چند سال قبل ایک انگریز پاکستان آیا‘ وہ مقامی گائیڈ کے ہمراہ مختلف علاقے وزٹ کر رہا تھا کہ ایک جگہ اس نے ایک نہر دیکھی جہاں بہت سے گوالے اکٹھے تھے اور دودھ میں پانی ملا رہے تھے۔ انگریز نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں۔ جواب ملا کہ یہ دودھ میں پانی ملا رہے ہیں تاکہ زیادہ نفع کما سکیں۔ انگریز نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولا‘ کاش میں پاکستان میں رہ سکتا اور یہاں بزنس کرسکتا۔ گائیڈ نے پوچھا کون سا بزنس ؟ انگریز بولا‘ میں یہاں خالص دودھ بیچتا ‘ ڈھیروں منافع کماتا اور یوں بہت امیر ہو جاتا۔
یہ واقعہ مجھے ایک سیمینار میں ایک برطانوی بزنس مین کی بات سن کر یاد آیا۔ اس نے کہا کہ پاکستان میں جس قدر سورج کی روشنی میسر ہے‘ اتنی برطانیہ میں ہوتی تو پورا برطانیہ سولر انرجی پر منتقل ہو چکا ہوتا۔ آپ حیران ہوں گے کہ برطانیہ میں سورج زیادہ سے زیادہ نو گھنٹے کے لیے نکلتا ہے اور اس دوران بھی زیادہ وقت بادل چھائے رہتے ہیں ‘ اس کے باوجود برطانیہ میں گھر‘ دفاتر اور ادارے تیزی سے سولر انرجی پر منتقل ہو رہے ہیں اور اس کی دو بڑی وجوہ ہیں‘ ایک ‘ یہ گرین انرجی ہے ‘ یہ آلودگی سے پاک ہے ‘ اور دو‘ اس کا ماہانہ کوئی بل نہیں آتا ‘ یہ بالکل مفت ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ پاکستان کو دیکھ لیجئے ‘ یہاں سورج کم از کم دس گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ چودہ گھنٹے نکلتا ہے‘ اس کے باوجود یہاں سولر انرجی ابھی تک زچگی کے مراحل میں ہے‘ موجودہ حکومت نے بہت سے ممالک کے ساتھ پاکستان
میں سولر انرجی پلانٹس لگانے کے معاہدے کئے ہیں لیکن یہ بھی کاغذوں سے باہر نہیں نکلے۔گزشتہ سال بلوچستان میں تین سو میگا واٹ کا ایک سولر پارک بنانے کا جو اعلان ہوا ‘ اس پر کام ہی شروع نہیں ہوا۔اس کے مقابلے میں آپ بھارت کو دیکھ لیجئے۔ جاپان کے بعد بھارت امریکہ کے لیے دوسری بڑی سولر انڈسٹری ہے‘ بھارت کے بارہ ہزار ملازمین امریکہ سمیت درجنوں ممالک کے لیے سولر سیل بنانے کا کام کر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں جب ایک امریکی خاتون سفارت کار کی امریکہ میں گرفتاری ہوئی تو اس کے ردعمل میں بھارت نے امریکہ کے بہت سے آرڈر کینسل کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد امریکہ نے بھارت کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ بھارت سولر انرجی کیلئے بہت سنجیدہ ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ راجستھان میں چار ہزار میگا واٹ کا ایشیا کا سب سے بڑا سولر پلانٹ لگا رہا ہے۔2010ء میں بھارت سولر انرجی سے صرف اٹھارہ میگا واٹ بجلی بنا رہا تھا جو صرف تین برسوں میں دو ہزار میگا واٹ تک جا پہنچی ہے جسے 2022ء تک 22ہزار میگا واٹ تک لے جایا جائے گا۔ آپ سعودی عرب کو دیکھ لیجئے۔ سعودی عرب فی الوقت بجلی تیل کے ذریعے بنا رہا ہے جس کی
وجہ سے اسے تیل کی برآمد میں بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ سعودیہ کا ارادہ ہے کہ 2032ء تک ایک سو بلین ڈالر کی خطیر رقم سے اکتالیس ہزار میگا واٹ بجلی سولر کے ذریعے پیدا کی جائے اور اگر ایسا ہو گیا تو ایک بیرل ایک سو ڈالر سے زیادہ میں برآمد ہو سکے گا او رآپ ایتھوپیا کو دیکھ لیجئے۔ یہ ملک فاقہ کشی اور قحط کی وجہ سے معروف ہے لیکن اسے بھی عقل آ چکی اور یہ تین سو میگا واٹ بجلی سورج سے کشید کر رہا ہے جسے پانچ برسوں میںدو ہزار میگا واٹ تک پہنچایا جائے گا۔ دنیا کے پانچ ممالک ایسے ہیں جو دس ہزار میگا واٹ سے زائد کے سولر پلانٹس لگا چکے ہیں‘ یہ جرمنی‘ اٹلی‘ چین‘ امریکہ اور جاپان ہیں۔ ان میں جرمنی سب سے آگے ہے۔ یہ 35ہزار میگا واٹ بجلی سورج سے پیدا کر رہا ہے جو جرمنی کی کل طلب کا سات فیصد ہے۔
پاکستان میں جس رفتار سے بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ وہ وقت دور نہیں جب لوگ اپنے ہاتھوں سے میٹر اتار یں گے ‘واپڈا کے دفتر جائیں گے اور افسران کی منتیں کریں گے کہ خدا کے لیے ہمارا کنکشن بند کر دیں‘ ہمیں بل نہ بھیجیں‘ ہماری سکت جواب دے گئی ہے۔ بجلی کے بحران سے نمٹنے اور آئی ایم ایف سے بچنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کی جاتی لیکن حکومت جو قرض چڑھائو‘ ملک ''سنوارو‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ نے بجلی مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد بارہ روپے والا یونٹ اٹھارہ اور اٹھارہ والا تئیس روپے کا ہو جائے گا۔ یعنی اس وقت تین سو یونٹ کا بل اگر پانچ ہزار آ رہا ہے تو یہ آ ٹھ سے نو ہزار تک پہنچ جائے گا جبکہ گرمیوں میں پنکھے اور اے سی کولر چلنے کے بعد اوسطاً بل پندرہ بیس ہزار سے کم نہیں آئے گا۔ اس کے بعد کیا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ عوام ابھی تک حکومت سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت تین یا پانچ سال میں کچھ ایسا ضرور کرے گی جس سے انہیں ریلیف ملے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت غریب عوام سے ٹیکس لے کر یہ ملک چلا رہی ہے اور ان تین سو اشرافیہ سے ایک پائی وصول نہیں کر رہی جو اربوں روپے کا ٹیکس اور بجلی چوری کر رہے ہیں۔ ان حالات میں عوام کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر بنگلہ دیش کی طرح ایک ایک‘ دو دو سولر پینل لگا لیں ‘ اس طرح ان کا گزارہ بھی چلتا رہے گا ‘ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور بجلی کے بھاری بلوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔اب سوال یہ ہے کہ عام لوگ سولر انرجی کا خرچ کیسے برداشت کریں‘جواب بڑا سادہ ہے۔ سولر انرجی کی لاگت صرف ابتدائی ہوتی ہے‘ اس کے بعد یہ پینل بیس سے پچیس برس تک بجلی مہیا کرتے ہیں‘ صرف بیٹریاں سات برس بعد تبدیل کرنی ہوتی ہیں۔ اگر واپڈا کے بل سے موازنہ کیا جائے تو سولر پینل پر آنے والا خرچ تین سے پانچ سال میں آپ کو آپ کی رقم لوٹا دیتا ہے اور اس کے بعد بیس برس تک بجلی مفت ملتی رہتی ہے۔رہی بات ابتدائی لاگت کی تو ہم لوگ ویک اینڈ پر چار چار ہزار کا کھانا کھا لیں گے‘ اسی اسی ہزار کا موبائل فون افورڈ کر لیں گے‘ برانڈڈ سوٹ آئے روز تبدیل کرلیں گے لیکن سولر انرجی کے لیے بچت کرنے اور پیسے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے‘ ہماری خواتین سر پر دوپٹہ باندھ کر دو دو گھنٹے حکومت کو صلواتیں سنا لیں گی‘ساٹھ ساٹھ ہزار کا تولہ سونا خرید لیں گی اور خرید کر چوروں‘ ڈاکوئوں کے سامنے رکھ دیں گی‘ لیکن خاوندوں کو زیور کو ہاتھ نہیں لگانے دیں گی اور ان کے مرد اندھیروں کا عذاب سہہ لیں گے‘ یہ ڈنڈے اور پٹرول لے کر واپڈا کے دفاتر جلا کر راکھ کر دیں گے‘ یہ حکمرانوں سے جھوٹی امیدیں لگا لیں گے لیکن اس عذاب سے نکلنے کی تدبیر نہیں کریں گے اور یہ ثابت کر دیں گے کہ جیسے عوام‘ ویسے ان کے حکمران۔