی۔ قدرت نے دو بیٹوں سے نوازا جن میں سے ایک اب سکول جانے کی عمر کو ہے۔ گزشتہ روز قصہ خوانی بازار پشاور میں دھماکہ ہوا تو دیگر سمندر پار پاکستانیوں کی طرح یہ بھی رنجیدہ ہوگئے۔ یہ معمول سے زیادہ طویل کال تھی۔ کہنے لگے: رہتے تو ہم امریکہ میں ہیں لیکن دل پاکستان میں دھڑکتے ہیں۔ ویسے بھی زیادہ تر پاکستانیوں کا مقصد ہمیشہ یہاں رہنا نہیں ہوتا۔ چاہتے ہیں جلد از جلد واپس لوٹ جائیں۔ لیکن جب آٹھ دن میں تین دھماکوں کی خبریں آتی ہیں اور ان دھماکوں میں ایک خاندان کے اٹھارہ اٹھارہ بے گناہ معصوم‘ جانیں ہار جاتے ہیں تو دل تڑپ اٹھتا ہے۔ کہنے لگے: میرا خیال تھا مجھے امیگریشن مل جائے گی تو فیملی کو پاکستان بھجوا دوں گا ۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے پاکستان‘ امریکہ کی نسبت بہت بہتر ہے۔ امریکہ میں اگر آپ بچوں کو اسلامی سکول میں داخل نہیں کرواتے تو پھر آپ کو بہت کچھ بھگتنے کے لیے تیاررہنا چاہیے۔ یہ امکان بھی ہے کہ اگر آپ بچے کی تربیت میں غفلت کر گئے اور کبھی آپ نے اسے زور سے ڈانٹ بھی پلا دی تو پھر آپ کو کچھ وقت پولیس سٹیشن میں بھی گزارنا پڑ سکتا ہے ۔ دوسری آپشن اسلامی سکول کی ہے جس کی اوسطاً فیس بیس ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ اتنی فیس ہر کوئی نہیں دے سکتا، بالخصوص وہ جو نیا نیا امریکہ آیا ہو اور بڑی مشکل سے دال روٹی چلا رہا ہو۔ اگر آپ ان دونوں مشکلات سے نکل آئیں تو ایک اور پریشانی آن کھڑی ہوتی ہے۔ ایک ایسا وقت آتا ہے جب آپ ڈھیر سارا مال کما چکے ہوتے ہیں اور اسی دوران میں آپ کے بچے جوانی کی حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو آپ کی خواہش ہوتی ہے آپ واپس لوٹ جائیں۔ پاکستان کے اُن بہترین تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کروائیں جن کے سامنے سے گزرتے ہوئے آپ نے کبھی وہم و گمان میں بھی نہ سوچا ہو گا کہ کبھی آپ کے بچے بھی یہاں پڑھ سکیں گے۔ لیکن آپ کے سارے پلان اس وقت دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب آپ کے بچے پاکستان جانے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور وہ غلط نہیں کہتے۔ امریکہ میں پلنے بڑھنے والا کبھی پاکستان میں رہ ہی نہیں سکتا‘ وہ بھی ان حالات میں جب کہ ہر دوسرے خوش پوش کو بھتے کی پرچیاں موصول ہو رہی ہوں۔ یہاں آپ بچوں کو اے کلاس کی سہولیات دے سکتے ہیں، ان کے نہانے کے لیے بھی منرل واٹر کا انتظام کر سکتے ہیں لیکن آپ انہیں یہاں کے حالات کی ضمانت نہیں دے سکتے ۔یہ درست ہے کہ موت کہیں بھی آ سکتی ہے لیکن آگ اور خون کی جو فصل آج ہم کاٹ رہے ہیں‘ اس کے بیج بھی ہم نے ہی بوئے تھے اور آج پاکستان کا کوئی بھی لیڈر ایسا نظر نہیں آتا جو دہشت گردی کو اپنی جنگ سمجھتا ہو اور اس مسئلے پر کنفیوژن کا شکار نہ ہو۔ میرے دوست نے دل کی بھڑاس نکال لی تو فون بھی خاموش ہو گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی ختم ہو گی تو بہت سے مسئلے ساتھ ہی حل ہو جائیں گے۔ تاہم یہ بھی درست ہے کہ طالبان سے مذاکرات یا آپریشن ‘ ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں۔ کتنے گروپوں سے مذاکرات ہونے ہیں؟ کس مقام پر ہونے ہیں؟ مذاکرات کون کرے گا ؟ کب ہوں گے؟ اگر مذاکرات ہونے ہیں تو پھر یہ دھماکے کون کر رہا ہے؟ درجنوں سوال ہر دماغ میں کلبلا رہے ہیں۔ کوئی نہیں جو دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ جو حکومت کو بتا سکے وہ کہاں غلطی کر رہی ہے ۔جو حکمرانوں کو سیدھا راستہ دکھا سکے۔ایسے میں اک شخص یاد آ رہا ہے جو بات کرتاتھا تو ببانگ دہل کرتا تھا۔ جوبڑے سے بڑے دشمن سے بھی مرعوب نہیں ہوتا تھا۔ جو امام ابن حنبل اور امام ابن تیمیہ کی روایات پر چلتا تھا۔ جس نے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔جس کی آواز میں دبدبہ تھا۔لہجے میں طنطنہ تھا۔حلقۂ یاراں میں جو ریشم کی طرح ملائم تھا لیکن جب ضیا الحق جیسے آمر کے سامنے کھڑا ہوا تو اس کی راتوں کا سکون اور دن کا چین برباد کر دیا۔ جی ہاں۔ آج اگر علامہ احسان الٰہی ظہیر ہمارے درمیان ہوتے تو اتنا اطمینان تو ہوتا کہ کوئی تو حکمرانوں کی منافقت کا پردہ چاک کرے گا۔ دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گا۔ انہیں دن کے اُجالے میں للکارے گا۔ آج جو حکمران اور علما حضرات طالبان سے مذاکرات یا جنگ کے درمیان ایک لکیر نہیں کھینچ سکے‘ علامہ ظہیر ؒ کے لیے یہ کرنا چنداں مشکل نہ تھا۔ میں نے ان سے صرف ایک ملاقات کی ہے۔ وہ اپنے شادمان والے گھر میں حسب معمول کتابوں کے درمیان تشریف فرما تھے۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اس لیے بہت زیادہ نہ جان پایا۔ بعد میں اندازہ ہوا وہ کتنے بڑے انسان تھے۔ شروع میں سبھی یہ سمجھے کہ ضیا الحق سچا اور اس کی نیت صاف ہے چنانچہ اس کا ساتھ دیا۔ لیکن جب دیکھا کہ اسلام کا نام محض ہمدردی اور اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو اسی کے خلاف نعرئہ حق بلند کر دیا۔ یہ معمولی بات نہ تھی۔انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور د یگر کی طرح ایل ایف او پر ڈکٹیٹر کو کندھا دینا گوارا نہ کیا۔یہی ضیا الحق کو ناگوار گزرا اور علامہ صاحب کی یہی دلیری انہیں شہادت کے مقام پر لے گئی۔ اگر آج کے سیاستدان اور آج کے علما علامہ صاحب کی طرح واضح موقف اختیار کرلیں‘ یہ منافقت کی دیواریں گرا دیں اور اگر یہ اپنے خطبات‘ بیانات اور اپنی تقاریر میں یکسوئی لے آئیں تو طالبان کیا‘ کوئی بھی ان کے سامنے کھڑا ہونے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ طالبان اگر نڈر ہو کر حملے کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ یہ جنگ ہے کس کی؟ علامہ ظہیر ؒکے فرزند ابتسام الٰہی ظہیر میں ان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ چاہیں تو اپنے والد کی طرح تاریخ میں امر ہو سکتے ہیں۔ یہ نوجوان بھی ہیں ‘ تعلیم یافتہ بھی اور روشن خیال بھی۔ ملک کو ایسے ہی ترقی پسند علما کی ضرورت ہے۔ حالیہ اے پی سی میں مذہبی جماعتوں کو نمائندگی نہیں ملی حالانکہ اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ہمارے علما اور دینی جماعتیں ہی کر سکتی ہیں۔ اگر ابتسام الٰہی ظہیر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لے آئیں، یہ ہر مسلک کے علما سے ملیں، یہ تمام دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیں ، یہ تمام جماعتیں اور یہ علما دہشت گردی کے خلاف جو سٹینڈ لیں‘سب اس پر ڈٹ جائیں اور اگر ہم سب اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑیں تو پھر فتح کی جانب یہ پہلا قدم ہو گا اور اگر ہم اپنی نسلوں کو پرسکون اور خوشحال پاکستان دینا چاہتے ہیں تو پھر یہ پہلا قدم کسی نہ کسی کو تو اٹھانا ہو گا!