موت آپ کے کتنا قریب پہنچ چکی ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا لیجئے۔پانچ جولائی کو ایک اُردو اخبار کے ایڈیٹر رپورٹنگ‘ طارق عبداللہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ گھر سے نکلے۔ یہ کسی کام سے لاہور کی سوسائٹی ایل ڈی اے ایونیوون میںجارہے تھے۔ رائے ونڈ روڈ پر انہیں چند سیکنڈ سگنل پر رکنا پڑا اور یہ چند سیکنڈ ہی ان کی موت کا سامان بن گئے۔ قاتل ان کے سر پر کھڑا تھا۔ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ چند لمحوں بعد ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی سگنل گرین ہوا اور طارق عبداللہ نے گیئر لگایا تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ ان کے قاتل نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ چند لمحے قبل جو فیملی ہنستی مسکراتی رواں دواں تھی‘ وہ آگ اور خون میں تڑپنے لگی۔ انہیں ایسے لگا جیسے کسی نے ان کے جسم کو آگ لگائی ہو اور پھر ان پر کھولتا ہوا گرم تیل پھینک دیا ہو۔ طارق عبداللہ جو خود آگ میں جل رہے تھے‘ نے اپنی اہلیہ کی آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن دونوں بے ہوش ہو گئے۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ایمبولینس آئی اور انہیں جناح ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں کہا گیا کہ جلے ہوئے مریضوں کا علاج صرف میو ہسپتال میں ہوتا ہے چنانچہ دونوں میاں بیوی کو میو ہسپتال کے آئی سی یو اور برن یونٹ میں رکھا گیا لیکن طارق عبداللہ کی اہلیہ تین روز بعد زخموں کی تاب نہ لا سکیں اور خالق حقیقی سے جا ملیں جبکہ طارق عبداللہ جناح ہسپتال کے برن یونٹ میں موت سے جنگ لڑ رہے ہیں۔
اب میں آپ کو قاتل سے ملاتا ہوں۔ آپ ذرا گھر سے باہر نکلیں ، سڑک پر دیکھیں‘ آپ کو بھی یہ قاتل نظر آجائے گا۔ آپ اس
قاتل کو روز دیکھتے بھی ہیں ‘ اس کے پاس سے گزرتے بھی ہیں لیکن ابھی تک آپ کو محسوس نہیں ہوا کہ یہ کبھی آپ کی جان بھی لے سکتا ہے۔ جی ہاں ‘ طارق عبداللہ پر یہ قاتلانہ حملہ ایک ٹرانسفارمر نے کیا‘ جو گلی گلی ‘ قریہ قریہ بموں کی شکل میں ہمارے سروں پر نصب ہیں۔ یہ ٹرانسفارمر آئے روز پھٹ رہے ہیں اور ان میں موجود دو سو لیٹر کھولتا ہوا تیل جسموں کو جلا اور پگھلا رہا ہے۔ طارق عبداللہ کے ساتھ حادثہ 5جولائی کو پیش آیا۔ اس سے قبل میں نے 11جون کے کالم میں ایک سکینڈل لکھا تھا کہ کس طرح لیسکو اور این ٹی ڈی سی کی ملی بھگت سے قوم کو بارہ کروڑ روپے کا چونا لگایا گیا۔ اگر اس سکینڈل پر غور کیا گیا ہوتا تو اس حادثے کی وجہ سمجھ میں آ جاتی۔ میں نے لکھا تھا کہ کس طرح گزشتہ برس سکھر گرڈ سٹیشن میں ایسے ہی غیر معیاری ٹرانسفارمرز اور دیگر آلات لگانے کے لئے این ٹی ڈی سی نے منظوری دی جس کے بعد یہ سارا سامان سکھر گرڈ سٹیشن کے علاقے میں جا کر لگ گیا۔ واپڈا کے کسی بھی قسم کے آلات کی خریداری اسی وقت ہوتی ہے جب انسپکشن ٹیم منظوری دے دے۔ لیکن جب سکھر جانے والے ان ٹرانسفارمرز وغیرہ کو چیک کیا گیا تو عالمی معیار سے تین سو فیصد سے زائد فرق آیا جس پر انسپکشن ٹیم نے سامان کی منظوری سے انکار کر دیا۔جواب میں این ٹی ڈی سی کے انیسویں گریڈ کے کرپٹ افسران نے انسپکشن ٹیم پر دبائو ڈالنا
شروع کر دیا۔ انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ وہ غیر معیاری سامان کی منظوری دیں وگرنہ اچھا نہیں ہو گا۔ انسپکشن ٹیم کے انکار پر این ٹی ڈی سی کے متعلقہ افسران نے جعلی دستخطوں کے ساتھ اس کی منظوری کروا لی۔ جس کے بعد یہ بم نما ٹرانسفارمرز سکھر میں جا کر لگ گئے اور اسی طرح پورے ملک میں لگ رہے ہیں۔ صرف طارق عبداللہ کے ساتھ ہی یہ واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ ایسے درجنوں واقعات آئے روز پیش آ رہے ہیں۔ مثلاً 9 جون 2013ء کو سانگلہ ہل میں حمید نظامی روڈپر نصب ٹرانسفارمر زور دار دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں کئی لوگ بری طرح جھلس گئے تھے۔ یہاں ایڈیشنل سیشن جج اور 2سول ججز کی رہائش گاہیں بھی ہیں اور اس سے قبل بھی یہاں ٹرانسفارمرز پھٹ چکے ہیں۔ اسی طرح 27مئی 2012ء کو ساہیوال کے چک55 فائیو ایل میں ٹرانسفارمر پھٹنے
سے 4بچوں سمیت 5افراد بری طرح جھلس گئے۔ 27اگست 2013ء کو فیض آباد میں سوئے ہوئے مزدوروں کو ٹرانسفارمر سے نکلنے والی آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان تمام علاقوں کے صارفین کی متعدد درخواستوں کے باوجود واپڈا حکام کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔
سوال یہ ہے کہ یہ ٹرانسفارمرز ترقی یافتہ ممالک میں کیوں نہیں پھٹتے اور کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 5جولائی کو ہی رائے ونڈ روڈ پر کچھ فاصلے پر ایک اور ٹرانسفارمر پھٹا تھا اور یہ دونوں ٹرانسفارمر ایک ہی کمپنی کے تھے جبکہ ان میں سے ایک ٹرانسفارمر ایک روز قبل ہی لگایا گیا تھا۔ یہ کمپنی عدالت نے ناقص میٹریل کے باعث بین کر دی تھی لیکن اس کے باوجود یہ کمپنی لوگوں کی جانوں سے کھیل رہی ہے۔ میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ لوڈشیڈنگ اور بجلی چوری کا مسئلہ تبھی حل ہو گا جب واپڈا‘ لیسکو اور این ٹی ڈی سی کے کرپٹ افسران اور نچلے عملے کا بے رحم احتساب ہو گا۔ یہ سارے لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ واپڈا میں سترہ گریڈ اور اس سے اوپر کا افسر براہ راست وفاقی محکمہ بجلی و پانی کے ذریعے بھرتی ہوتا ہے۔ من پسند لوگ من پسند علاقوں میں لگائے جا رہے ہیں۔ کئی ایس ڈی اوز ایسے ہیں جنہیں بیک وقت دو‘ دو سب ڈویژنوں کا مالک و مختار بنا دیا گیا ہے تاکہ وہ جی بھر کے لوٹ مار کر سکیں۔ وزیرمملکت عابد شیر علی کبھی کبھار شیر کی طرح دھاڑتے ہیں کہ وہ واپڈا کے افسران کے اثاثے سامنے لائیں گے لیکن ابھی تک انہوں نے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کرنا ہے۔ گریڈ انیس اور بیس کے افسران دو دو ممالک کی شہریت بھی رکھتے ہیں‘ اپنی نجی کمپنیاں بھی چلا رہے ہیں اور ساتھ ہی لاکھوں کی تنخواہوں اور مراعات کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں لیکن حکومت کو کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ لوگ اپنی کمپنیوں میں غیر معیاری انرجی میٹرز‘ کھمبے اور ٹرانسفارمرز وغیرہ بنا رہے ہیں اور عوام کے سروں پر بم بنا کر نصب کر رہے ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔
افسوس تو اس پر ہے کہ حکومتی شخصیت تو درکنار‘ کوئی این جی اوز‘ کوئی الیکٹرانک میڈیا اور کوئی صحافی تنظیمیں بھی اس صحافی سے افسوس کرنے اور اس کی تیمارداری کے لئے نہ پہنچیں ۔ وہ سپریم کورٹ جہاں معمولی معمولی بات پر از خود نوٹس لیے جاتے ہیں‘ اس نے بھی دو بچوں کی ماں کے زندہ جل جانے اور واپڈکی غفلت پر نوٹس نہ لیا۔اگر یہ خبر روزنامہ دنیا میں نہ چھپتی تو کسی کو شاید علم ہی نہ ہوتا۔ طارق عبداللہ نے مجھ سے پوچھا کہ اٹھارہ کروڑ عوام میں سے کوئی تو اسے بتائے کہ اس کا قصور کیا تھا؟ وہ اپنے بچوں ارسلان اور ماہا کی ماں کیسے واپس دلائے؟ کیا وہ حکومت کو ٹیکس اس لئے دیتے رہے کہ حکومت اپنے قومی اداروں کو کرپشن کی کھلی چھوٹ دے دے اور انہیں روزے کی حالت میں سڑک پر جلتاچھوڑ دے؟ کیا وزیراعظم نواز شریف سے لے کر عمران خان تک کے لئے انسانی جانوں کی اتنی ہی اہمیت ہے کہ ان سے ووٹ لے لئے جائیں اور اس کے بعد انہیں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ کیا جب تک یہ بم خدانخواستہ آپ کے ‘ میرے‘حکمرانوں اور ان کے عزیزوں کے سر پر نہیں پھٹ جاتا تب تک کسی کو نہ اس کا احساس ہو گا ‘نہ کوئی اس پر ایکشن لے گا؟