وزیراعظم نواز شریف جو بھارتی جارحیت پر توکھُل کر نہیں بولے‘ ملتان سانحہ پر فرماتے ہیں:سانحہ قاسم باغ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ رانا ثنا اللہ تو تحریک انصاف کیخلاف پرچے کٹوانے کو بھی تیار ہو چکے۔ گستاخی معاف ‘کیا میں پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں اگر تحریک انصاف سانحے کی ذمہ دار تھی تو پھر 2009ء میں اس وقت کون ذمہ دار تھا جب پنجاب میں آٹے اور چینی کی قطاروں میں عوام دھکم پیل اور بدنظمی کی وجہ سے مر رہے تھے۔ اگر ملتان میں دم گھٹنے اور ہارٹ اٹیک سے مرنے والے افراد کی ذمہ دار تحریک انصاف کی انتظامیہ ہے تو پھریہ بھی بتا دیں کہ پھر سستے بازاروں کی قطاروں میں دم گھٹنے اور ہارٹ اٹیک سے مرنے والے ان افراد کا پرچہ کس کے خلاف کٹے گا ؟ یاددہانی کیلئے بتا دوں کہ سستے بازاروں کے خالق وزیراعلیٰ شہباز شریف ہیں اور اس وقت بھی وزیراعلیٰ تھے جب 13ستمبر2009ء کوگوجر خان میں سستے آٹے کے حصول کیلئے70 سالہ فلک شیرچارگھنٹے سے لمبی قطار میں کھڑا چل بسا تھا‘اس وقت بھی جب قصور میں سستا بازار میں آٹے کیلئے لائن میں کھڑے معمر شخص کو ایک سرکاری محکمہ کے اہلکاروں نے ڈنڈے مار کرہلاک کر دیا تھا اور اس وقت بھی حکمران تھے جب گوجر خان کا رہائشی 50سالہ بشارت حسین صبح سویرے اپنی بیوی کے ہمراہ سستا آٹا لینے کیلئے قطار میں جاکھڑا ہوا‘ مگر چھ گھنٹے تک باری نہ آئی اور قطار میں کھڑا گر پڑا‘ لوگوں نے اسے ہسپتال پہنچایا لیکن وہ راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار گیا تو کیا ان سب کی ہلاکت کی ذمہ دار بھی تحریک انصاف ہے؟بڑے پیمانے کے انتظامات تو ضلعی حکومت کا کام تھا۔ ذرا بلاول بھٹو کے 18اکتوبر کے جلسے کو بھی دیکھ لیں۔ابھی سے پلان بن چکا کہ شارع فیصل کی ایک سائیڈ پانچ روز پہلے بند کر دی جائے گی۔ دو درجن واک تھرو گیٹ لگائے جائیں گے۔ اڑھائی سو کنٹینروں کی دیوار بنانے کا کام ابھی سے شروع ہو چکا اور ہزاروں پولیس اہلکار بھی تعینات ہو چکے ۔ یہ ہوتی ہے سکیورٹی اور یہ ہوتا ہے حکومتوں کا تعاون۔ اس کے مقابلے میں ملتان کی ضلعی انتظامیہ نے کیا دیا؟ دو کھٹارا ایمبولنسیں‘ ایک فائر بریگیڈ جس نے الٹا ہلاکتوں میں اضافہ کیا اور چند گلو بٹ؟ جنہوں نے جلسے میں بھگدڑ مچائی اور گیٹ بند کر دئیے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ دھوبی گھاٹ میں عوامی تحریک کا جلسہ بھی شاندار تھا اور ڈاکٹر طاہر القادری کا خطاب بھی ایک یادگار خطاب۔ حکومت کے تنخواہ داروں کے پاس ان کے اٹھائے سوالات اور نکات کا ایک بھی جواب موجود نہیں ۔ جن افراد کی تنخواہ پانچ سے بارہ ہزار روپے ہے‘ وہ دو چار سو نہیں بلکہ کئی کروڑ ہیں۔ فیصل آباد میں بھی لاکھوں ہیں۔ یوں ڈاکٹر صاحب نے ان کی نبض پہ ہاتھ رکھا۔ اگر ڈاکٹر صاحب فیصل آباد کی پولیس کے مظالم کا بھی ذکر کر دیتے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا۔ وہاں بھی پولیس جس طرح رانا ثنا اللہ اور عابد شیر علی کی غلام بنی ہوئی ہے اس کی ایک مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور اس کی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ فیصل آباد میں لوڈ شیڈنگ کے ستائے عوام نے جی ٹی روڈ پر جلوس نکالا تھا جس پر پولیس اہلکار مظاہرین کے گھروں پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے غزہ میں اسرائیلی فوج حملہ آور ہوتی ہے۔ یہ اہلکار ایک گھر کی دیواریں پھلانگتے ہیں۔ صحن میں موجود خاتون اور اس کی بیٹی کے ساتھ بدتمیزی کرتے
ہیں ‘ گالیاں دیتے ہیں۔ایک پندرہ سالہ لڑکا ڈر کر کمرے کا دروازہ بند کر لیتا ہے۔ پولیس کے شیر جوان کلہاڑی سے دروازہ پھاڑتے ہیں۔نوعمر لڑکے کو تھپڑ اور ٹھڈے مارتے ہوئے لے جاتے ہیں‘ باپ روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھی گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے جاتے ہیں۔ گلی میں ایک انتہائی نحیف بزرگ اور اس کا بیٹا کھڑے ہوتے ہیں‘ پولیس والے ان کے سروں پر ڈنڈے برساتے ہیں اور گالیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں سب لوگ اندر دفع ہو جائو۔ان میں سبھی اہلکار وردی میں ہیں‘ جبکہ دو تین کے چہروں پر نقاب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں حکمرانوں اور ان کی پولیس کو نقاب کی اتنی ضرورت کیوں پڑ گئی ؟ پولیس کو جو لوگ عوام کے قتل عام کیلئے بھیجتے ہیں‘ ان کے چہرے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری بے نقاب کر چکے ۔ اب ان کیلئے کوئی جائے فرار نہیں۔
عابد شیر علی کہتے ہیں عدم ادائیگی پر عمران خان کے گھر کا میٹر کاٹ دیا ۔اچھا کیا۔ اب شیر صاحب ذرا سیالکوٹ بھی جائیں جہاں نون لیگ کی ایک اہم شخصیت کے گھر میں دو ہفتے قبل تک براہ راست کھمبے سے بجلی چوری کی جا رہی تھی اور جیسے ہی یہ پول کھلا‘ فوراً ان کا میٹر لگ گیااور جعلی بل بھی جاری کر دیا گیا۔ تاہم چور کی داڑھی میں تنکا باقی رہ گیا کیونکہ بل پر کنکشن کی تاریخ کا خانہ ابھی تک خالی ہے۔ مجھے کوئی بل دکھا دیں جس میں کنکشن کی تاریخ نہ ہو۔ اب اگر یہ کوئی فرضی تاریخ ڈالتے ہیں تو پھنستے ہیں کیونکہ اس طرح سابقہ بلوں کا ریکارڈ بھی چیک کیا جائے گا جو ظاہر ہے کسی بینک میں جمع ہی نہیں ہوئے تو ریکارڈکیسے ملے گا؟یہ خبر ایک نجی ٹی وی نے بریک کی تھی اور تمام ثبوت بھی دکھائے تھے ۔ دوسروں کو بھاشن دینے سے پہلے یہ شاہی وزیر اپنے گریبانوں میں کیوں نہیں جھانک لیتے؟
کیا عوام اندھے ہیں جو حکومتی بدحواسیاں انہیں دکھائی نہ دیں۔ ملتان میں ضمنی الیکشن ملتوی کرنے کی حکومتی درخواست بزدلی اور حماقت کا بہترین امتزاج تھی۔ بندہ ان سے پوچھے‘ حکومت تمہاری‘ انتظامیہ تمہاری‘ سب کچھ تمہارا اور خوفزدہ بھی تم۔کیوں؟ میں بتاتا ہوں۔ ذرا غور کریں کہ ضمنی انتخاب ملتوی کرانے کے مقدمہ کی بنیاد سانحہ قاسم باغ کو بنایا گیا۔ اس سے یہ خدشات سچ ثابت ہوگئے کہ یہ سانحہ گوجرانوالہ اور ملتان کے گلوبٹوں کے ذریعے کرایا گیا تاکہ پی ٹی آئی کو بدنام کیا جائے ‘ان کے جلسوں پر پابندی لگانے اور بالآخر ضمنی الیکشن ملتوی کرانے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔سوال یہ ہے کیا ملتان میں حالات گیارہ مئی کے الیکشن سے بھی زیادہ خراب ہیں جب طالبان کھلی دھمکیاں دے رہے تھے؟تب تو نون لیگ نے درخواست نہیں دی۔ ایک بات بہر حال ماننا پڑے گی کہ ملتان میں بینروں پر عابد شیر علی اور جاوید ہاشمی کی تصویریں ایک ساتھ بہت خوبصورت لگ رہی تھیں کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
تیس برس سے باریاں لینے والے اب قصہ ماضی بن چکے۔ جتنے مرضی جلسے کر لیں‘ جتنا مرضی تحریک انصاف کی نقل کر لیں‘ اپنے جلسوں میں جتنے مرضی ڈی جے لے آئیں‘ جتنے مرضی ترانے بجا لیں ‘ لوگ ان سے بیزار ہو چکے۔یہ جتنے زیادہ الزامات عمران خان اور ڈاکٹر قادری کی شخصیت پر لگائیں گے‘ اتنا زیادہ لوگ ان سے نفرت کریں گے۔ کیونکہ یہ دونوں شخصیات غلطیاں تو کر سکتی ہیں لیکن ان کی باتیں غلط نہیں ہیں‘ یہ ٹیکس چور نہیں ہیں‘ ان کا پیسہ ملک سے باہر نہیں ہے‘ یہ منافقت کی سیاست نہیں کرتے۔عالمی اور ملکی حلقے اب سنجیدگی سے یہ دیکھنے لگے ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کے جلسوں میں اتنے زیادہ عوام کیوں نکل رہے ہیں۔
کون سمجھائے کہ پشاور میں بلاول ہائو س بنانے سے پیپلزپارٹی بچ سکتی ہے نہ شریف برادران کے نمائشی سیلابی دوروں سے نون لیگ دوبارہ زندہ ہو گی۔ دونوں کی کہانی ختم۔ بلاول صاحب اٹھارہ اکتوبر کو جتنا مرضی بڑا جلسہ کر لیں‘ وہ لوگوں کی آنکھوں میں وہ جذبہ‘ وہ چمک کہاں سے لائیں گے جو تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے شرکاء کا خاصا ہے۔ مریم نواز شریف جتنے مرضی ٹویٹس کر لیں‘ شاہی خاندان کے اُن کرتوتوں‘ان سانحوں کو کیسے چھپائیں گی جنہوںنے نون لیگ کے چہرے پہ کالک مل دی؟ حقیقت یہی ہے‘ پیپلزپارٹی اور نون لیگ اب تیسرے اور چوتھے نمبر کی جماعت بن چکیں۔ آئندہ الیکشن میں قوم تحریک انصاف کو پہلے اور پاکستان عوامی تحریک کو دوسرے نمبر پر دیکھے گی۔ لاہور‘ ملتان اور فیصل آباد کے لاکھوں کے جلسے اور چارجڈ کرائوڈ جسے نظر نہیں آتے‘ وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اپنے دماغ کا بھی علاج کرا لے۔ لوگ اب ان دونوں کو سپورٹ‘ نوٹ اور ووٹ دینے کا فیصلہ کر چکے!