یعنی اووربلنگ کے 70ارب کے ڈاکے پر تو وزیراعظم نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا‘ کسی بڑے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا لیکن 48پیسے فی یونٹ بجلی کی قیمت کیا کم ہوئی‘ حکمرانوں نے قوم کو مبارک دے ڈالی۔ اتنی تو بجلی کی قیمت بڑھ بھی جائے تو عوام کو جھٹکا نہیں لگتا لیکن جولائی کے بلوں میں لوگوں کو اکٹھے بیس بیس ہزار روپے زیادہ ڈالے گئے‘اس پر کسی طرف سے ندامت کا کوئی اظہار نہ کیا گیا۔ کل ایک اور بندے کو اٹھارہ لاکھ روپے کا بل آ گیا۔ دو کمروں کے اس مکان کی پتہ نہیں قیمت بھی اٹھارہ لاکھ ہے یا نہیں لیکن یہ بل دیکھ کر مکان مالک کے چودہ اٹھارہ طبق ضرور روشن ہو گئے ہوں گے۔
کیا مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت تحریک انصاف کی شکایات دُور کرنے کا انتظام کرے‘ یہ اسلام آباد کے ہسپتالوں کو الرٹ کر رہی ہے‘ پولیس کی اضافی نفری تعینات کر رہی ہے اور گرفتاریوں اور کنٹینر ڈپلومیسی کی نئی منصوبہ بندی شروع کر رہی ہے۔ مان لیا‘ تحریک انصاف کا لہجہ خاصا سخت ہے لیکن کیا سیاسی جماعتیں ایسے ہی لہجے نہیں اپنایا کرتیں؟ ویسے بھی جب آپ کسی کو اس کا حق نہیں دیں گے تو کیا وہ آپ کو بدلے میں مٹھائی پیش کرے گا؟ کسی کو معلوم نہیں کہ آخری مرتبہ مذاکرات کہاں اور کس بات پر ختم ہوئے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ دونوں جماعتوں کے چیدہ قائدین ٹی وی پر آتے اور قوم کے سامنے مذاکرات ہوتے۔ ایک دن‘ دو دن ‘ جب تک اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھتا‘ مذاکرات کے سیشن چلتے رہتے۔ قوم بھی دیکھتی کہ کون پیچھے ہٹ رہا ہے اور کون ڈبل گیم کر رہا ہے۔ ایک
ایک کر کے پوائنٹ سامنے رکھے جاتے اور اس پر دونوں طرف کے قائدین اپنا موقف پیش کرتے۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ معلوم ہو جاتا کہ کس کی نیت میں کھوٹ ہے اور کون بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ فی الوقت حکومت جو کرنے جا رہی ہے‘ اس لئے بھی قابل فہم نہیں کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے‘ جنگجوئوں کا گروہ نہیں جو حکمران اس قدر گھبرا گئے ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے خصوصی فورس کے دستے تیار کرنے لگے ہیں۔ دال میں کالا اس لئے بھی نظر آتا ہے کہ اب جبکہ عمران خان وزیراعظم کے استعفیٰ سے بھی پیچھے ہٹ چکے ہیں‘ حکومت ایک قدم آگے کیوں نہیں بڑھ رہی۔ ایک موقع پر یہ کہا جا رہا تھا کہ حکومت نے تحریک کے چھ میں سے ساڑھے پانچ مطالبات مان لئے ہیں‘ تو پھر کیا ہوا؟ ان ساڑھے پانچ مطالبات پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ چار حلقوں میں گنتی ہی ہو جاتی‘ تب بھی بات آگے بڑھ سکتی تھی۔ فرض کریں اگر ان میں دھاندلی نکل بھی آتی تو کیا ہو جاتا‘ اس سے تحریک انصاف کو حکومت تو نہیں مل جانی تھی۔ البتہ ان کے دھاندلی کے الزام کو تقویت ضرور مل جاتی اور اسی سے حکمران جماعت خوفزدہ ہے۔ ایسا لگتا ہے حکومت چاہتی ہے تحریک انصاف کے احتجاج میں تشدد کا عنصر نمایاں ہو جائے تاکہ عوام کی نظر میں تحریک کا امیج گرایا جا سکے۔ حکمرانوں کو یہ مشورے جو بھی دے رہا ہے‘ اس مہربان کو معلوم نہیں کہ عوام کی
ہمدردیاں ہمیشہ اپوزیشن کے ساتھ رہی ہیں۔ عمران خان کا سحر ویسے بھی عوام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔اس کا ثبوت وہ جلسے ہیں جن میں عوام بالخصوص خواتین کی بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ نون لیگ ‘ پی پی پی یا ق لیگ کے جلسے دیکھ لیں‘ یہ سب تحریک انصاف کی نقل کرنے میں لگے ہیں‘ ویسے ہی چہروں پر پارٹی پرچموں کے نقش‘ گلے میں پارٹی کا پرچم‘ جلسے میں ڈی جے اور ترانوں کی یلغار۔ سوال یہ ہے کیا اس طرح کرنے سے یہ جماعتیں تحریک انصاف جیسی مقبولیت حاصل کر پائیں گی؟ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر حکمران جماعت سمیت دیگر جماعتیں جلسے جلوسوںکے حوالے سے اس کی نقل کر سکتی ہیں‘ اگر نون لیگ خیبر پختون خوا کے اقدامات پنجاب میں دہرانے کو تیار ہو چکی
ہے تو پھر عمران خان کے باقی مطالبات کیسے غلط ہو گئے؟ اگر اس جماعت کی باقی چیزیں قابل تقلید ہیں تو پھر ان کی جائز مانگوں پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ صرف اس لئے کہ اس طرح ان کا اقتدار جاتا ہے؟ کرسی جاتی ہے؟ سوال یہ ہے کیا یہ اقتدار اور یہ کرسی ابدی اور دائمی ہیں؟ لوگ کہتے ہیں عمران خان بھی تو اقتدار کے پیچھے لگا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسے لالچ ہو لیکن کس لئے؟ اپنے لئے؟ خود تو اس نے دنیا کی ہر نعمت دیکھ لی‘ اقتدار میں آ کر کون سی نئی چیز دیکھ لے گا۔ وزیراعظم ہائوس؟ ایوان صدر ؟ کیا وہ وزیراعظم اس لئے بننا چاہتا ہے کہ شیروانی سلوائے‘ کشکول پکڑے اور بھیک مانگنے امریکہ اور یورپ نکل جائے؟ کیا ایسا کرنے سے اس کی کوئی وقعت باقی رہے گی؟ دوسری بات یہ کہ اقتدار کے حصول کے لئے اس نے کبھی امریکہ اور دوسری طاقتوں کا سہارا تو نہیں لیا‘ وہ دوسروں کی طرح طاقتور اداروں کی نرسری میں تو نہیں پلا‘ کسی دوست ملک نے تو اسے بار بار مشکلات سے نہیں بچایا‘ اس نے حق اپنا مانگا ہے تو کون سا برا کیا ہے۔اگر آپ کے ساتھ کوئی زیادتی ہو‘ اگر آپ کے بیٹے نے محنت کی ہو اور آپ اس کے پیپر چیک کروانا چاہتے ہوں اور تعلیمی بورڈ ایسا کرنے سے انکار کر دے تو آپ کو دُکھ نہیں ہو گا؟ یہی تو عمران کر رہا ہے۔ وہ بھی تو ووٹوں کی چیکنگ کا مطالبہ ہی کر رہا ہے تو کونسا برا کر رہا ہے۔ کبھی کبھی تو دل کرتا ہے عمران خان کو مشورہ دیں کہ اس جھنجھٹ کو چھوڑ ے اور عیش و آرام کی زندگی بسر کرے۔کسی مقبول عام مشروب کے ایک اشتہار میں کام کرے اور سال بھر کھاتا رہے۔ تقریبات اٹینڈ کرے‘ مہمان خصوصی بنے‘ مشرف کی طرح بیرون ملک لیکچر دے اور کروڑوں روپے کمائے۔ جس ملک میں ہر دوسرا شخص ایسی ہی پرتعیش زندگی چاہتا ہو‘ وہاں عمران خان اپنی جان ایک ایسی قوم کے لئے کیوں کھپا رہا ہے‘ جو بریانی کی پلیٹ کے پیچھے اپنا ووٹ بیچ دیتی ہو۔ یہ قوم بھی عجیب ہے۔ نہ بجلی ہے‘ نہ صاف پانی ہے‘ نہ عام آدمی کے لئے انصاف ہے‘ نہ جان کا تحفظ‘ نہ ٹیکسوں کا پیسہ اسے سہولیات بن کر واپس ملتا ہے نہ اس کے بچے معیاری تعلیم حاصل کر پا رہے ہیں‘ نہ کسی کا تنخواہ میں گزارا ہو رہا ہے‘ نہ کسی کا کاروبار میں دل خوش ہے‘ نہ کسی کا نجی ہسپتال میں علاج ہو رہا ہے‘ نہ سرکاری ہسپتال میں کوئی سہولت میسر ہے‘ نہ رہنے کو کسی کے پاس گھر ہے‘ نہ کرایہ دینے کے پیسے‘ نہ کوئی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے قابل ہے‘ نہ بیٹوں کو روزگار دلاسکتا ہے‘ نہ کسی کو اس کی منزل کا پتہ ہے‘ نہ کوئی راستہ جاننا چاہتا ہے‘ بس لوگ خراماں خراماں چلے جا رہے ہیں۔کہاں؟ کسی کو معلوم نہیں۔ ایسے میں کوئی راستہ دکھانے والا‘ کوئی مسیحا‘ کوئی عمران خان ان کا ہاتھ پکڑتا ہے تو یہ ہاتھ جھٹک دیتے ہیں۔ یہ اس میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔ یہ کرپشن سے پاک ایک کامیاب کھلاڑی‘ ایک کامیاب ہسپتال اور شاندار یونیورسٹی کے معمار کو عام سیاستدانوں جیسا ہی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک صوبے کو نئی سمت دینے والے کپتان کا ساتھ دینے کو بھی تیار نہیں۔ دوسری طرف حکمران ہیں جو تیس نومبر کے خوف میں مبتلا ہیں لیکن جائز مطالبات پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ کیا حکومتیں ایسے چلائی جاتی ہیں؟