گزشتہ دنوں میرے ایک عزیز نے براستہ ابوظہبی نیویارک جانا تھا‘لاہور سے ان کی روانگی کا وقت جمعہ کی صبح چار بجے تھے کہ جمعرات کی شام اچانک لاہور شہر دھند کی لپیٹ میں آ گیا۔علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کھلے علاقے میں واقع ہے‘ چنانچہ دھند نے اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایئرپورٹ بند کر دیا گیا اور تمام فلائیٹس کینسل ہو گئیں۔ اگلی صبح میرے عزیز نے مجھے فون کیا کہ وہ کوشش کے باوجود جان نہیں پائے کہ ان کی فلائٹ ابوظہبی کے لیے کب روانہ ہوگی۔ میں نے ایک مہربان کو فون کیا اور مسئلہ ان کے سامنے رکھا۔ یہ بھی بتایا کہ انٹرنیٹ پر فلائٹ کا ٹائم پہلے شام پانچ بجے کا آ رہا تھا جو اب اچانک دوپہر دو بجے ہو گیا ہے۔ انہوں نے میرے عزیز کو فوراً ایئرپورٹ پہنچنے کا کہاجہاں ان کی بورڈنگ وغیرہ کی رہنمائی کا انتظام ہو گا۔ میرے عزیز ایئرپورٹ پہنچ کر ایک اہلکار کے ساتھ اندر چلے گئے۔ چونکہ ان کے پاس موبائل فون نہ تھا اس لیے اب ہمارا ان سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ جہاز کی روانگی کے بارے میںجاننے کے لیے لاہور سول ایوی ایشن کی ویب سائٹ پر انحصار ممکن نہ تھا کیونکہ رات کو جب ایئرپورٹ بند ہو چکا تھا یہ تمام فلائٹس کو شیڈولڈ بتا رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ یہ اپنے وقت پر روانہ ہوں گی۔ میں نے متعلقہ ایئرلائن کو فون کیا تو اس کا نمبر مسلسل مصروف ملا۔ رات کو درجنوں فلائیٹس منسوخ ہونے کے بعد ایئر پورٹ مسافروں سے بھرا ہوا تھا اور انہیں نئے روٹس اور مختلف جہازوں میں ایڈجسٹ کروا یا جا رہا تھا۔ اس دوران مجھے ایک خیال آیا۔ میں انٹرنیٹ پر گیا اور فلائٹس کی معلومات بارے ویب سائٹ تلاش کیں۔ ایک ویب سائٹ میں فلائٹ کا نمبر لکھا تو فلائٹ کی ساری معلومات سامنے آ گئیں۔ اس
وقت یہ جہاز ابوظہبی سے لاہور کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اس نے دوپہر دو بجے لاہور پہنچنا تھا اور دو گھنٹے بعد مسافروں کو لے کر واپس ابوظہبی جاناتھا۔ میں نے اس ویب سائٹ کا سافٹ وئیر موبائل فون میں ڈائون لوڈ کر لیا۔ اب ہر منٹ دو منٹ بعد مجھے نہ صرف یہ معلوم ہو رہا تھا کہ جہاز ہے کہاں بلکہ میں اسے دنیا کے نقشے پر پرواز کرتے بھی دیکھ سکتا تھا۔ یہ اتنا حیران کن سافٹ وئیر تھا جو جہاز کی سپیڈ‘ اس کی سطح زمین سے بلندی ‘ اس کی سمت‘ جہاز کی خصوصیات اور دیگر تکنیکی معلومات تک ظاہر کر رہا تھا۔ یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ جہاز کتنے بجے ایئر پورٹ پر لینڈ کرے گا اور کس حصے سے مسافر ایئرپورٹ میں داخل ہوں گے۔ یہ جہاز لاہور سے مسافر لیکر ابوظہبی پہنچا تو اس کے مسافر اگلی فلائیٹس کی بورڈنگ لے کر متعلقہ جہازوں میں سوار ہوگئے۔ اسی سافٹ وئیر کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ میرے عزیز کی اگلی فلائٹ آدھی رات کے بعد ہے اور یہ انہیں نیویارک کی بجائے جرمنی کے فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر لے جائے گی اور وہاں سے سنگاپور ایئرلائنز کی ایک ایئر بس کے ذریعے وہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پہنچیں گے۔ فلائٹ راڈار نامی اس ویب سائٹ نے بہر حال کمال کر دیا۔ آپ اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہہ سکتے ہیں۔آپ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں‘انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون پر دنیا بھر میں اڑتے ہوئے جہازوں کو اپنی آنکھوں سے براہ راست دیکھ
سکتے ہیں۔کسی ایک ملک‘ کسی ایک براعظم یا کسی سمندر پر کتنے جہاز اڑ رہے ہیں‘ یہ پلک جھپکتے میں آپ کے سامنے آ جاتا ہے۔ مثلاً آپ امریکہ کو دیکھ رہے ہیں تو آپ کو جہازوں کا ایک جمگھٹا نظر آئے گا۔ ایک وقت میں چار سے پانچ ہزار جہازوں کی لائیو ٹریفک آپ کے سامنے آ جائے گی۔ اگر آپ کسی جہاز پر کلک کریں گے تو سکرین کے بائیں طرف اس کی مکمل معلومات ظاہر ہو جائیں گی۔ یہ کس ایئر لائن کا جہاز ہے‘ کہاں سے آ رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے اور کس روٹ سے گزر کر اپنی منزل پر پہنچے گا‘ سب کچھ آپ کے سامنے ہو گا۔اگر آپ کسی جہاز کی اڑان نہیں دیکھ سکے تو آپ صرف اس کا فلائٹ نمبر سرچ والے خانے میں لکھ دیجئے۔ یہ آپ کو ویڈیو دکھا دے گا کہ فلاں جہاز کب اور کہاں سے اڑا اور کتنے بجے کس مقام پہ پہنچا۔ ہر جہاز پانچ منٹ وقفے سے نظر آ رہا ہوتا ہے اور یہ اقدام سکیورٹی کی خاطر کیا گیا ہے۔ اسی ویب سائٹ نے ملائشیا کے وزیراعظم نجیب عبدالرزاق کے ایک سرکاری دورے کو بھی ایکسپوز کر دیا تھا۔2012ء میں واشنگٹن سے واپسی پر وہ اپنے طیارے 9M-NAAکے ذریعے اٹلی کے شہر میلان میں چار روز کے لیے رکے ‘ وہاں فیشن کی کچھ تقریبات میں شرکت کی اور ڈھیروں خریداری بھی کی لیکن وطن واپسی پر یہ سب عوام سے چھپایا گیا۔ امریکہ کا سرکاری دورہ انہوں نے ملائیشین عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کیا لیکن واپسی پر میلان میں رک کر اسے نجی دورہ بنا دیا اور سرکاری خزانے کونو کروڑ (پاکستانی روپوں) کا نقصان پہنچایا۔ کسی رپورٹر نے اس ویب سائٹ کے ذریعے ان کا جہاز ٹریک کر لیا جو چار روز میلان میں رکا رہا تھا جس کے بعد انہیں شرمندگی اٹھانا پڑی۔ اب ہم اس ویب سائٹ کی طرف واپس آتے ہیں۔یہ ویب سائٹ گلوبل پوزیشنگ سسٹم اور سیٹیلائٹ سسٹم کے تحت کام کرتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کے چار ہزار سے زائد ٹرمنیل فضائی ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔ ایک ٹرمینل فضا میںدو سو سے اڑھائی سو میل تک سگنل کور کرتا ہے۔ کوئی بھی والنٹیئر یہ سسٹم اس ویب سائیٹ سے لے کر اپنے گھر کی چھت پر لگا سکتا ہے۔ جس کے بعد کوئی جہاز اس ٹرمینل کی رینج سے گزرے گا تو اس کا سگنل سیٹیلائٹ ٹاورز کے ذریعے خلا میں موجود سیٹیلائٹ تک پہنچ جائے گا اور وہاں سے اس ویب سائٹ کے کمپیوٹر سرورز میں داخل ہو جائے گا جس کے بعد جہاز کی سپیڈ‘ رُوٹ اور دیگر معلومات ویب سائٹ پر ظاہر ہو جائیں گی تاہم اسے جنگی اور دیگر خفیہ جہاز وںکی ٹریکنگ کا اختیار حاصل نہیں۔
میں جس وقت یہ معلومات دیکھ رہا تھا‘ اس وقت ہمارے چینلز پر یکے بعد دیگرے تین خبریں چل رہی تھیں‘ پہلی خبر ایک عورت کے بارے میں تھی جسے اس کا خاوند بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا۔ اس نے ویگن سے اسے اوندھے منہ زمین پر پٹخا اور یہ منظر تمام چینلز نے لائیو دکھا یا۔ دوسری خبر ایک بارہ ماہ کے ''ملزم‘‘ بچے کی تھی۔ اس پر وال چاکنگ کا الزام تھا ۔اسے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جا رہا تھا۔ وہ اپنے والد کی گود میں تھا جبکہ اس کے ایک ہاتھ میں فیڈر تھا۔ تیسری خبر عمران خان کی تھی جنہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمیٹی میں شامل ہونے سے اس لئے انکار کر دیاتھا کہ وہ قومی لیڈر ہیں ۔ غالباًان کے لیے یہ مقامی مسئلہ تھا۔ یہ وہی عمران خان ہیں جو گزشتہ پانچ برسوںمیں بارہ ہزار ٹاک شوز میں بیٹھ کر دہشت گردی ختم کرنے کے سینکڑوں حل بتا چکے ہیں لیکن جب وقت قیام آیا تو سجدے میں گر پڑے ہیں۔
کیسا شاندار ملک ہے یہ اور کتنے شاندار ہیں اس کے سیاستدان کہ آج انہوں نے اس ملک کو ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ جب ہم ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہے ہیں‘ انٹرنیٹ اور موبائل فون پر دنیا بھر کے جہازوں کو اڑتا دیکھ رہے ہیں ‘عین اس وقت ہم دنیا کو کیا دکھا رہے ہیں‘ بیویوں پر سر ِعام تشدد‘ دودھ پیتا شیرخوار ملزم اور ''بہادر‘‘ کپتان خان؟ اسے کہتے ہیں کنفیوزڈ سٹیٹ اور ایسے ہوتے ہیں سیاستدان۔