"ACH" (space) message & send to 7575

آئی ڈی پیز انگریزوں کیلئے قربانی دے رہے ہیں؟

شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کن حالات سے گزر رہے ہیں‘ آپریشن ضرب عضب کس مرحلے میں ہے اور دہشت گردوں کو کتنا نقصان پہنچا ہے ‘ میڈیا میں اس بارے مختلف آراء آ رہی ہیں۔ کبھی کہا جا رہا ہے یہ آپریشن کئی برس ختم نہیں ہو گا‘ کوئی کہہ رہا ہے لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور کسی کے مطابق لاکھوں مزید افراد کی نقل مکانی کا امکان ہے۔ اب ذرا یہ حقائق بھی ملاحظہ فرمائیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 93خاندان بنوں سے واپس اپنے گائوں ایدک پہنچ گئے ہیں۔ یہ گائوں شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں واقع ہے۔ چند ماہ قبل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایڈیٹرز اور کالم نگاروں کو ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ فاٹا کی سات میں سے چھ ایجنسیاں فوج پہلے ہی کلیئر کر چکی ہے۔ جہاں تک شمالی وزیرستان کی بات ہے اس میں بھی صرف تین علاقے ایسے ہیںجو شدت پسندوں کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ علاقے میرعلی ‘میران شاہ اور دتہ خیل ہیں۔ میر علی ایک طرف سے بنوں اور دوسری جانب افغان سرحد سے جا ملتا ہے۔یہ طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اگر 93 خاندان میر علی میں اپنے آبائی گائوں واپس پہنچ چکے ہیں تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ آپریشن تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔دہشت گردوں کا دوسرا بڑا ٹھکانہ دتہ خیل ہے۔اس کے اکثر علاقے افغان سرحد کے قریب واقع ہیں۔ شمالی وزیرستان میں سب سے زیادہ پہاڑی سلسلے اور گھنے جنگلات بھی اسی علاقے میں ہیں۔ روس کے خلاف جہاد کے دنوں میں اس علاقے کو ''مجاہدین‘‘ روس کے خلاف جنگ میں اپنے مضبوط ٹھکانوں کے طورپر استعمال کرتے تھے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد زیادہ تر ملکی اور غیر ملکی جنگجوؤں نے جنوبی و شمالی وزیرستان کا رُخ کیا۔ پہلے پہل وزیرستان آنے والے ان جنگجوؤں نے عام شہریوں کے ساتھ رہائش اختیار کی۔مگر جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا تو طالبان جنگجوؤں نے اپنے ٹھکانے دتہ خیل جیسے بلند پہاڑی سلسلوں اور گھنے جنگلات میں قائم کر لیے۔ دہشت گردوں کا تیسرا بڑ اہیڈکوارٹر میران شاہ ہے۔ یہ شمالی وزیرستان کا صدر مقام ہے ۔ اس کی سرحدیں ایک طرف افغانستان جبکہ دوسری طرف بنوں، کرم ایجنسی اور جنوبی وزیرستان سے لگتی ہیں۔حالیہ آپریشن کے بعد فوج میران شاہ کا چالیس فیصد علاقہ مکمل طور پر کلیئر کر چکی ہے اور اب تک چار سو سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔رفتار یہی رہی تو کوئی شک نہیں کہ فوج بقایا علاقے بھی جلد کلیئر کر دے گی اور آئی ڈی پیز یہ عید اپنے گھروں میں منا سکیں گے۔ سوات آپریشن کے وقت بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ یہ آپریشن برسوں چلے گا لیکن سب نے دیکھا کہ 45دنوں میں سوات کو دہشت گردوں سے خالی کرا لیا گیا۔ آئی ایس پی آر تازہ بریفنگ کے ذریعے صحافیوں کو آپریشن کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کردے تو تصویر مزید واضح ہو جائے گی۔ یہ تو آپریشن کی بات تھی‘ اب ہم آئی ڈی پیز کی طرف واپس آتے ہیں۔شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے تقریباً سات لاکھ افراد کی رجسٹریشن مکمل ہو چکی ہے۔ اسی فیصد آئی ڈی پیز بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں مقیم ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے واقعتاً انصار مدینہ کی یاد تازہ کر دی ہے کہ جب لوگوں نے اپنے گھر ‘ اپنا
سامان اور اپنا مال مہاجرین کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اگر آپ بنوں جائیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے کہ آپ کو نہ تو اس طرح کی خیمہ بستیاں نظر آئیں گی جیسی سوات میں بنائی گئی تھیں اور نہ ہی کھلے آسمان تلے لوگ بے یارومددگار دکھائی دیں گے۔ اس وقت صرف چند ہزار لوگ عارضی خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں جبکہ پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کو عوام نے اپنے گھروں میں جگہ دے دی ہے۔ اگر کسی کا تین کمرے کا گھر ہے تو وہ فیملی خود ایک کمرے تک محیط ہو گئی ہے۔ اسی طرح کسی کا حجرہ یا ڈیرہ ہے تو دو دو سو افرا د وہاں مہمان بن چکے ہیں۔ اسی طرح سکولوں و کالجوں میں بھی بڑی تعداد مقیم ہے۔ ایک شخص نے بتایا‘ اس کا اسی لاکھ کا گھر تھا‘ اس نے پورا گھر آئی ڈی پیز کیلئے وقف کر دیا اور خود گھر کے ساتھ موجود کوارٹر میں رہ رہا ہے۔ جن فیملیوں کی رجسٹریشن ہو چکی ہے‘ ان کے سربراہ کو حکومت کی طرف سے ایک ماہ کا راشن مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر فیملی کو چالیس ہزار روپے ماہانہ دئیے جا رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان سے آنے والے خاندانوں کی اکثریت خوشحال تھی۔ یہ ٹینٹوں میں رہ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان میں سے اکثر کاروباری ہیں اور بیشتر کے رشتہ دارامریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں۔ ان لوگوں کا گناہ یہی تھا کہ وہ دہشت گردوں کے درمیان رہ رہے تھے یا پھر انہیں مجبوراً خاموش رہنا پڑتا تھا کیونکہ طالبان کے بارے میں اطلاع دینے والے کا انجام موت یا اغوا کی صورت میں نکلتا تھا۔ اب لوگوں میں ہمت آنے لگی ہے۔ کچھ دہشت گردوں نے سامان اور ٹرنکوں میں چھپ کر آنے کی کوشش کی تو لوگوں نے شور مچا دیا‘ اس طرح درجنوں زندہ گرفتار ہو گئے۔ 
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا آئی ڈی پیز کی خدمت صرف بنوں کے عوام کا فریضہ ہے اور کیا یہ لاکھوں آئی ڈی پیز انگریزوں کے لئے قربانی دے رہے ہیں۔ آپریشن کی ٹائمنگ اس لحاظ سے اہم تھی کہ یہ رمضان المبارک سے چند روز قبل شروع ہوا۔ رمضان میں مسلمان زکوٰۃ بھی دیتے ہیں اور صدقات بھی۔پاکستانی قوم ویسے بھی سالانہ نوے ارب روپے صدقات و خیرات میں دے دیتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ بہترین موقع ہے کہ اپنے ملک کو بچانے کے لئے اپنامال اپنے وطن کے نام کر دیا جائے۔آرمی‘ صوبائی حکومتیں اور فلاحی تنظیمیں ہمیشہ کی طرح متاثرین کی مدد کر رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ سب چیزیں چینلائز ہوں اور تمام چھوٹی بڑی تنظیمیں کسی ایک حکومتی ادارے کو عطیات اور سامان وغیرہ جمع کرائیں، تاکہ یہ اندازہ بھی رہے کہ کس قدر امداد کی جا چکی ہے،کیونکہ اس طرح بعض لوگ تو چار چار مرتبہ راشن لے لیتے ہیں اور کسی کو ایک مرتبہ بھی نہیں ملتا۔ آئی ڈی پیز کے بارے میں تازہ صورتحال ڈاکٹر آصف جاہ سے معلوم ہوئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنی ٹیم لے کر بنوں پہنچ چکے ہیں۔ سیلاب‘ زلزلے ‘ قحط اور سوات آپریشن میں ان کی خدمات گراں قدر ہیں۔ ایسے لوگوں کو قومی سطح پر سراہا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق بنوں کے درد دل رکھنے والوں نے آئی ڈی پیز کو اپنے اندر ایسے سمو لیا ہے جیسے مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے چھپا لیتی ہے۔ لوگوں نے اپنے دروازے‘ حجرے‘ بنگلے ‘ دالان اور بیٹھکیںتک آئی ڈی پیز کے لئے خالی کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوات آپریشن کے دوران جس طرح میڈیا نے کیمپوں میں لوگوں کی حالت زار دکھائی تھی‘ اب کی بار ویسے مناظر سامنے نہیں آئے ۔ اس ساری کہانی میں حکومت کا کردار سب سے کمزور ہے۔ پہلے ماڈل ٹائون آپریشن کر کے قوم کی توجہ فوجی آپریشن سے ہٹائی گئی اور اب جب آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے تو آئی ڈی پیز کا ویسے خیال نہیں رکھا جا رہا جیسے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام رکھ رہے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں‘ اوپر سے یہاں لوڈشیڈنگ دیگر علاقوں کی طرح جاری ہے۔ گرمی بھی شدید ہے اور روزے بھی چل رہے ہیں۔ حکومت کچھ تو خدا کا خوف کرے۔ اگر انہیں ریلیف نہیں دے سکتی تو تکلیف تو نہ دے۔یہ اور کچھ نہیں کر سکتی تو بنوں جیسے علاقوں کو لوڈشیڈنگ فری قرار دے دے تاکہ متاثرین کو احساس ہو کہ کہیں تو حکومت ان کے ساتھ ہے اور اگر حکمران یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر اس وقت کا انتظار کریں‘ جب ظلم سے تنگ آئے لوگ آستینیں چڑھا لیں گے ‘ یہ ڈاکٹر طاہر القادری جیسے ''رہنمائوں‘‘ کا ہاتھ تھام لیں گے اور انقلاب کا یہ ڈرامہ ‘ سچ مچ آگ اور خون کے کھیل میں بدل جائے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں