شرم آنی چاہیے اس ملک کی اشرافیہ کو‘ سرگودھا کے ہسپتال میں چار روز میں چودہ بچے صرف اس لئے موت کی آغوش میں چلے گئے کہ ہسپتال میں ڈیڑھ لاکھ مالیت کے اضافی انکوبیٹرز موجود نہیںتھے۔دوسری طرف حکومت ہے جس کی ساری توانائیاں سانحہ ماڈل ٹائون کو دبانے اور دھرنے کو کچلنے پر لگ رہی ہیں‘ جو بچ رہی ہیں وہ میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں پر نکل رہی ہیں۔ ایک ری فربشڈ انکوبیٹرپندرہ سو سے پچیس سو ڈالر کا آتا ہے۔ یہ ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ روپے بنتے ہیں۔ اس ملک میں سینکڑوں ہزاروں لوگ ایسے ہوں گے جو ایک ایک انکوبیٹر خرید کر ہسپتالوں کو دے سکتے ہیں لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ قبل از وقت ، بیماراور کم وزن پیدا ہونے والے بچوں کو انکوبیٹرز میں رکھا جاتا ہے۔ اس میں نومولود کو خصوصی توجہ ملتی ہے ‘مناسب درجہ حرارت‘خوراک‘ادویات اور ضروری آکسیجن خودکارانداز میں میسر آتی ہے۔ یوں جان کو لاحق خطرہ کم یا ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کیلئے اربوں روپوں سے ''سبز باغ‘‘ ڈیم بھی بن رہے ہیں‘ کتے خریدنے کیلئے سرکار کے پاس چوبیس چوبیس لاکھ بھی موجود ہیں‘ حکمرانوں کے غیرملکی دوروں میں مرسڈیزساتھ لے جانے کے اخراجات بھی موجود ہیں‘اگر نہیں ہیں تو بچوں کی جان بچانے کیلئے لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے نہیں ہیں۔ چلیں انہیں جانے دیں لیکن اوورسیز پاکستانی کیا کر رہے ہیں۔ یہ تو ہر مشکل گھڑی میں آگے آتے ہیں۔ باقی شہروں کو چھوڑیں ‘سرگودھا کے سینکڑوں ہزاروں پاکستانی بیرون ملک موجود ہیں‘ کیا چند سو لوگ اس مقصد کیلئے لاکھ ڈیڑھ لاکھ بھی ڈونیٹ نہیں کر سکتے؟ دو برس قبل کھٹمنڈو میں نومولود بچوں کی ایسی ہی ہلاکتیں ہوئیں تو امریکہ میں سٹینفرڈ یونیورسٹی کے
طالبعلموں نے ایک کام کیا۔ انہوں نے کم قیمت انکوبیٹرز کی تیاری پر ریسرچ کی اور تیس ڈالر میں ایک انکوبیٹر بنا دیا۔ اگرچہ یہ عام انکوبیٹر کی طرح تمام سہولیات نہیں رکھتا تھا ،پھر بھی ابتدائی طور پر بچوں کی جان بچا پاتا تھا۔ یہ بجلی کے بغیر بھی کام کر سکتا تھا۔ یہ خاص قسم کے میٹریل سے تیار کیا گیا ایک ایسا لحاف نما تکیہ تھا جس میں بچے کو لٹا دیا جاتا تھا۔ اس انکوبیٹر کو آدھا گھنٹہ نیم گرم پانی میں رکھنے سے بچے کو چار گھنٹے ضروری حرارت ملتی تھی اور جان کو لاحق خطرہ کم ہو جاتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکی طالبعلم تیسری دنیا کے بچوں کی جان بچانے کے لئے کاوش کر سکتے ہیں تو پاکستان کے لاکھوں مالدار پاکستانی پاکستان کے لیے کیوں نہیں؟بہاولنگر میں بھی آکسیجن سلنڈر کی کمی سے پچاس سے زائد بچے بن کھلے مرجھا چکے ہیں اور یہ حالات تقریباً پورے ملک کے ہسپتالوں کے ہیں۔ امریکہ میں ڈاکٹرز کی کئی ایسوسی ایشنیں ہیں۔اگر چند چیدہ ڈاکٹرز یہاں کا دورہ کریں‘ ہسپتالوں میں ضروری آلات کی کمی کا جائزہ لیں اور اس بارے میں امریکہ میں مہم چلائیں تو ننھے پھولوں کی دل کو تڑپاتی خبریں تو نہ سننے کو ملیں۔حکومت اگر یہ سب نہیں کرتی تو کیا ہم بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیں؟
ویسے بھی وفاقی اور پنجاب حکومت کرے تو کیا کرے کہ عمران خا ن نے اب پیپلزپارٹی کے گڑھ میں شاندار جلسہ کر کے سبھی کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ شرجیل میمن فرماتے ہیں کہ کارنر میٹنگ تھی۔ چلیں مان لیا لیکن یہ تو بتائیں کہ بلاول بھٹو والے جلسے میں تو ''اپنی مرضی سے آئے ہوئے ‘‘عوام کو بلاول بھٹو کا دیدار بھی نصیب نہ ہوا لیکن یہاں عمران خان بغیر حفاظتی دیوار کے حکمرانوں کو للکارتا رہااور لوگوں کوذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں کی یاد دلا دی۔ پہلے یہ کہتے تھے تحریک انصاف برگر کلاس پر مشتمل ہے۔ یہ ڈیفنس کے چند بگڑے رئیس زادے ہیں۔ پھر خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا تو یہ انگلیاں منہ میں دبا کر رہ گئے۔ جب یہ سونامی نکل کر اسلام آباد دھرنے میں پہنچا‘ اس نے عوام کو بیدار کر دیا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ مسلسل سو دن دھرنا چلتا رہا تو وزیراعظم جس ملک میںگئے‘ دھرنے کا ذکر کئے بغیر نہ رہ پائے اور جب لاڑکانہ میں جلسے کا اعلان کیا گیا تو سب نے عمران خان پر قہقہہ لگایا۔ آج انہی لوگوں کی بتیسیاں بند اور ہونٹ سل چکے ہیں۔ یہ سمجھتے تھے‘ یہ برگر کلاس کا طعنہ دے کر اس تحریک کو ڈیفنس کے پوش علاقے میں ہی دبا دیں گے اور سندھ سمیت پورے ملک میں عوام کو یونہی غلام بنا کر رکھیں گے اور عوام یہ ظلم ہنس کے سہتے رہیں گے۔ یہ بے خبر تھے کہ حق کی آواز کسی شہر‘ کسی صوبے اور کسی سرحد تک محدود نہیں رہتی۔ جو لوگ تیس تیس برس سے پیپلزپارٹی اور نون لیگ کو ووٹ دیتے آئے تھے‘ آج انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔ آج ان کے بچے جوان ہو رہے ہیں توانہیں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے بچوں کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں جتنے بھی نئے بچے پیدا ہو رہے ہیں‘ سب برگر بچے ہیں۔ تحریک انصاف سے حکمران جماعت اس لئے بھی خوفزدہ ہے کہ یہ برگر بچے بڑی تیزی سے تحریک انصاف کی طرف راغب ہو رہے ہیں، جبکہ حکمران لیگ کا سارا وزن کاروباری طبقے کے پلڑے میں ہے۔ مزدوری پیشہ اور چھوٹے تاجر ہمیشہ سے ان کا نشانہ رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں عمران خان کی پارٹی کون سے فرشتوں پر مشتمل ہے۔ اس میں بھی تو بیشتر وہی لوگ ہیں جو روایتی جماعتوں کا حصہ تھے۔ میں کہتا ہوں‘ آپ کچھ عرصہ اور دیکھ لیں‘ اگر عمران خان نے جماعت کو ایک سسٹم کے تحت بنا اور چلا لیا‘ تو ان سب کی چھانٹی ہو جائے گی یاسب سیدھے ہوجائیں گے۔ یہ میرٹ اور نیت کی چھاننی سے گزریں گے تو ایک شفاف جماعت کا چہرہ نکل آئے گا۔ فی الوقت عوام کے پاس یہی چوائس ہے کہ وہ موجود جماعتوں کا موازنہ کریں اور اپنا فیصلہ دیں۔ کسی بھی جماعت کی سمت لیڈر متعین کرتا ہے اور اس جماعت کا لیڈر کم از کم کرپشن سے تو پاک ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے نزدیک بھی اس کی کوئی حیثیت نہ ہوتی۔
سوال یہ ہے کہ تیس نومبر کو کیا ہو گا‘ کیا عمران خان ایک مرتبہ پھر تیس اگست کی تاریخ دہرانے جا رہے ہیں؟اس کا جواب تو تیس نومبر کو ہی ملے گا لیکن ذرا ایک بات توبتائیں۔ جب ایک آدمی قانون کا ہر دروازہ کھٹکھٹائے ،تب بھی اسے انصاف نہ ملے تو وہ کیا کرتا ہے ؟جن لوگوں کی زمینوں پر قبضے ہوتے ہیں‘ جن کی حق تلفی ہوتی ہے‘ جن کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں‘ یہ سب کیا کرتے ہیں؟ ان کے پاس دوراستے ہوتے ہیں‘ وہ صبر کر کے بیٹھ جائیں یا پھر باہر نکلیں،شور مچائیں اور احتجاج کے ذریعے انصاف حاصل کرلیں۔ خود کو آگ لگا لیں یا معاشرے سے انتقام لے لیں۔ بے حس ، ڈرپوک اور بے ضمیر بن جائیں یا حق کے لئے لڑتے ہوئے مارے جائیں۔ عمران خان ایک کھلاڑی آدمی ہے ،لہٰذا اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ وہ ظلم پر آنکھیں بند کرنے والا انسان ہے ،نہ ہی کوئی آج تک اس کی بولی لگا سکا ہے۔ دھرنوں کی چنگاری تحریک انصاف کے چار حلقوں کے مطالبے سے بھڑکی تھی۔ حکومت چاہتی تو شروع میں ہی اسے بجھا سکتی تھی۔چونکہ ان حلقوں میں سو فیصد دھاندلی نکل آنی تھی اس لئے حکومت نے سٹے آرڈر کے پیچھے پناہ لے لی۔ اب عمران خان کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔ وہ اسفند یار ولی یا مولانا فضل الرحمن بن جاتا‘ وہ آفتاب شیر پائو یا خورشید شاہ بن جاتا اور حکومت پر تھوڑا بہت دبائو ڈال کر مرضی کی وزارتیں لے لیتا ‘ وہ پرویز الٰہی کی طرح ڈپٹی پرائم منسٹر بن جاتا یا پھر اپنا حق لینے کے لئے سڑکوں پر آجاتا‘ اور لڑتا،یہاں تک کہ حکومت ہار مان جاتی۔ عمران نے وہی راستہ اختیارکیا جو اُسے سوٹ کرتا تھا۔ لوگ ابھی تک اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خاص طور پر سمندر پار پاکستانی‘ جن کی وہ واحد اُمید ہے۔وہ کرپٹ سسٹم اور کرپٹ سیاستدانوں سے نجات چاہتے ہیں‘ وطن واپس آنا اوراپنا سرمایہ ملک میں لگانا چاہتے ہیں۔ لوگوں کی اُمیدیں اور عمران خان کا امیج اس وقت بلندیوں کو چھو رہا ہے‘ چار مہینے قبل کے مقابلے میں آج کا عمران بہت زیادہ میچور اور سیاست کے دائو پیچ سیکھ چکا ہے اور سندھ کے بعد اگر بلوچستان میں بھی تحریک کو ایسی ہی پذیرائی ملی تو پھر وہ وقت دُور نہیں ،جب نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔