ایک طرف فرانس ہے جہاں 2010ء کے سیلاب سے 29افراد ہلاک ہو جاتے ہیں تو وہاں کے میئر کو غفلت برتنے پر سزاسنا دی جاتی ہے‘ دوسری طرف پاکستان ہے جہاں 2010ء کے سیلاب میں 2ہزار افراد مارے جاتے ہیں لیکن یہاں سزا تو دور کی بات‘ ملزموںکو اعلیٰ عہدے نواز دئیے جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ جمہوریت اور گڈ گورننس‘ ایوان میں جس کے قصیدے بیان کر کر کے حکمرانوں نے قوم کے کان چبا لئے ہیں۔
ذرا پیچھے چلتے ہیں۔28فروری2010ء کی صبح چار بجے کا وقت تھا۔ لوگ گرم بستروں پر محو استراحت تھے کہ فرانس کے مغربی ساحل پر ہوا کی رفتار خوفناک طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ لہریں بے قابو ہو کر ساحل کے قریبی گھروں میں سوئے ہوئے 29افراد کو ہڑپ کر جاتی ہیں۔ دن چڑھتا ہے تو فرانس کے وزیراعظم کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہیں۔ ان کا پہلا جملہ یہ ہوتا ہے '' 21ویں صدی میں فرانس میں ایسا واقعہ پیش کس طرح آ گیا کہ لوگ اپنے گھروں میں سوئے ہوں اور گھروں سمیت پانی میں ڈوب جائیں‘‘ ۔ حکم دیا گیا‘ پتہ لگایا جائے لوگوں کو فلڈوارننگ کیوں جاری نہیں ہوئی؟ سمندر کے قریب انہیں گھر بنانے کی اجازت کس نے دی؟ سمندر کنارے حفاظتی دیواریں اونچی اورمزید مضبوط کیوں نہیں کی گئیں؟ ان خطوط پر چار برس تفتیش ہوتی رہی ‘ بالآخر ثابت ہوا کہ 29جانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار مقامی میئر ہے جو آج سے تین روز قبل عدالت کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ آپ چاہتے ہیں کہ ایسا کبھی پاکستان میں بھی ہو؟
کبھی کبھی تو مجھے عمران خان پر بھی حیرانی ہوتی ہے۔ وہ اس سیاسی
جماعت کے وزیراعظم سے اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ لینے کی امید لگائے بیٹھے ہیں جس کے بیشتر وزرا اور سیاستدانوں پر کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیںاور یہ ان سے توقعات قائم کر رہے ہیں جو خود یہ کہہ کر مکر جاتے ہیں کہ اگر جسٹس باقر نجفی کمیشن نے انہیں ذمہ دار ٹھہرایا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے ۔ اگر عمران خان اتنا زور کسی دیوار پر لگاتے تو شاید وہ دیوار اپنی جگہ سے سرک جاتی لیکن یہاں ؟ یہاں کون سی اخلاقیات‘ کیسی جمہوریت اور کہاں کے وعدے؟ میں آپ کو دنیا کے پانچ ممالک کے بارے میں بتا سکتا ہوں جہاں کے حکمرانوں نے حال ہی میں کسی قومی سانحے پر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے دیا حالانکہ ان کا براہ راست قصور بھی نہیں تھا لیکن حضور! یہ پاکستان ہے جہاں حکمرانوں کی عین ناک کے نیچے چودہ لاشیں گرا دی جاتی ہیں اور وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔کسی نے سچ کہا تھا اس ملک میں حکمرانی کرنے کیلئے صرف ظالم اور ڈھیٹ ہونا کافی ہے۔ تو کیا ایسے نظام کو تبدیل نہیں ہونا چاہیے؟ سوشل میڈیا پر ایک تصویر آئی ہے جس میں ایک بھارتی خاتون کی کتے سے شادی کی تصویر چھپی تھی۔ ہمارے ملک میں بچیوں کی قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے۔ ونی اور وٹہ سٹہ میں بچیوں کو کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے تو کیا یہ سب ایسے ہی چلنا چاہیے؟ یہاں عوام نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے کہ ان کے مقدر میں شاہی خاندانوں کی غلامی لکھ دی گئی ہے؟
میں نے لاہور جیل روڈ پر ایکسپریس وے کے منصوبے کے بار ے میں لکھا تو لوگوں نے کہا ‘اس پر مزید لکھیں۔ میں نے کہا‘ کیا لکھوں ‘کب تک لکھوں۔ یہاں حکمران ہیں نہ ادارے۔ صرف پتھر کی عمارتیں اور کاغذ کے ڈھیر ہیں۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ عمران خان اور ڈاکٹر قادری نے تو اب دھرنا دیا ہے۔ آپ دیہات میں جا کر دیکھیں۔ جب بھی کسی غریب کی عزت لٹتی ہے ‘ کسی کی زمین پر قبضہ ہوتا ہے اور تھانیدار چودھری کے خلاف پرچہ نہیں کاٹتا اور الٹا مدعی کو تھانے میں لٹکا کر اس کی چمڑی ادھیڑدیتا ہے تو گائوں کے لوگ جب تک جی ٹی روڈ پر دھرنا دے کر ٹریفک بلاک نہیں کردیتے اور جب تک اس کی خبر ٹی وی پر نہیں چلتی‘ کوئی نوٹس نہیں لیتااور نوٹس لے بھی لے تو کیا ہوتا ہے۔ پرچہ کٹ بھی جائے تو غریب‘ عدالت میں کیس نہیں بھگت سکتا۔ مخالفین اسے بھری عدالت کے احاطے میں اینٹیں مار کر قتل کر دیتے ہیں اور پولیس اور قانون منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ حکمران خود بتائیں کیا انہوں نے اس ملک میں دھرنوں کے علاوہ غریب کے پاس کوئی راستہ چھوڑا ہے؟ کیا عدلیہ کو اس بات کا نوٹس نہیں لینا چاہیے کہ ہزاروں لوگ سیلاب میں ڈوب رہے ہیں اور پنجاب کے حکمران تیس ارب روپے اشرافیہ کیلئے ایکسپریس وے پر لٹانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کیا سکول‘ کالج‘ ہسپتال اور دیگر مسائل حل ہو گئے ہیں جو ایکسپریس وے بنانے کی نوبت آ گئی۔ کیا اس عیاشی کے منصوبے کو رکوانے کے لئے عمران خان کو لاہور کی جیل روڈ پر بھی دھرنا دینا پڑے گا اور اگر اس نے دھرنا دیا تو کروڑوں روپے حلال کرنے والے کہیں گے کہ دیکھو لڑکیاں نچانے کیلئے آ گیا۔ یہ نہیں دیکھیں گے کہ اصل مقصد کیا ہے۔
میں گزشتہ آٹھ برس سے مسلسل کالم لکھ رہا ہوں۔ ان آٹھ برسوں میں میرا زیادہ تر فوکس نوجوان تھے۔ نوجوانوں کو امیددلانا‘ مایوسی سے نکالنا اور دنیا بھر سے کامیاب لوگوں کی مثالیں سامنے لانا مجھے اچھا لگتا تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ آٹھ برس جھک ہی ماری ہے۔ میرے کالموں پر چیف جسٹس افتخار چودھری تک نوٹس لیتے رہے ہیں لیکن اس طرح تو چند ایک خوش نصیبوں کے مسائل ہی حل ہوتے ہیں ‘اکثریت کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جو کام جناب شہباز شریف انگلی ہلا کر کر تے ہیں‘ وہی کام ہم لکھاری قلم چلا کر‘ کر رہے ہیں۔ نہ ان کی انگلی ہلانے سے اکثریت کو فائدہ نہ ہمارے قلم چلانے سے۔ آپ لاکھ لوگوں کو امید دلاتے رہیں‘ کامیابیوں کی سچی داستانیں بیان کرتے رہیں‘ جب تک ملک کا بوسیدہ اور آئوٹ ڈیٹڈ نظام تبدیل نہ ہو‘ ملک کی اکثریت کامیاب ہو سکتی ہے‘ نہ اسے امید کی ان کرنوں کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ جس ملک میں ہر ادارے اور ہر اہلکار میں کرپشن کا مقابلہ ہو اور جہاں کے حکمران تو حکمران‘ کلرک تک بادشاہ بنے
ہوں‘ وہاں پر یہ امیدیں‘ کامیابی کی یہ داستانیں چند ایک لوگوں کی زندگی میں عارضی تبدیلی تو لا سکتی ہیں لیکن نظام نہیں بدل سکتیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید میری مت ماری گئی ہے لیکن آپ خود بتائیں کہ کل کراچی میں جس طرح یونیورسٹی کے ڈین پروفیسر شکیل اوج کو قتل کیا گیا‘ جس طرح دو برس قبل لاہور میں شاندار ڈاکٹر علی حیدر کو ان کے سات سالہ بچے سمیت مارا گیا‘ جس طرح پشاور میں وائس چانسلر اجمل خان کو پانچ سال تک اغوا رکھا گیا اور جس طرح یہاں ڈاکٹروں‘ انجینئروںاور بزنس مینوں کے پیچھے قتل ‘ بھتہ خوری اور خراب معاشی حالات کے سانپ چھوڑے جا رہے ہیں ‘ ایسے میں کون ترقی اور کامیابی حاصل کر کے موت کے گھاٹ اترنا پسند کرے گا‘ کون بے وقوف اپنے بچوں کو ہارٹ سپیشلسٹ‘ ڈاکٹر یا عالم بناکر چاہے گا کہ بڑے ہو کر اس کے بچے کو ٹارگٹ کلنگ ‘ دہشت گردی یا پھر پولیس گردی میں ہلاک کر دیا جائے اور اس کامقدمہ پولیس درج کرے‘ نہ عدالت اسے انصاف دے اور پھر بھی اس نے دھرنے دے کر ہی ایف آئی آر درج کروانی ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ ابھی سے ایسے دھرنوں میں پہنچ جائے جہاں اس متروک نظام کی تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے‘ جہاں بادشاہت کی بجائے جمہوریت کا سبق پڑھایا جا رہا ہے ‘جہاں لوگوں کو ان کے حقوق بتائے جا رہے ہیں اور جہاں لوگوں کی سوچ‘ فکر اور شعور میں تبدیلی کی کوشش کی جارہی ہے اور اگر یہ قوم اب بھی نہیں جاگ پاتی‘ اب بھی یہ سیاسی ‘ مذہبی اور صحافتی شعبدہ بازوں کے پیچھے لگتی ہے‘ یہ دھرنے والوں کی باتیں سننے کی بجائے اُن کے سر گننے لگ جاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو رانا ثنا اللہ مبارک۔