دھرنوں نے حکمران جماعت کو اتنا زیادہ ایکسپوز کر دیا ہے کہ حکمران اب کوئی اچھا کام بھی کریں تو وہ بھی مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ آپ چین کا دورہ ہی دیکھ لیں۔ چین کے ساتھ کل 45ارب ڈالر کے انیس معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان میں سے 34ارب ڈالر توانائی جبکہ 11ارب ڈالر ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ہیں۔ توانائی کے معاہدوں میں کوئلے ‘ ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ معاہدوں کے بعد وزیراعظم کاکہنا تھا کہ بجلی آ گئی تو سمجھو سب کچھ آ گیا‘ دھرنوں سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ان معاہدوں سے ہو گا۔ وزیراعظم کا یہ بیان جس کسی نے سنا‘ وہ منہ میں انگلیاں دبائے رہ گیا کیونکہ حکومت کے طرفدار بھی آج یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ اگر دھرنے نہ ہوتے تو یہ جو حکومت تھوڑی بہت حرکت میں آئی ہے‘ یہ جو وزیراعظم چودہ مہینے بعد یکے بعد دیگرے پارلیمنٹ میں نظر آئے اور یہ جو حکمران جماعت اپنی کارکردگی کے حوالے سے فکرمند ہو گئی ہے‘ یہ سب کچھ کیسے ہوتا؟حکمران دھرنے پر لاکھ تنقید کریں لیکن یہ تو مانیں کہ دھرنے نے انہیں کام پر لگا دیا‘ انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آئندہ الیکشن کارکردگی کی بنیاد پر ہو گااور اگر تحریک انصاف کی انتخابی اصلاحات کی ڈیمانڈ بھی پوری ہو گئی تو آئندہ الیکشن میں دھاندلی کے راستے بھی بند ہو جائیں گے۔ پھر ساری کی ساری طاقت واقعی عوام کے ہاتھ میں آ جائے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاہدے تو ہو گئے‘ لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ فرض کریں ان معاہدوں پر من و عن عمل بھی ہو جاتا ہے‘ مظفر گڑھ میں 660میگا واٹ کا پلانٹ لگ اور چل جاتا ہے‘
قائداعظم سولر پارک 900میگا واٹ بجلی دینا شروع کر دیتا ہے ‘ اسی طرح تھر کول فیلڈ میں 330میگا واٹ بجلی کا پلانٹ اپنے وقت پر پیداوار شروع کر دیتا ہے تب کیا ہو گا؟ کیا وزیراعظم کے تمام دعوے پورے ہو جائیں گے؟ اگر آپ اس کا جواب جاننا چاہتے ہیں تو آپ بجلی کی موجودہ پیداوار ‘ اسے چلانے والے سسٹم اور افسران کا جائزہ لے لیجئے‘ حقیقت واضح ہو جائے گی۔ آج چین کے ساتھ جو معاہدے ہوئے‘ یہ کوئی نئے معاہدے نہ تھے‘ ایسے ہی درجنوں معاہدے گزشتہ ادوار حکومت میں بھی ہوتے رہے لیکن ہوا کیا؟ جتنی بجلی سسٹم میں آئی ‘ اس وقت تک اتنی ہی ڈیمانڈ بڑھ گئی اور اس سے بھی زیادہ بجلی چوری‘ لائن لاسز اور کرپشن بڑھ گئی۔ گھروں میں بجلی کے میٹر لگانے سے لے کر رینٹل پاور منصوبوں تک میں کرپشن ہونے لگی۔ واپڈا‘ این ٹی ڈی سی اور بجلی کی ضلعی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں نیچے سے اوپر تک ہر کوئی اپنے ہی اداروں کو نوچنے میں لگ گیا۔ نیلم جہلم پراجیکٹ جو 130ارب میں مکمل کیا جانا تھا‘ اس کی لاگت 276ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اسی طرح نندی پور پراجیکٹ کی لاگت 27ارب سے بڑھ کر 84ارب تک جا پہنچی۔ وزیراعظم نے اس بارے میں تحقیقات کا حکم بھی دیا‘ لیکن ہوا کیا؟ جس معاملے میں بھی ہاتھ ڈالا گیا‘ سامنے سے پیپلزپارٹی نکل آئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ معاملے کو کسی پار لگایا جاتا تو پیپلزپارٹی نون لیگ کے
خلاف کرپشن کی فائلیں کھول دیتی‘ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی ''کانی‘‘ تھیں‘ چنانچہ کسی بھی مسئلے میں کوئی بھی ایکشن نہ لیا گیا۔ نتیجہ ملک اور اس کے عوام کو بھگتنا پڑا۔ کبھی اووربلنگ کے 70ارب کے ڈاکے کی صورت میں تو کبھی آئے دن بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں ۔آپ چین کے ساتھ پاکستان کے حالیہ معاہدے کو یہ ساری صورتحال سامنے رکھ کر دیکھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جو لوگ سسٹم میں موجود بجلی کو نہیں سنبھال پا رہے‘ جو لائن لاسز اور بجلی چوری کو اس وقت کنٹرول نہیں کر رہے اور جو بجلی کے محکمے چلانے والے ہزاروں افسران اور اہلکاروں کا قبلہ درست نہیں کر سکے‘ وہ چین کے ساتھ حالیہ معاہدوں سے کیا تیر مار لیں گے؟ مزید بجلی سسٹم میں لے بھی آئے تو کیا بجلی کے ان محکموں کو بھی چینی آ کر کنٹرول کریں گے؟ بجلی چوری کے چھاپے چینی وزیر اعظم ماریں گے؟ ہمارے وزیراعظم ہائوس سے لے کر پوش مارکیٹوں میں بجلی کی بچت چینی حکومت آ کر کروائے گی؟ یہ جو بجلی کے میٹر پینتیس فیصد تیز چل رہے ہیں ‘ انہیں چینی وزرا آ کر ٹھیک کریں گے؟ اووربلنگ کے ڈاکوں کی تحقیقات چین کرے گا؟ جب یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا تو پھر آپ چین کے ساتھ 19چھوڑ کے 19ہزار معاہدے بھی کر لیں‘ یہاں بجلی نہیں آئے گی‘ اور بجلی نہ آئی اور وہ بھی سستی بجلی‘ تو پھر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔خالی ڈھکوسلوںسے کام نہیں چلنے والا‘ کاش حکمرانوں کو سمجھ آ سکتا!
دوسری جانب عمران خان نے وزیراعظم کے استعفیٰ کو عدالتی کمیشن کے نتائج سے مشروط کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک میچور سیاستدان بنتے جا رہے ہیں جو ظاہر ہے حکمرانوں کے لئے خطرے کی بات ہے۔ یہی لوگ جو کہتے تھے عمران خان کی وزیراعظم کے استعفے والی شرط مناسب نہیں‘ اب تنقید کر رہے ہیں کہ وہ پیچھے کیوں ہٹا؟ وہی آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے والا معاملہ۔ دوسرا عمران خان کی ایم آئی اور آئی ایس آئی کو کمیشن میں شامل کرنے کی تجویز نے حکومتی غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ اسحاق ڈار اس مطالبے کو مسترد کر رہے ہیں لیکن وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں جو جے آئی ٹی بنی اس میں ملٹری انٹیلی جنس ‘آئی ایس آئی کے کرنل اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران بھی موجود تھے۔ انہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ ٹیم میں شامل پولیس افسران کی جانب سے کلین چٹ دینے کے فیصلے سے ٹیم میںشامل حساس اداروں کے ممبران نے شدید اختلاف او ر اعتراض کیا تھا کہ وہ تحقیقات کی روشنی میں اہم حکومتی شخصیات واعلیٰ پولیس افسران کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔ انہی افسران نے اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ منہاج القرآن انتظامیہ کی نئی درخواست پرمقدمہ درج کر کے اس کی تفتیش کے لئے نئی جے آئی ٹی بنائی جائے ۔ لیکن صوبائی حکومت نے اس پر بھی کوئی ایکشن نہ لیا۔ نیت نہ تھی یا دال میں کالا‘ یہ تو حکمران بتا سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ قومی سانحہ تھا اور اگر حکومت خود ان اداروں کو اس میں شامل کر سکتی ہے تو پھر یہ بھی تو قومی معاملہ ہے‘ یہ ادارے بھی اسی ملک کے ادارے ہیں توپھر دھاندلی کی تحقیقات پر مبنی کمیشن میں ایجنسیوں کی شمولیت پر اعتراض کیوں؟ اگر دھاندلی نہیں کی تو پھر ڈر کیسا؟ کوئی تین ہفتے قبل جب پی ٹی آئی اور حکومتی ٹیم کے مابین کنونشن سنٹر میں مذاکرات کا آخری دور چلا تھا اس میں بھی حکومت کی طرف سے ایسے ہی کچھ افسران موجود تھے‘ لیکن پی ٹی آئی کے کسی نمائندے کو علم نہ تھا۔ اب اگر تحریک انصاف ایسی ہی ڈیمانڈ کر رہی ہے تو اس پر تنقید کیوں؟ جو کچھ حکومت کیلئے جائز ہوتا ہے اگر اس کا مطالبہ اپوزیشن کر دے تو وہ اپوزیشن کے لئے ناجائز کیسے ہو گیا؟ اگر عمران خان نے لچک دکھائی ہے تو حکومت بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرے۔ لیکن اگر وہ چاہتی ہے عمران خان دھرنا بھی ختم کر دیں‘ وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی واپس لے لیں اور دھاندلی کی تحقیقات بھی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ کر بنی گالہ جا کر سو جائیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ شیر ہرن کو بھی کھائے اور اس کا مقدمہ بھی خود لڑے‘ یہ کیسے ممکن ہے!