منگلا ڈیم پاور ہائوس میں آتشزدگی کا واقعہ کیوں پیش آیا‘ آئے روز گرڈ سٹیشنز میں فنی خرابی کیوں پیداہوجاتی ہے ‘موجودہ انفراسٹرکچر بجلی کا لوڈ کیوں نہیں اٹھا پا رہا اور سسٹم میں بجلی شامل کرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ کم کیوں نہیں ہوتی‘ یہ جاننے کیلئے پاور سیکٹر کے اس تازہ سیکنڈل کی تفصیل پڑھ لیں جس کی جھلک میں نے گزشتہ کالم میں بیان کی تھی۔
این ٹی ڈی سی‘ واپڈا اور پیپکو سے منسلک ادارہ ہے‘ اس ادارے کا ایک اہم شعبہ ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ ہے اور اس ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری پورے پاکستان کے گرڈ سٹیشنوںپر لگنے والے آلات کی خریداری اور اس کی انسپکشن ہے۔ گزشتہ برس سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کے 12گرڈ سیٹشنز پر 92پینلز درکار تھے جس کیلئے 28جون 2013ء کو سیپکونے کراچی کی ایک انجینئرنگ کمپنی کے نام گیارہ کلوواٹ کے 36پینل خریدنے کیلئے 5کروڑ 23لاکھ اور 25جولائی کو گیارہ کے وی کے مزید 56پینلز خریدنے کیلئے چھ کروڑ ستتر لاکھ روپے کا پرچیز آرڈر جاری کیا۔26نومبر کو پینلز مہیا کرنے والی کراچی کی اس انجینئرنگ کمپنی نے مینیجر سیپکو کے نام خط لکھا جس میں کہا گیا کہ مطلوبہ 92پینلز تیار ہو چکے ہیں‘آپ اپنی انسپکشن ٹیم میں سے کسی فرد کو نامزد کر دیںجو 19سے 23دسمبر کے درمیان آ کر تمام آلات چیک کر لے تاکہ یہ آرڈر منظور ہو سکے اور ڈیلیوری کی جا سکے۔ اس کے جواب میں9دسمبرکو این ٹی ڈی سی کے مینیجر ڈیزائن نے اپنے ایک انجینئر کو نامزد کیا۔ یہ انجینئر 18دسمبر کی فلائٹ سے کراچی پہنچا۔وہاں اس کی معاونت مقامی انجینئر نے کی۔ انسپکشن کا عمل انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس دوران یہ دیکھا جانا تھا کہ فراہم کیا جانے والا میٹریل عالمی معیار پر پورا بھی اترتا ہے یا نہیں۔ اسے انٹرنیشنل الیکٹریکل سٹینڈرڈز کے مطابق پرکھا اور جانچا
گیا۔ یہ سٹینڈرڈز یورپ‘ امریکہ سمیت دنیا بھر کے ممالک کے گرڈ سٹیشنوں کے لئے بنائے گئے ہیں اور جہاں جہاں ایسی مشینری لگانا مقصود ہو وہاں اس کا معیار‘ اس کی ریزسٹنس اور دیگر پیمانے جانچے جاتے ہیں۔انسپکشن کے دوران خوفناک نتائج سامنے آئے جس کے مطابق مطلوبہ سامان عالمی معیار پر پورا نہ اترا ابلکہ یہ فرق تین سو فیصد سے زائد نکلا۔اس کادوسرا مطلب یہ تھا کہ یہ سامان تین سو فیصدناقص تھا جسے اگر سکھر الیکٹرک پاورسپلائی کمپنی کے گرڈ سٹیشنز میں لگا دیا جاتا تو نہ صرف یہ بجلی کی ترسیل اور گرڈ سٹیشنزکے لئے نقصان دہ ہوتا بلکہ ملکی خزانے پر بہت بڑا ڈاکہ بھی ثابت ہوتا۔ انسپکشن کمیٹی نے کمپنی کے پروڈکشن مینیجر اور جنرل مینیجر کو کہا کہ پینلز کے رزلٹ درست نہیں ہیں‘ان کی کوالٹی کو بہتر بنایا جائے ورنہ آرڈر منسوخ کر دیا جائے گا۔ متعلقہ کمپنی نے دو دن کی مہلت مانگی اور کہا کہ ہم کوالٹی بہتر بنانے کے لئے کام کریں گے۔انسپکشن کمیٹی کی جانب سے دو روز بعد دوبارہ انسپکشن کی گئی اور اس بار بھی نتائج میں فرق 300فیصد سے زائدآیا۔ انسپکشن کمیٹی نے معیار پر پورا نہ اترنے پر پینلز ریجیکٹ کر دئیے اور این ٹی ڈی سی کو رپورٹ لکھ دی کہ پینلز انتہائی گھٹیا معیار کے ہیں لہٰذا آرڈر فوری منسوخ کیا جائے۔جواباً مال بیچنے والی کمپنی کے جنرل مینیجر نے این ٹی ڈی سی ڈیپارٹمنٹ کے چیف ڈیزائن اور چیف انجینئر سے رابطہ کیا جس پر انہوں نے انسپکشن کمیٹی کے ارکان پر دبا ئوڈالا کہ وہ سودا منسوخ کرنے کی بجائے ''او کے‘‘ کا انسپکشن سرٹیفکیٹ جاری کریں۔ انسپکشن کمیٹی کے ممبران کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے پر
انہیں دھمکیاں اور لالچ بھی دیا گیا لیکن انسپکشن کمیٹی نے منظوری سے انکار کر دیا جس پر یکم جنوری 2014ء کو ایک ڈائریکٹرنے انسپکشن کمیٹی کے ممبر کی جگہ غیر قانونی طورپر اپنے دستخط کر کے انسپکشن سرٹیفکیٹ جاری کروا دیا۔حالانکہ اس ڈائریکٹر نے نہ تو کراچی جا کر انسپکشن کی اور نہ ہی یہ کمیٹی کا ممبر تھا ۔ اس کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر مال منظور ہو گیا اور 92ناقص پینلز سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کے مختلف گرڈسٹیشنز پر لگادئیے گئے ۔ ان غیر قانونی اقدامات پر قومی خزانے کو تقریباً 12کروڑ 10لاکھ روپے سے زائدکا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔ سوال یہ ہے کہ پینلز تو لگ گئے‘ اب ہو گا کیا؟جی ہاں اب معمولی وجوہ کی بنا پریہ گرڈ سٹیشنز ٹرپ کر جایا کریں گے‘ ان پینلز میں استعمال ہونے والے ٹرانسفارمرز اور دیگر آلات بجلی کا بوجھ برداشت نہیں کر پائیں گے‘ آلات کے لوڈ نہ برداشت کر سکنے پر آتشزدگی کا امکان بھی بڑھ جائے گااور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی طویل ہو جائے گا۔یوںجتنی مرضی بجلی سسٹم میں شامل کر لی جائے‘ جب تک انفراسٹرکچر ناقص لگایا جاتا رہے گا ‘ بجلی کا بحران بھی باقی رہے گا۔یہ ایسے ہی ہے کہ ایک بوری میں نیچے سوراخ کر دیا جائے اور اوپر سے سامان ڈالتے رہیں اور پھر کہیں کہ بوری خالی کیوں رہتی ہے؟
یقیناً اس سکینڈل کا نتیجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں نکلے گا کہ انکوائری کمیٹی بیٹھے گی‘ کاغذات کا تبادلہ ہو گا‘میٹنگز ہوں گی اور یہ معاملہ بھی مٹی میں مل جائے گا اور اس کی تین وجوہ ہیں‘ پہلی یہ کہ فرض کریں‘ وزیراعظم یا وفاقی وزیر اس سکینڈل کا نوٹس لے لیتے ہیں تو یہ معاملہ ایم ڈی ‘این ٹی ڈی سی کے پاس چلا جائے گا۔ جس ڈائریکٹر نے انسپکشن کمیٹی کے اصل ممبر کی جگہ بوگس دستخط کئے تھے وہ ایم ڈی صاحب کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں ۔ تو پھر وہ کیوں اس ڈائریکٹر کے خلاف ایکشن لیں گے۔ ویسے بھی ایم ڈی صاحب خود بھی دو نجی کمپنیاں چلا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ این ٹی ڈی سی سے بھی تنخواہ اور مراعات وصول کر رہے ہیں تو وہ اس معاملے کو کسی منطقی انجام تک کیوں پہنچائیں گے؟صرف یہی نہیں ،انیس اور بیس گریڈ کے افسران کی اکثریت نے کمپنیاں کھولی ہوئی ہیں ‘ یہ سب ملی بھگت سے ایک دوسرے کے لیے ٹینڈر منظور کرواتے ہیں ‘ گھٹیا مال زیادہ قیمت پر منظور کرتے ہیں اور یوں قومی خزانے کو چونا لگاتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں سے ایماندار ی کی توقع کی جا سکتی ہے؟دوسرا یہ کہ بوگس دستخط کرنے والے ڈائریکٹر کا قریبی عزیز ایف آئی اے میں اعلیٰ عہدے پر تعینات ہے تو اگر اس کا کیس ایف آئی اے میں چلا بھی جاتا ہے تو ایکشن کیا ہو گا؟تیسرا یہ کہ اسی ڈائریکٹر کے خلاف نیب میں پہلے سے ٹرانسفارمرز میں کرپشن کے حوالے سے ایک معروف کیس عرصے سے داخل ہے‘ اس کی انکوائری بھی مکمل ہو چکی ہے لیکن موصوف آزاد پھر رہے ہیں۔
میں بارہا گزارش کر چکا ہوں کہ حکمران لوڈشیڈنگ اور بجلی چوری کم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے واپڈا کے اعلیٰ افسران کو کٹہرے میں لائیں‘ ان کے اثاثے نکلوائیں‘ ان کی نجی کمپنیاں بند کروائیں‘ ان کی دوہری شہریت منسوخ کریں‘ ان کے بینک اکائونٹس چیک کرائیں‘ان کی تنخواہوں اور ان کے لائف سٹائل کا موازنہ کریں‘ ان کے گھر میں کھڑی گاڑیوں پر نظر ڈالیں‘ ان کے کریڈٹ کارڈز اور سفر کی تفصیلات نکلوائیں‘ ان کے پلاٹوں اور کوٹھیوں کا ریکارڈدیکھیں‘سوئس بینکوں سے ان کے اکائونٹس کی تفصیلات منگوائیںاور اس کے بعد دیکھیں کہ کیسے کیسے مگرمچھ بے نقاب ہوتے ہیں‘پھر دیکھیں کہ کیسے بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کیا لیسکو چیف ارشد رفیق اور ڈائریکٹر آپریشنز محبوب علی کی گرفتاری کے بعد بھی کوئی ابہام باقی رہ جاتا ہے کہ واپڈا‘ لیسکو اور این ٹی ڈی سی کے افسران بجلی چوری‘ کرپشن اور لوڈشیڈنگ کے ذمہ دار نہیںاور یہ جرائم کوئی خلائی مخلوق آ کر کرتی ہے اور کیا یہ ملک ایسے ہی لوگوں کے لئے بنا تھا جو رہائش تو امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ میں رکھیں‘ بینک اکائونٹ سوئٹزر لینڈ میں کھولیں ‘ کاروبار دبئی‘ سنگا پور اور ملائشیا میں کریں اور لوٹ مار کرنی ہو تو پاکستان آ جائیں؟ میرے پاس ایسے مزید سکینڈل معہ ثبوت موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان سکینڈلز کا علم وزیر مملکت عابد شیر علی کو نہیں‘ کیا یہ درست نہیں کہ واپڈ میں گریڈ انیس کے کئی افسران وزارت پانی و بجلی نے براہ راست لگوائے ہیں اور جب ان کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس آئے گا تو یہ کس کی طرف داری کریں گے اور اگر ہر محکمے میں کرپٹ افسران کا حکم ہی چلنا ہے تو پھر ہم اپنے بچوں کو امانت‘ دیانت اور صداقت کا سبق کیوں سکھاتے ہیں‘ پھر ہم اپنا نصاب ہی کیوں تبدیل نہیں کر دیتے‘ ہم انہیں بچپن سے ہی چور ‘ڈاکو اور کرپٹ بننے کی تربیت کیوں نہیں دے دیتے؟