قصور جدید ٹیکنالوجی کا ہے یا ہماری سوچ کا؟ یہ جاننے کے لیے آپ ایک پسماندہ گائوں کی مائی نذیراں کو دیکھ لیجئے۔ ایک روز ایک آدمی اس کے گھر پہنچا۔ کہنے لگا‘وہ فلاں ادارے کی طرف سے آیا ہے۔یہ ادارہ ہر سال سینکڑوں لوگوں کو مفت حج کراتا ہے۔ خاتون نے پرجوش انداز میں کہا وہ بھی حج پر جانا چاہتی ہے لیکن کوشش کے باوجود پیسے جمع نہیں کر پائی۔اس شخص نے کہا وہ اس کی فکر نہ کرے کیونکہ اس مرتبہ پانچ سو افراد کو حج پر بھیجاجائے گا اور جن افراد نے پہلے اپنا نام لکھوا دیا وہ حج کے لیے اہل قرار پائیں گے۔ اب تو خاتون کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ حج کی سعادت ضرور حاصل کر لے گی اور یہ کہ یہ شخص آدمی نہیں فرشتہ ہے جو میری مراد پوری کرنے آیا ہے۔اس نے خاتون سے کہا اگر وہ راضی ہے تو اسے ایک فارم پر انگوٹھا لگانا ہو گا اور اس کی دو ہزار روپے فیس ادا کرنی ہو گی۔ یہ سن کر خاتون شش و پنج میں پڑ گئی کیونکہ اس کے گھر میں مسلسل فاقے چل رہے تھے اور دو ہزار روپے کا انتظام اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ تاہم حج پر جانے کی خوشی اتنی زیادہ تھی کہ اس نے آٹھ دس گھرانوں سے پیسے ادھار پکڑے اور اس شخص کو تھما دئیے۔ وہ شخص یہ کہہ کر چلا گیا کہ وہ ایک ہفتے بعد ٹکٹ وغیرہ لے کر آئے گا۔ خاتون نے اسے ڈھیروں دعائیں دیں اور انتظار کرنے لگی۔ ہفتہ گزر گیا‘ لیکن وہ شخص نہ آیا۔ آتا بھی کیوںـ؟ بعد میں پتہ چلا کہ وہ گائوں کے چالیس گھرانوں سے اسی ہزار روپے لے کر غائب ہو چکا ہے اور یہ سارے لو گ حج کی تیاری کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ تو سادہ لوح لوگوں کا قصہ تھا‘ اب ذرا ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کی طرف آئیے۔ چند سال قبل انٹرنیٹ پر فاسٹر پیڈ (FasterPaid)نامی ویب سائٹ شروع ہوئی اور صرف ایک برس میں دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ اس کے ممبرز بن گئے۔ یہ لوگوں کو چند منٹ یا آدھے گھنٹے کی مشقت کا سینکڑوں ڈالر معاوضہ آفر کرتی تھی۔ یہ مشقت کیا تھی‘ یہ جاننے سے قبل یہ سمجھ لیجئے کہ یہ کام کیسے کرتی تھی۔ اس پر ای میل کی طرح ایک فارم پُر کر کے اکائونٹ بنایا جاتا تھا۔ اس کے بعد یوزر کو ایک لاگن اور پاس ورڈ مل جاتا تھا۔ جب وہ اپنے اکائونٹ میں داخل ہوتا تو اسے پیش کش کی جاتی کہ وہ ایک سو ڈالر کے برابر رقم جمع کرائے گا تو اس کا اکائونٹ چل پڑے گا اور وہ پیسے کمانے کے قابل ہو جائے گا۔ چنانچہ اکائونٹ ہولڈر ایک سوڈ الر کے برابر رقم فراہم کردہ بینک اکائونٹ میں بھجوا دیتا تھا جس کے بعد اس کے ویب اکائونٹ میں سو ڈالر کی رقم ظاہر ہو جاتی تھی۔اس کے بعد اس سے کہا جاتا تھا کہ وہ اس ویب سائیٹ کے مختلف صفحات میں موجود اشتہارات کو زیادہ سے زیادہ کلک کرے۔ یہ اشتہار بظاہر ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کے ہوتے تھے۔ ہر اشتہار کو کلک کرنے سے دس یا بیس سینٹ کی رقم اکائونٹ میں جمع ہو جاتی تھی۔ چنانچہ اگر ایک شخص مختلف اشتہارات کو سینکڑوں مرتبہ کلک کرتا تو اس کے اکائونٹ میں ڈالروں کے حساب سے رقم جمع ہو جاتی۔ یاد رہے کہ یہاں اکائونٹ سے مراد بینک اکائونٹ نہیں بلکہ اس ویب سائٹ کا اکائونٹ تھا ۔ اس طرح ایک شخص اکائونٹ بنا کر چند ہی دنوں میں کئی سو ڈالر کی رقم کا ’’مالک‘‘ بن جاتا تھا۔ یہ سلسلہ کئی مہینے چلتا رہا۔جب لوگوں نے ویب سائٹ سے رقم اپنے بینک اکائونٹ میں منگوانے کیلئے رابطہ کیا تو کوئی جواب نہ ملا۔ چند ہفتوں بعد ٹی وی پر اچانک یہ خبر نمودار ہوئی کہ فاسٹر پیڈ کے نام سے انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرنے والا نوشہرہ ورکاں کا رہائشی 80 کروڑ کی رقم اکٹھی کرکے غائب ہو گیا ہے۔ وہ انٹر نیٹ پر اکائونٹ بنا کر سو ڈالر لگانے والے کو ہزاروں روپے منافع دینے کا لالچ دیتا تھا۔ سینکڑوں افراد نے کروڑوں روپے اس کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کردیئے جنہیں لے کر بالآخر وہ غائب ہو گیا۔ قصور جدید ٹیکنالوجی کا ہے یا ہماری سوچ کا؟ اگر اب بھی واضح نہیں ہوا تو ایک اور واقعہ سن لیجئے۔ کچھ عرصے سے ایک خاتون لوگوں کو موبائل فون پر کال کر رہی ہے ۔ وہ بیس ہزار روپے کا ایک کارڈ بنوانے کی آفر کرتی ہے جس کے بدلے لگژری ہوٹلوں میں قیام‘ مفت کھانے اور ان ہوٹلوں میں دیگر ’’مزے‘‘ حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ جو شخص یہ کارڈ حاصل کرتا ہے‘ جب وہ ہوٹل سے واپس آتا ہے تو اسے اس کی قابل اعتراض تصاویر ای میل کر دی جاتی ہیں اور بھتے کی پرچی بھی۔ اس کے بعد وہ اس وقت تک بھتہ دیتا رہتا ہے جب تک مکمل طور پر مقروض نہیں ہو جاتا ۔ یہ کہانیاں ایک ایسے ملک کی ہیں جہاں لوگوں کا لالچ ختم ہوتا ہے نہ ہوس۔ یہ درست ہے کہ اس طرح کے واقعات بیرونی دنیا میں بھی ہو رہے ہیں مگر کتنے؟ فحش مواد دیگر ممالک میں بھی دیکھا جاتا ہے لیکن پاکستان ایسی ویب سائیٹس دیکھنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر کیسے پہنچ گیا؟کال سنٹرز پاکستان میں بھی کام کر رہے ہیں لیکن کتنے؟ شاید ایک سو سے بھی کم جبکہ بھارت میں تین ہزار سے زائد۔ ظاہر ہے اس وقت وہ ممالک ترقی کر رہے ہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں آگے ہیں اور جو کمپیوٹر اور موبائل فون کی دنیا کو ہر شخص کی ضرورت بنا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگرہم کافروںکی طرز پر انقلابی ایجادات نہیں کر سکتے‘ اگر ہم بل گیٹس کی طرح مائیکرو سافٹ نہیں بنا سکتے‘ اگر ہم سٹیو جابز کی طرح ٹچ سکرین ایجاد نہیں کر سکتے‘اگر ہم ٹم برنرز لی کی طرح انٹرنیٹ پروٹوکول کو جنم نہیں دے سکتے‘ بنجمن فرینکلن کی طرح بجلی کے موجد نہیں بن سکتے‘ سرجی بن اور لیری پیج کی طرح گوگل نہیں بنا سکتے اور جدید ٹیکنالوجی تو ایک طرف رہی‘ اگر برتن صاف کرنے والا ڈش واشر بھی ہمیں امریکہ کا جوزفائن بنا کر دیتا ہے‘ کپڑوں میں ڈالنے کے لیے الاسٹک بھی برطانیہ کے تھامس ہینکوک کے ذریعے ملتا ہے حتیٰ کہ بال پوائنٹ تک ہنگری کے لیزلو بریو کے ہاتھوں تخلیق پاتا ہے اور اگر دل کے سٹنٹ ‘ الٹرا سائونڈ‘ قالین صاف کرنے والا ویکیوم کلینر‘ گیس کے چولہے حتیٰ کہ ربر بینڈ‘ کامن پن اور ٹوائلٹ ٹشو تک ہمیں غیروں کے بنے مل رہے ہیں تو ہمیں اتنی تو شرم کرنی چاہیے کہ کم از کم ہم ان چیزوں کا درست استعمال ہی سیکھ لیں‘ اگر یہ چیزیں ہم ایجاد نہیں کر سکتے تو ہمیں یہ حق بھی نہیں کہ ہم ٹیکنالوجی کے ہاتھوں ذلیل اور برباد ہوتے پھریں اور پھر ٹیکنالوجی کو ہی برا بھلا کہنا شروع کر دیں‘ ہم کچھ تو عقل کریں!