کل فیصل آباد میں ایک اور سانحہ ماڈل ٹائون دہرایا گیا۔ تحریک انصاف کو حکمران جماعت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے نون لیگ کے کارکنوں کو اس کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پی ٹی آئی تو صرف فیصل آباد بند کرانے چلی تھی تاہم حکومتی مشیروں نے عقلمندی سے کام لے کر ایک ہی دن سارا ملک بند کرا دیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید نے پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے جو جرائم گنوائے‘ ان میں زبردستی دکانیں بند کرانا‘ سڑکیں بلاک کرنا اور ٹائر جلانا شامل تھا۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے پاس ڈنڈے تھے اور انہیں غنڈہ گردی کے لئے عمران خان نے سڑکوں پر چھوڑا۔ یہ بھی فرمایا کہ عمران خان سڑکوں پر لوگوں کے بچوں کو مرنے کیلئے لے آئے۔ تاہم ساری پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر تحریک انصاف کے کارکن عمران خان کے کہنے پر سڑکوں پر آئے تو نون لیگ کے کارکن کس کے کہنے پر اسلحہ‘ پتھراور ڈنڈے لے کر آئے‘ انہیں ہاتھوں میں پستول دے کر کس نے سڑکوں پر چھوڑا اور کس نے انہیں فائر کرنے کا حکم دیا۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی کی ایک خاتون کے ساتھ بھی سرعام بدتمیزی کی گئی‘ اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا گیا لیکن شاید ان کے لئے یہ جائز تھا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ عجیب سیاست ہے کہ ایک پارٹی جو کام کرے وہ اس کے لئے حلال ہوتا ہے‘ وہی کام دوسری پارٹی کرتی ہے تو اس کے لئے جرم بن جاتا ہے۔ پرویز رشید صاحب نے پرتشدد احتجاج کے جو الزامات تحریک انصاف پر لگائے‘ وہی
کچھ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ نون لیگ کے کارکن کرتے رہے ہیں۔ لیگی مظاہروں میں بات صرف سڑکیں بلاک کرنے تک محدود نہیں رہتی بلکہ جلائو گھیرائو کا شاندار مظاہرہ بھی کر کے دکھایا جاتا ہے۔ اس قوم کی یادداشت بڑی کمزور ہے یا پھر واقعات کا تسلسل اتنا تیز ہے کہ ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ جو لوگ اخلاقیات‘ امن اور امان کا درس دے رہے ہیں‘ یہ خود ایسے موقعوں پر کیا کرتے رہے ہیں۔ بندہ جو کام خود نہ کرتا ہو‘ وہ اوروں کو اس کا درس دیتا پھرے‘ اس طرز سیاست کو آپ کیا نام دے سکتے ہیں۔
ہمیں ایک بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ واقعی تحریک انصاف کو احتجاج کرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اسے حکمران جماعت سے سیکھنا چاہیے کہ کیسے احتجاج کرنا چاہیے‘ اس کے لوازمات کیا ہونے چاہئیں اور اگر معاملہ قابو سے باہر ہو جائے تو کیسے لیپا پوتی کی جاتی ہے۔ لگتا ہے تحریک انصاف کے اطلاعاتی شعبے کی یادداشت بھی عوام کی طرح کمزور ہو چکی ہے ۔ یکم اکتوبر 2011ء کی تاریخ یاد کریں جب لوڈشیڈنگ کے نام پر ملک میں مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ اس وقت پنجاب میں نون لیگ اور مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ مظاہرے شروع ہوئے تو ان میں تشدد کا عنصر بہت زیادہ نہ تھا۔ عوام کی ٹولیاں سڑکوں پر آ کر ٹائر جلاتیں‘
ٹریفک بلاک کرتیں اور لوٹ جاتیں۔ تاہم احتجاج کے دوسرے دن مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف کا بیان آیا کہ لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج میں نون لیگ عوام کا ساتھ دے گی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جا کر کسی بھی اخبار کا پرانا ایڈیشن کھول لیں‘ پڑھتے جائیں اور شرماتے جائیں۔ یہ مظاہرے پہلے ہی پرتشدد تھے لیکن نون لیگ کی اس میں اعلانیہ شمولیت کے بعد حالات قابو سے باہر ہو گئے۔ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کیخلاف لاہور کی سڑکیں تین روز بند رہیں۔ جناب نواز شریف کی ہدایت پر لاہور میں رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز کی زیر قیادت لیگی کارکنوں نے مسلم مسجد لوہاری گیٹ سے شاہ عالمی چوک تک احتجاجی ریلی نکالی۔ اس دوران تمام تر کاروبار زندگی معطل رہا
اور لاہور کی تمام مارکیٹیں بند کرا دی گئیں۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ صرف اندرون شہر تک ہی محدود نہیں تھا۔بند روڈ، فیروز پور روڈ ، کینال روڈ، مصری شاہ ، شاہدرہ ، شیرانوالہ گیٹ اور ڈیوس روڈ سمیت کئی علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کئے رکھیں ۔مظاہرین نے راوی روڈ پر لیسکو آفس بھی نذر آتش کر دیا۔ گوجرانوالہ میں شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو ٹائروں کو آگ لگا کر بلاک کر دیا گیا‘ مظاہرین زبردستی دکانیں بند کرواتے رہے اور جی پی او آفس میں توڑ پھوڑ کی۔ راولپنڈی سے کراچی جانے والی تیز گام کو روک کر اس کے شیشے توڑے گئے۔ گوجرانوالہ میں گیپکو کے آفس کو آگ لگا دی گئی۔پرتشدد مظاہروں میں 27موٹرسائیکلیں اور واپڈا اور ریسکیو کی کئی گاڑیں بھی نذر آتش کر دی گئیں۔فیصل آباد میں مکمل شٹر ڈائون ہڑتال کی گئی ‘ توڑ پھوڑ کرکے کھلی دکانیں بھی بند کرا دی گئیں۔ کل جب حکمران تحریک انصاف کو اخلاقیات کے درس دے رہے تھے‘ ان کے ٹائر جلانے‘ سڑکیں اور دکانیں بند کرانے پر تنقید کر رہے تھے تو کاش وہ اس وقت تین سال قبل کے ان واقعات کا بھی ذکر کر دیتے‘ جن میں صوبائی حکمران جماعت خود شریک رہی ‘سب مل کر اپنے ہی ملک کو توڑتے پھوڑتے رہے اور مجال ہے کہ پنجاب پولیس نے کسی کو روکا ہو یا بعد میں کوئی کارروائی کی ہو۔ اگر ایسی کوئی کارروائی کی بھی گئی تو وہ رسمی تھی اور بعد میں اس کی پیروی نہیں کی گئی۔
سوال وہی ہے کہ کل یہ جلائو گھیرائو نون لیگ کے نزدیک جائز تھا تو آج تحریک انصاف کے لئے غلط کیسے ہو گیا؟ کیا ایسا کرنے سے بجلی کا بحران حل ہو گیا تھا؟ کیا پیپلزپارٹی کی حکومت نون لیگ کے خلاف اپنے کارکنوں کو اس ڈھٹائی کے ساتھ سامنے لائی تھی؟ کیا اس نے وحشیانہ کریک ڈائون کیا تھا؟ پنجاب میں تو وہ ایسا کر بھی نہیں سکتی تھی کہ یہاں نون لیگ کی حکومت تھی تو کیا نون لیگ نے عوام کے ساتھ مل کر جس طرح قومی املاک کو تباہ کیا‘ اس کا نقصان اگر پنجاب کو ہوا تو کیا پنجاب اس ملک‘ اس وطن کا حصہ نہ تھا اور اس حصے کو نقصان پہنچانا قومی و سنگین جرم نہیں تھا؟ کل جس شخص کی ٹی وی پر گولی چلاتے ہوئے فوٹیج دکھائی گئی‘ ایسے ہی لوگ سانحہ ماڈل ٹائون میں بھی خدمات سر انجام دے رہے تھے اور پولیس ان کی سرپرستی کر رہی تھی۔ فیصل آباد میں بھی گولیاں اور پتھر تحریک انصاف کے مخالفین برسا رہے تھے لیکن گناہ تحریک انصاف کے سر ڈال دیا گیا۔ یا تو عوام سارے پاگل اور بیوقوف ہیں یا پھر یہ سارے سقراط اور بقراط ہیںکہ جو کچھ کروڑوں عوام کو ٹی وی کیمروں کے ذریعے نظر آ رہا ہے وہ حکمران جماعت کو دکھائی نہیں دیتا۔ اقتدار کا نشہ حد سے بڑھ جائے تو کیا دکھائی دے گا ‘ سوائے اپنی کرسی اور جاہ و جلال کے۔ اوندھے منہ زمین پر گرنے والے ماضی کے حکمرانوں کی بھی کم و بیش یہی کہانی ہے کہ جو ظلم کریں‘ تو منصف کہلائیں ‘کوئی انصاف مانگے تو مجرم ٹھہرے۔ بقول شاعر ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ‘ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو