جب روم میں آگ لگی ہوئی تھی تو نیرو بانسری بجا رہاتھا ‘پاکستان میں سیلاب آیا ہے تو یہاں کے حکمران لاہور میں اشرافیہ کو موٹر وے پر جلدی پہنچانے کیلئے 30ارب سے ایکسپریس وے شروع کر رہے ہیں۔ یا تو ہم پاگل ہیں یا پھر حکمران اتنے بڑے ارسطو ہیں کہ جن کی سمجھ ہم بیوقوفوں کو نہیں آ رہی۔ بندہ پوچھے‘ دوسروں کو کہتے ہو ‘ دھرنے دے کر معیشت کو اربوں کا نقصان پہنچا دیا اور خود اس نازک وقت میں اربوں روپے سڑکوں پر جھونکنے کو تیار ہو گئے ہو۔ بھوک سے بلکتے عوام کے مسائل کا حل یہ نکالا گیا کہ جیل روڈ کے فوارہ چوک سے ایک چار رویہ ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے تعمیر کر دی جائے تاکہ یہ بھوکے ننگے جلدی سے موٹر وے پر پہنچ جائیں جہاں یہ دیر سے پہنچے تو کہیں ان کے ہاتھ سے جنت نہ نکل جائے۔
کون نہیں جانتا یہ منصوبہ کیوں اور کس کے مفاد کیلئے شروع کیا جا رہا ہے۔ فوارہ چوک کے قریب جس ''اہم‘‘ شخصیت کی بزنس ایمپائر ہے‘ اسے موٹر وے پر جانے کے لئے نہر کے ذریعے ٹھوکر نیاز بیگ سے موٹر وے پر چڑھنا پڑتا تھا۔ چنانچہ حل یہ نکالا کہ گلبرگ کو براستہ جیل روڈ ‘ ایل او ایس‘ گلشن راوی اور بند روڈ سے ہوتے ہوئے موٹر وے سے ملا دیا جائے۔ یوں قومی خزانے کو تیس ارب کا چونا چاہے لگ جائے لیکن نہر سے موٹر وے پر جانے میں جو پندرہ بیس منٹ ''ضائع‘‘ ہوتے تھے ‘ وہ بچ جائیں گے۔ یعنی جنوبی پنجاب میں دولہا ‘دلہن‘ بچے اور ڈھور ڈنگرپانی میں ڈوب کر مرتے رہیں ‘ وہاں نہ حفاظتی بند پکے کئے جائیں‘ نہ ریزروائر بنیں‘ نہ فلڈ وارننگ سسٹم بنے نہ ڈیم بنے لیکن لاہور کو پیرس بنانا زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس میں کمیشن ملتا ہے ۔ بچ جانے والی دلہن سوچتی ہو گی کاش وہ بھی اپنے خاوند کے ساتھ ہی مر جاتی‘ کیونکہ ممکن ہے وہ اس بار تو بچ گئی لیکن اگلے سیلاب میں مر جائے !
فیصل آباد میں نون لیگ کے رکن اسمبلی کے تین بیٹوں نے ایک بچی کے ساتھ گینگ ریپ کیا تو ایف آئی آر میں تینوں کے نام فلاں فاروق ‘ فلاں فاروق‘ فلاں فاروق ولد نا معلوم لکھا گیا۔ یعنی بیٹوں کو سزا سے بچانے کیلئے اس حد تک جانا پڑا کہ ولدیت ہی مشکوک بنانا پڑی۔ یہ ہے وہ اخلاقیات‘ قانون کی علمبرداری اور جمہوری روایات‘ جس کا ڈھنڈورا روزانہ خواجہ سعد رفیق‘ حنیف عباسی اور زعیم قادری پیٹتے ہیں۔ کہاں ہیں وہ جنہیں عمران خان کے جلسے میں ناچ گانا تو نظر آ جاتا ہے لیکن ایک معصوم بچی کی عزت نوچنے والے درندے نظر نہیں آتے؟ کیا ایک کروڑ کی رقم اتنی زیادہ ہوتی ہے جس کیلئے انسان دوسروں کی بیٹیوںکی عزت نیلام ہوتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لے؟
جب 2010ء کے فلڈ کمیشن نے کہا تھا کہ حکمران سیلابی علاقوں کے دورے نہ کیا کریں کیونکہ اس سے انتظامیہ ان کے پروٹوکول اور جعلی کیمپوں کی تشکیل میں مصروف ہو جاتی ہے جس سے امدادی کارروائیاں متاثر ہوتی ہیں تو پھر یہ کیوں باز نہیں آتے ؟ روزانہ ایک جعلی کیمپ بے نقاب ہوتا ہے۔ جعلی خاتون کو بیمار بنا کر لٹایا جاتا ہے‘ وزیراعلیٰ کے جاتے ہی وہ چھلانگ لگا کر بھاگ اٹھتی ہے‘ کرائے پر لا کر کوئلوں پر خالی دیگیں چڑھا دی جاتی ہیں‘ وزیراعلیٰ کے جاتے ہی دیگیں اٹھا لی جاتی ہیں ۔اُدھرمولانا حضرات ترغیب دینے میں لگے ہیں
کہ یہ سیلاب ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ میں کہتا ہوں اگر بارشیں نہ بھی ہوں اور بھارت اضافی پانی نہ بھی چھوڑے‘ اگر پھر بھی دریائوں کے بندوں میں دراڑیں پیدا ہو جائیں اور بند ٹوٹ جائیں تو پھر بھی کیا یہ سیلاب اللہ کا عذاب ہو گا؟ ہر بحران کو مذہبی رنگ دینے سے انہیں کیا ملتا ہے؟ جب گھر میں پانی کی ٹینک لیک کر رہی ہو تو آپ سیمنٹ اور ریت سے یہ سوراخ بند کریں گے یا پھر بیٹھ کر یہ سوچیں گے کہ یہ ٹینکی ہمارے گناہوں کی وجہ سے لیک کر گئی؟
2012ء میں لاہور کی ایک فیکٹری میں آتشزدگی سے سینکڑوں مزدور ہلاک ہو گئے تھے تو وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کہا تھا کہ ایسے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے جہاں مزدوروں کے حقوق نہ ہوں‘ جہاں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو؟ تو کیا ہوا؟ آج مزدور خوشحال ہو گیا؟ آپ کی پولیس تو بچوں کو دہشت گرد بنانے پر تلی ہے۔ جب آپ تیرہ چودہ سال کے بچوں کو گھروں سے اٹھائیں گے ‘ انہیں ہتھکڑیاں لگائیں گے‘ انہیں تھپڑ ماریں گے‘ ان کے باپ کو گندی گالیاں دیں گے تو کیا ان کی عزت نفس تباہ نہیں ہو گی۔ کیا آٹھویں جماعت کے بچے اڈیالہ جیل کی بھیانک راتیں بھلا پائیں گے؟یہ کیسا قانون ہے کہ جس کے تحت آپ نے اُلٹا ماڈل ٹائون کے چودہ مقتولوںکے لواحقین پر پرچے کاٹ دئیے ۔کیا انہوں نے پولیس کو درخواست دی تھی کہ آدھی رات کو آ کر ہماری مائوںاور ہمارے بچوں کو گولیوں سے اڑا دو؟
شرم کا مقام ہے جو اگلے سال کے سیلاب سے بچنے کا منصوبہ نہیں بنا سکتے وہ 2025ء کے منصوبے بنارہے ہیں۔ تو پھر قوم ان سقراطوں کے ہاتھوں کب تک لٹتی رہے جنہیں سوائے قیمتیں بڑھانے کے کچھ آتا ہی نہیں۔ اُدھر گوگل بغیر ڈرائیور کے گاڑی بنا چکا۔ جو سات لاکھ کلومیٹر ٹیسٹ کے طور پر چل بھی چکی۔ یہاں چنگ چی رکشوں سے آگے سوچ ہی نہیں نکلی۔ شاید برازیل اور امریکہ جتنا ہی گنا ہمارے ہاں کاشت ہوتا ہے لیکن ایتھا نول (گنے کے فیول) سے چالیس لاکھ گاڑیاں صرف برازیل میں چل رہی ہیں۔امریکہ اور یورپ میں تو بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بھی عام ہو چکیں۔ گیراج میں گاڑی کھڑی کریں۔ بجلی کا پلگ لگائیں اور آدھے گھنٹے میں گاڑی چارج اور یہاں نہ بجلی اور نہ ہی بجلی والی گاڑیاں۔ ہر طرف اچکزئیوں‘خورشید شاہوں کی بھرمار جو آئین ‘ قانون اور جمہوریت کے لفظ چبا چبا کر بجلی پیدا کرنے اور زرمبادلہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیا زبردست حکمرانی ہے! یعنی فوج باتیں سننے کیلئے اور ان کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریسکیو ادارے اور شاہی ٹولہ مال بنانے کے لئے۔ کیوں مقدمہ درج نہیں ہونا چاہیے ان لوگوں کے خلاف جو 2010ء اور 2012ء کے سیلاب کے وقت حکمران تھے‘ تب سے اب تک انہوں نے کیا کیا؟ یہ جتنے بھی لوگ ڈوب رہے‘ جتنے بھی مویشی ہلاک ہو رہے‘ جتنی بھی نجی اور سرکاری اراضی و املاک تباہ ہو رہی ‘ کیا یہ نقصان کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو وہاں ذمہ داروں کو پھانسی پر نہ لٹکا دیا جاتا؟ تو یہاں کیوں نہیں؟ یہ کس منہ سے عمران خان کو کہتے ہیں وہ سیلاب متاثرین کی مدد کو آئے؟ کیا 2010ء میں عمران خان پنجاب کا وزیراعلیٰ تھا؟ کیا ڈاکٹر قادری اس وقت ملک کے صدر تھے؟
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یا ہم پاگل ہیں یا پھر یہ بہت بڑے ارسطو ہیں جو ہمیں ان کی سمجھ ہی نہیں آتی کہ فلڈ کمیشن کی طرف سے پچھلے سیلاب سے تباہی کے ذمہ دار رب نواز کو انہوں نے سیکرٹری انرجی بنا کر یہ پیغام دے دیا کہ جو سب سے بڑا کرپٹ ‘ جو سب سے بڑا بدمعاش‘ اس کیلئے سب سے بڑا عہدہ‘ جائو جو کرنا ہے کر لو!
پس تحریر: پی ٹی وی کی اینکر عظمیٰ چودھری کا فون آیا۔ فرماتی ہیں آپ نے یہ کیوں لکھا کہ جس وقت پی ٹی وی پر حملہ ہوا میں وہاں نہ تھی۔ کہتی ہیں یہ آپ نے درست لکھا کہ میری ڈیوٹی ٹائمنگ بارہ سے آٹھ ہے لیکن میں دو گھنٹے پہلے ہی آفس پہنچ جاتی ہوں۔ اس روز میرے ساتھ صبح دس بجے دھرنے والوں نے میریٹ ہوٹل کے قریب بدتمیزی کی ۔ میں نے جواب میں پوچھا تو آپ نے یہ کیسے یقین کر لیا کہ واقعی یہ دھرنے کے مظاہرین تھے؟ ہو سکتا ہے یہ سرکاری گلو بٹ ہوں‘ ہو سکتا ہے یہ سازش ہو۔ جواب ملا‘ میں آپ کو جواب کیلئے ابھی فون کرتی ہوں۔ یہ فون آج تک نہیں آیا۔ البتہ انہوں نے جو وضاحت کی‘ وہ میں نے کر دی ہے۔