گزشتہ روز جب ایمریٹس ایئر لائن کا طیارہ لاہور ائیر پورٹ پر کھڑا تھا تو ڈاکٹر طاہر القادری کا ابتدا میں یہ مطالبہ تھا کہ انہیں پنجاب حکومت کی سکیورٹی پر اعتماد نہیں لہٰذا انہیں فوج کی سکیورٹی فراہم کی جائے جو انہیں اپنی حفاظت میں ایئرپورٹ سے گھر پہنچائے۔ اس مطالبے کے جواب میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ فوج اتنی ''ویلی‘‘ نہیں کہ وہ طاہر القادری کو سکیورٹی دیتی پھرے۔ وہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور قادری صاحب کو اپنی پڑی ہے۔ جس طرح نون لیگ کے تنخواہ دار گزشتہ ہفتے یہ بھول گئے تھے کہ منہاج القرآن مرکز کے باہر جو رکاوٹیں موجود تھیں ‘ وہی شریف برادران کے گھر کے باہر بھی موجود تھیں‘ اسی طرح آج بھی خواجہ سعد رفیق یہ بھول گئے کہ جس پولیس فورس پر طاہر القادری کو بھروسہ نہیں کہ جو‘ ان کے چودہ کارکنوں کو سرعام قتل کرچکی تھی ‘ اُسی پولیس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی چند روز قبل عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا اور اپنی اور اہل خانہ کی سکیورٹی کے لئے فوج کی مدد طلب کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایک کام اگر حکمرانوں کے لئے ٹھیک ہے تو وہ کسی اور کے لئے غلط کیسے ہو گیا ‘ جو رکاوٹیں منہاج القرآن مرکز کے باہر شہریوں کے لئے مشکلات کا باعث تھیں ‘ ویسی ہی رکاوٹیں شریف برادران کے گھروں کے باہر عوام کے لئے مقدس کیسے ہو گئیں؟
حیرانی اس بات پر نہیں ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں پولیس نے ماڈل ٹائون میں خون کی ہولی کیوں کھیلی‘ حیرانی اس پر بھی نہیں کہ وزیراعلیٰ اگر اس خونی واقعے سے لا علم تھے تو پھر ان کا ایک سٹاف
افسر جناح ہسپتال کے ایم ایس آفس میں ریکارڈ کے ردوبدل کیلئے کیوں موجود تھا‘ حیرانی اس پر بھی نہیں کہ منہاج القرآن مرکز کو ٹیک اوور کرنے کا حکم دینے والا ایس پی سکیورٹی علی سلمان کیمرے کی آنکھ میں آ جانے کے باوجود ابھی تک شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا‘ حیرانی اس پر بھی نہیں کہ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام‘ جمعیت اہلحدیث اور دیگر مذہبی جماعتوں کا کوئی قائد تنزیلہ اور شازیہ جیسے مظلوموں کے گھر تعزیت کیلئے کیوں نہیں گیا‘ حیرانی اس پر بھی نہیں کہ گزشتہ دور میں جو وزیراعلیٰ اپنی تقریروں میں خونی انقلاب کی پیش گوئی کرتا تھا‘ وہ آج انقلاب کے نام سے اتنا خائف کیوں ہے اور حیرانی اس پر بھی نہیں کہ حکومت ایک مذہبی جماعت کے لیڈر کی پاکستان آمد سے اتنی گھبرا اور سٹپٹا کیوں اٹھی بلکہ حیرانی اس پر ہے کہ حکمران اور ان کے تنخواہ دار ایک شخص کی ان باتوں‘ تجاویز اور مطالبات کا ٹھٹھا کیوں اڑا رہے ہیںجو باتیں‘ تجاویز اور مطالبات وہ عرصہ دراز سے خود بھی دہراتے آئے ہیں اور انہی کے بل بوتے پر تیسری بار حکمرانی کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اگر کوئی لیڈر اٹھتا ہے ‘ وہ کہتا ہے ‘ ہر شخص کے گھر میں چولہا جلنا چاہیے‘ ہربچے کو سکول جانا چاہیے اور ہر گھرانے کو صاف پانی ملنا چاہیے اور اگر وہ کہتا ہے کہ ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے‘
لوگ اپنے جگر گوشے فروخت کر رہے ہیں اور مائیں بچوں سمیت نہروں میں چھلانگیں لگا رہی ہیں تو اس میں کون سی بات ہے جو وہ غلط کہہ رہا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے‘ اس نظام میں عام لوگوں کو انصاف میسر نہیں‘ معمولی معمولی کیس بیس بیس برس تک التوا کا شکار رہتے ہیں‘ وہ کہتا ہے تھانیدار عام آدمی کی بات نہیں سنتا‘ پٹواری رشوت لئے بغیر مسئلہ حل نہیں کرتا اور کلرک سفارش کے بغیر صاحب سے ملنے نہیں دیتا تو وہ کون سا جھوٹ بول رہا ہے۔کیا یہ ساری باتیں وہی نہیں جو نون لیگ کے منشور میں موجود ہیں‘ جو پیپلزپارٹی کے نعروں کا حصہ ہیں ‘جو تحریک انصاف کی اٹھان کی بنیاد ہیں اور اگر یہ وہی ہیں تو پھر آج نون لیگ ان پر اس طرح کی حیرت کا اظہار کیوں کر رہی ہے جیسے یہ کوئی انہونے مطالبات ہوں۔ میں نہ طاہر القادری کا مرید ہوں نہ ہی ان کا فین ‘ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ انہوں نے حقیقت میں عوام کی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا ہے‘ کیا پیپلزپارٹی کے دور میں نون لیگ ایسے ہی عوام کے ساتھ نہیں کھڑی ہوئی تھی اور کیا اس سے قبل پیپلزپارٹی اور نون لیگ مل کر پرویزمشرف اور پرویز الٰہی کیخلاف عوام کے حقوق کے لئے اکٹھی نہیں ہوئی تھیں اور اگر ہوئی تھیںاور اگر ق لیگ‘ پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے ان نعروں کے بل بوتے پر حکومتیں بھی بنا لیں تو پھر اس کے بعد بھی عوام کی حالت ویسی کی ویسی کیوں رہی۔ مکہ کالونی کی جو بشریٰ زرداری دور میں دو بچوں سمیت ریلوے لائن پر کٹ مری تھی‘ کیا ویسی ہی بشرائیں آج بھی غربت‘ ناانصافی اور زیادتیوں کے باعث خود کو آگ نہیں لگا رہیں؟ آج بھی لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں‘ لوڈشیڈنگ اسی طرح جاری ہے‘ بجلی کے نرخ آسمانوں کو چھو رہے ہیں‘ بیروزگاری کا عذاب پہلے سے بڑھ چکا‘ ہسپتال ذبح خانے بن چکے‘ پولیس آج بھی بھیڑیا بنی ہوئی ہے ‘ آج بھی غریب کا بچہ آفس بوائے سے زیادہ کچھ بن نہیں سکتا اور اگر بن جائے تو آگے نکلنے نہیں دیا جاتا‘ آج بھی حکومتیں قرضوں اور سودی نظام کے تحت چلائی جا رہی ہیں اور ان مہربانیوں کی بدولت آج ہر بچہ اسی ہزار روپے کے قرض کا کفن سر پر باندھ کر پیدا ہو رہا ہے اور اگر یہ سب پہلے بھی ہو رہا تھا اور آج بھی ہو رہا ہے اور اگر عوام کے ان حقوق پر آواز اٹھانے والے کل ملک کے وفادار‘ محب وطن اور دردمند لیڈر کہلا سکتے تھے تو پھر آج ان حقوق پر آواز اٹھانے والے غدار‘ ملک دشمن اور شعبدہ باز کیسے ہو گئے؟ وہی ٹی وی چینل جو کل تک چیف جسٹس کی بحالی کی مہم کئی روز براہِ راست دکھانے اور مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد پر شاباش کے مستحق رہے‘ وہ آج جناب وزیراعظم کی نظر میں مشکوک کیسے ہو گئے؟ انہوں نے کون سا ایسا پاکستان دکھا دیا جو وزیراعظم کو یہ کہنا پڑا کہ کچھ چینلز نہ جانے کون سا پاکستان دکھا رہے ہیں اور اصل پاکستان وہی ہے جووہ سمجھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی دودھ کی نہریں ہیں جو میڈیا سے اوجھل ہیں اور صرف وزیراعظم ‘وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کو دکھائی دے رہی ہیں اور کیا یہ وہی انداز تخاطب نہیں جو پرویز مشرف کا طرز خاص تھا اور اگر یہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں تو ان میں اور اُن میں کیا فرق رہ گیا۔وزیراعظم نے اصل پاکستان دیکھنا ہے تو کبھی بھیس بدل کر اس ملک کی سڑکوں‘ گلیوں اور بازاروں میں تشریف لائیں‘ لوگوں کے گھروں میں جھانکیں‘ لوگوں سے پوچھیں ‘ اُن کا حال کیا ہے‘ وہ زندہ کیسے ہیں اور اُن پر گزر کیا رہی ہے۔ اپنے میڈیا مینیجروں کی نہیں‘ اپنی آنکھ سے دیکھیں‘ انہیں معلوم ہو جائے گا اصل پاکستان ہے کیسا۔
حقیقت یہ ہے کہ طاہر القادری ہوں‘ عمران خان‘ میاں نواز شریف یا کوئی اور‘ یہ سب لاکھوں کا مجمع بھی اکٹھا کر سکتے ہیں‘ یہ عوام کے مسائل سے واقف بھی ہیں‘ یہ لوگوں کو بات بات پر کٹنے‘ مرنے اور مارنے کے لئے تیار بھی کر سکتے ہیں ‘ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن ایک کام نہیں کر سکتے‘ یہ لوگوں کے مسائل حل نہیں کر سکتے ‘ یہ انہیں اُن کا حق نہیں دلا سکتے!