پاکستان میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے لائسنس تو نیلام ہو چکے لیکن پچانوے فیصد عوام کو معلوم ہی نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی ہے کیا۔ یہ ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے ‘عام آدمی کے لیے اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس کے فوائد اور خصوصیات کیا ہیں۔ پاکستان میں چھ سے آٹھ کروڑ افراد موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔اگر یہ نئی ٹیکنالوجی لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی تو پھر لوگوں کی زندگی ہی بدل جائے گی۔ تھری جی سروس اس وقت دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک کے زیراستعمال ہے جبکہ فور جی سروس چند ممالک میں ہی وارد ہوئی ہے۔ یہ دراصل کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ہمارے موبائل میں پہلے سے موجود ٹیکنالوجی کی جدید اور تیز رفتار شکل ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون میں انٹرنیٹ چلاتے ہیں‘ ای میل بھیجتے ہیں اور سوشل میڈیا کی ویب سائیٹس استعمال کرتے ہیں۔ فی الحال ہم دو طریقوں سے یہ کام کرتے ہیں۔ایک‘ موبائل میں موجود وائرلیس سروس کے ذریعے گھر یا دفتر وغیرہ میں موجود انٹرنیٹ کے ساتھ کنیکٹ ہو کر اور دوسرا‘ موبائل کمپنی سے جی پی آر ایس کی سہولت حاصل کر کے۔ وائرلیس کے ذریعے ہم جب گھر یا دفتر کے ایک ایم بی یا اس سے زیادہ کی انٹرنیٹ سپیڈسے کنیکٹ ہوتے ہیں تو ہمارے موبائل کی سروسز بھی تیز رفتاری کے ساتھ کام کرتی ہیں لیکن جیسے ہی ہم گھر یا دفتر سے باہر نکلتے ہیں‘ ہمارا انٹرنیٹ
رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت موجودہ ٹو جی ‘ یا ‘جی پی آر ایس ٹیکنالوجی کی ہے لیکن اس کی سپیڈ بہت کم ہوتی ہے۔ اس میں آڈیو ویڈیو کال اور ایسی دیگر سروسز استعمال کرنا ممکن نہیں۔ نئی ٹیکنالوجی تھری جی اور فور جی ہے۔ یہاں جی سے مراد جنریشن ہے۔ تھری جی ٹیکنالوجی موجود ہ ٹیکنالوجی سے کہیں تیز تر ہو گی جبکہ فور جی تھری جی سے بھی چار ہاتھ آگے ہو گی۔ سادہ زبان میں اگر ہم کہیں تو پانچ منٹ کی ایک ویڈیو اگر ٹو جی ٹیکنالوجی کے ذریعے موبائل فون میں ڈائون لوڈ کی جائے تو اس میں تیس منٹ لگیں گے‘ یہی ویڈیو تھری جی ٹیکنالوجی کے ذریعے چار منٹ اور فور جی ٹیکنالوجی کے ذریعے تیس سیکنڈ میں دیکھی جا سکے گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ ایک موبائل فون ہر قسم کی قید سے آزاد ہو جائے گا ‘ صارف کو صرف اپنی موبائل فون کمپنی سے متعلقہ پیکیج لینا پڑے گااور اس کے بعد وہ گھر‘دفتر ‘ دوران سفر کہیں سے بھی تیز ترین انٹرنیٹ سپیڈ کا فائدہ اٹھا سکے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے کیا فائدے ہو سکتے ہیں۔سب سے پہلے تو صارف کے پاس وہ موبائل فون ہونا چاہیے جو تھری جی یا فور جی کو سپورٹ کرے۔ اس
وقت نئے موبائل فون ایسے آ رہے ہیں جو نئی ٹیکنالوجی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ سب سے بڑا استعمال جو اس نئی ٹیکنالوجی سے عوام اٹھائیں گے وہ موبائل فون پر براہ راست ٹی وی چینل دیکھنا ہو گا۔ لوگ کہیں سے بھی کوئی سا چینل اسی طرح دیکھ سکیں گے جس طرح گھر بیٹھ کر ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح نیٹ پر موجود ویڈیوز دیکھنے والوں کی بھی موج لگ جائے گی ۔ تاہم یو ٹیوب کی بندش کی وجہ سے لوگ اس سروس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔ حکومت اگر یو ٹیوب کھولے گی تبھی لوگ اس نئی سروس کی طرف راغب ہوں گے۔ اس سروس کا دوسرا بڑا استعمال مختلف سافٹ وئیرز کے ذریعے ویڈیو اور آڈیو کالنگ کا ہے۔ سکائپ‘ وائبر وغیرہ کی مدد سے لوگ ایک دوسرے کو کال کرتے ہوئے دیکھ بھی سکیں گے بلکہ ایک وقت میں دس لوگ آپس میں گروپ کانفرنس بھی کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص لاہور میں ہے ‘ اس کا بیٹا دبئی میں ہے‘ جبکہ اس شخص نے اس کے لیے جو رشتہ دیکھا ہے وہ لوگ لندن میں ہیں‘ اب یہ تین لوگ اگر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ موبائل فون پر بات چیت کر لیتے ہیں تو خود ہی سمجھ لیں کہ ان کا کام کتنا آسان ہو جائے گا۔ یہ سروس کاروباری لوگوں کے لیے بھی مفید ثابت ہو گی۔ مثلاً ایک شخص نے اخبار میں اشتہار پڑھا ہے کہ فلاں شخص گاڑی فروخت کر رہا ہے تو وہ اسے ویڈیو کال کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اسے گاڑی براہ راست فون پر دکھا دے تاکہ اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ تیسرا فائدہ یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ ہر شخص ایک چلتا پھرتا رپورٹر بن سکتا ہے۔ وہ کہیں بھی کوئی غیرمعمولی واقعہ دیکھے‘ تو اسے موبائل میں ریکارڈ کر کے میڈیا کو بھجوا سکتا ہے ۔اس کے علاوہ آپ تھری ڈی گیمز کھیل سکتے ہیں، میوزک سن سکتے ہیں،جی پی ایس یعنی گلوبل پوزیشننگ سسٹم کے ذریعے دنیا بھر کے موسم، علاقہ جات اور اوقات وغیرہ کے بارے میں فوری معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں ، آپ راستہ بھول گئے ہیں تو موبائل فون کے ذریعے آپ کو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ
کہاں موجود ہیں‘ قریب کون کون سے پٹرول پمپ موجود ہیں‘ ہسپتال‘ ریسٹورنٹ‘ سکول حتیٰ کہ ہر اہم جگہ کی فہرست آپ کے موبائل فون میں ظاہر ہو جائے گی۔ جو سب سے بڑا فائدہ مجھے دکھائی دے رہا ہے اور اگر ہم اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں تو وہ ٹیلی میڈیسن کا ہے۔ اس کے ذریعے دور دراز کے دیہی علاقوں میں صحت کے متعلق آگاہی اور معلومات دی جا سکتی ہیں۔ آج کل شہروں میں ٹریفک کی جو صورتحال ہے‘ یہ سروس بہت کامیاب ہو سکتی ہے کہ چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں چالیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو چھوٹے موٹے معاملات کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرور ت نہیں رہے گی۔ آپ کہیں بھی ہیں‘ بس فون ملائیے اور ڈاکٹر آپ کو موبائل فون پر دیکھتے ہوئے آپ کے مرض کی ضروری ابتدائی تشخیص کر دے گا اور یہ سب تبھی ہو گا جب یہ کمپنیاں سستے پیکیج دیں گی جو ابتدا میں ممکن نہیں۔
یہ تھری جی اور فور جی کے چند ایک فوائد تھے۔ تاہم جس طرح ہمارے ہاں چیزوں کا استعمال ہوتا ہے‘ اس کے نقصانات فوائد کو پیچھے دھکیل دیں گے اور اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ اس ملک اور اس کے عوام کے لیے اچھا نہیں ہو گا کیونکہ آج وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں جو ٹیکنالوجی میں آگے ہیں اور اگر ہم نے تھری جی اور فور جی کو بندر کے ہاتھ میں استرے کی طرز پر استعمال کیا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔