جس ملک میں گیارہ ماہ کی ریکارڈ مدت میں پچاس ارب سے میٹرو بن جائے لیکن دہشت گردی کی جنگ کیلئے پانچ برس بعد بھی بیس ارب سے نیکٹا فورس نہ بن سکے‘ وہاں یہی ہونا تھا۔
اب یاد آتا ہے مشرف کی کتنی باتیں درست تھیں۔ انتہاپسندی کے خلاف وہ بولتا تو ہم دانت پیستے۔ صرف تین چار لکھاری تھے جو کھل کر طالبان کے خلاف لکھتے اور ہم اُنہیں برا بھلا کہتے۔ آج وہ سچے ہو گئے اور ہم کھسیانے۔ مشرف نے مدارس کو نظم میں لانے کی بات کی تو ہم نے مخالفت شروع کر دی۔ اب پتہ چلا ہے یہ کتنا ضروری تھا۔ ہم جن دفاتر میں کام کرتے ہیں‘ وہاں ہمارا ایک ایک ریکارڈ موجود ہے‘ دفتر سے پانچ منٹ کیلئے باہر جائیں تو یہ ریکارڈ بھی الیکٹرانک مشین میں محفوظ تو پھر ان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ اگر یہ اس ملک کی سرزمین پر بنے ہیں‘ یہ اس ملک کے نمازیوں سے چندہ لیتے ہیں‘ سرکار انہیں بجلی‘ گیس اور پانی دیتی ہے تو پھر یہ سرکار کے نظم میں کیوں نہیں آ سکتے؟ کیوں داخل بچوں کا ریکارڈ ‘ چندوں اور اخراجات کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کرتے؟ صرف اس لئے کہ یہ سڑکوں پر نکل آئیں گے؟ کیا یہ سدھار کا موزوں ترین وقت نہیں؟کیا ترکی‘ جدھر حکمران بھاگ بھاگ کر جاتے ہیں‘ وہاں ایسا ہوتا ہے؟یہ کیوں نہیں بتاتے کہ وہاں مولوی منبر پر تب بیٹھتا ہے جب باقاعدہ سند یافتہ ہو۔ اگر میٹرو بس اور صفائی کی مشینیں وہاں سے آ سکتی ہیں تو وہاں کی مساجد اور مدارس کا نظام کیوں نہیں ؟ وزیراعظم صاحب! خدا کا واسطہ ‘ جہاں سے میٹرو بس جیسے کھلونے لائے‘ وہاں سے ہمیں یہ سب بھی لادیں‘ قوم کی برداشت ختم ہونے کو ہے۔
یہ اتنا بڑا سانحہ تھا‘ تو ہم نے سبق کیا سیکھا؟ اب بھی کھل کر نہ بھارت کا نام لیا جا رہا ہے اور نہ دہشت گردوں کی ڈھکے چھپے حمایت کرنے والوں کا منہ بند کیا جا رہا ہے۔ کیا قوم اور میڈیا کو ان کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے یا ابھی انتظار ہے کہ دہشت گرد آ کر مزید بچے ماریں اور یہ اسی طرح بھاشن دیتے رہیں کہ طالبان تو حق کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ بھارت کے ساتھ تعلقات ہر صورت ضروری ہیں‘ چاہے وہ ہمارے بچے ہی کیوں نہ مرواتا رہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 13دسمبر کو بھارت کو پاکستان سے سیمی فائنل میں عبرتناک شکست ہوئی اور تین روز بعد پشاور میں ہمیں امن کا لاشہ تھما دیا گیا؟ لوگ کہتے ہیں حکمران کھل کر بھارت کی مذمت کیوں نہیں کر رہے۔ میں پوچھتا ہوں چلو اب تو طالبان سامنے تھے لیکن اگست میں جب بھارت سیالکوٹ بائونڈری پر فائرنگ کر کے ہماری لاشیں گرا رہا تھا تب کیا تھا؟ تب تو دشمن واضح تھا‘ تب کیوں چُپ لگ گئی تھی؟
بہت ہو چکا۔ بڑی اٹھا لیںلاشیں‘ بہت دیکھ لیں کمیٹیاں‘بڑی بھگت لیں آل پارٹیز کانفرنسیں اور بہت سن لئے ڈھکن قسم کے بیانات۔ کیا ایک سو بتیس بچوں کا خون اتنا ارزاں ہے کہ اسے کمیٹیوں ‘ایکشن پلانوں‘ چائے کی پیالیوں اور مشترکہ اجلاسوں کے دھوئیں میں اُڑا دیا جائے؟خدا کا خوف کرو‘ خدا کا خوف۔ ایسی قیامت کبھی آئی تھی کہ آج تیسرے روز بھی ہر کوئی رو رہا ہے؟ جو سیاستدان اسے نائن الیون کہہ رہے ہیں‘ وہی بتیسیاں نکالتے ہوئے مشاورتی اجلاس میں باراتیوں کی طرح شریک ہو رہے تھے۔ اُوپر سے میڈیا کے سامنے قہقہے‘ چٹکلے‘ بے فکری کا انداز‘ مسکراہٹوں کے تبادلے۔ کیا شہیدوں کے والدین کو مزید چھلنی کرنا باقی ہے؟ کیا نائن الیون کے بعد بش نے بھی ایسے ہی دندیاں نکالی تھیں؟
میری تین سال کی بیٹی آج صبح صبح اچانک رونے لگی۔ پوچھا تو بولی۔'بابامجھے باجی کی فکر ہورہی ہے۔ میں نے اس کا خیال رکھنے سکول جانا ہے‘۔ اس کی باجی پہلی جماعت میں ہے۔ ابھی میں نے زیادہ ٹی وی نہیں لگانے دیا کہ میری والدہ دل کی مریضہ ہیں‘ صدمے نہیں دیکھ سکتیں۔ اس کے باوجود تین سال کی بچی نے پتہ نہیں کہاں سے وہ درد محسوس کر لیا جو ہمارا انگ انگ گھائل کر چکا ہے۔
کیسے مان لیں کہ سیاستدان اب سنجیدہ ہو چکے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ ‘ سب رنجشیں بھلا کر اکٹھے ہو گئے۔ میں کہتا ہوں ہم کن سے امیدیں لگائیں۔ پیپلزپارٹی سے‘ جن کی قائد دہشت گردوں نے ماری اور وہ اقتدار کے پانچ برسوں میں بھی ان کے خلاف کچھ نہ کر سکے؟ نون لیگ سے‘ جن کے لیڈروں کے ایسے بیانات اخباری ریکارڈ پر ہیں کہ طالبان اور ہمارا موقف ایک ہے اور جن کی انتخابی مہم جنوبی پنجاب میں کالعدم جماعتیں چلاتی رہیں؟یا پھر تحریک انصاف سے‘ جن کی شریک اتحادی جماعت کا قائد طالبان ''شہیدوں‘‘کی نماز جنازہ ادا کرتا رہا اور ان نمازوں میں اس کے بائیں طرف را کا ایجنٹ بھی کھڑا ہوتا تھا؟ یا پھر مذہبی جماعتوں سے‘ جو پشاور سانحے پر احتجاج کر سکی ہیں نہ ہی دہشت گردوں کے خلاف کھل کر فتویٰ دیا ہے؟ آ جا کے فوج رہ جاتی ہے جس پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں لیکن جب باقی سب مخالف سمت میں زور لگائیں گے توگاڑی آگے کیسے چلے گی؟
حکومت سنجیدہ ہے تو اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس سے صرف دو کلومیٹر دورمسجد کے سرکاری ''خطیب ‘‘عبدالعزیز کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتی جو کل ایک چینل پر اس حملے کی مذمت سے انکاری تھے ۔ یہ جپھیاں‘ یہ رنجشیں بھلانے اور مل بیٹھنے کی جذباتی باتیں کسی اور کو سنائیں۔ کچھ کر سکتے ہیں تو کر کے دکھائیں ورنہ جائیں‘جان چھوڑیں اس قوم کی۔ حکمران اور ان کے ترجمان نجی میڈیا پر غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ کی بڑی تنقید کرتے ہیں۔ اپنا گھر انہیں نظر نہیں آتا۔ کل سرکاری ٹی وی کی اینکر ہسپتال کے سی سی یو میں گھس کر ایک طالبعلم کا جبری انٹرویو کر رہی تھی جسے منہ میں گولی لگی تھی۔ پندرہ قسم کی نالیاں اس کے منہ کے آر پار جا رہی تھیں اور وہ اسے زبردستی بلانے کی کوشش میں لگی تھی۔ اب کہاں ہے پیمر ا‘حکومت اور اخلاقیات کے بھاشن؟
گھر میں چوری کا خدشہ ہو تو آپ کیا کریں گے‘ سکیورٹی پر توجہ دیں گے یا باتھ روم کی ٹائلیں اور صوفے بدلوائیں گے۔ تو پھر حکمران موٹر وے پر دو سو ارب اور جیل روڈ پر ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے میں تیس ارب لٹانے پر کیوں تُلے بیٹھے ہیں؟ کیا مزید لاشیں گرنے کا انتظار ہے؟ یعنی سکولوں کی دیواریں پانچ فٹ اور حکمرانوں کے محلوں اور دفتروں کی پندرہ پندرہ فٹ اونچی۔ سکولوں میں ایک چوکیدار اور ان کے گھروں کے باہر ہزار ہزار پولیس اور ایلیٹ والے ملازم۔ کب تک چلے گاایسے ؟سنا تھا کہ سانحے قومو ںکو بدل ڈالتے ہیں۔جاپان‘ ایران‘ فرانس سبھی بدل گئے۔ ہم رہے بھاڑے کے ٹٹو!
وہ جو عمران خان کے دھرنا ختم ہونے پر خوش ہو رہے ہیں‘ انہیں احساس ہی نہیں کہ ان کیلئے کتنا بڑا امتحان شروع ہو چکا۔عوام کس کرب سے گزر رہے ہیں‘انہیں اندازہ ہی نہیں۔ یہ خوشی کا نہیں‘رونے کا مقام ہے۔ ایک آگ ہے جو ہر دل میں لگی ہے۔ ذرا سوچیں‘ اگر یہ آگ ٹھنڈی نہ کی گئی تو پھر اس کا رُخ کس طرف ہو گا۔ اگر قومی صفوں سے طالبان اور طالبانی سوچ ختم نہ کی گئی تو پھر کیا بدلے کی یہ آگ ایک لاوے کی شکل اختیار نہ کر لے گی اور یہ لاوا ایک نئے دھرنے کی صورت میں ان کے پیچھے نہیں لگ جائے گا؟ آپ لکھ رکھیں۔ کسی نے تحریک انصاف کے اس اچھے عمل کا کوئی جواب دینا ہے نہ ہی شہید بچوں کے خون کا حساب لینے کیلئے یہ سیاستدان کچھ کریں گے۔ حکمرانوں کی ایک دھرنے سے جان چھوٹی ہے لیکن اُس دھرنے کا کیا کریں گے جو ہر اس والد اور والدہ کے دلوں میں شروع ہو چکا جس کا بچہ سکول جاتا ہے۔ ہر کوئی حساب اور انصاف مانگ رہا ہے۔ بچے والدین کی زندگی کا کل سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہ نہ رہیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ حکمران اگر مخلص ہیں تو تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بٹھائیں۔ ان سے پوچھیں وہ ہمارے ساتھ ہیں یا درندوں کے ساتھ۔ جو آئیں بائیں شائیں ‘ چوںکہ چنانچہ کرے‘ اس کے ساتھ وہی سلوک کریں جو مجرموںکے ساتھ ہونا چاہیے۔ اسے وہی کہیں جو امریکہ نے ہمیں کہا تھا ۔ ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گرد وں کے ساتھ۔
کسی ماں کا بچہ مرا ہوا بھی پیدا ہو جائے تو وہ اسے بھی چوم چوم نہیں تھکتی۔ وہ اُسے بھی لحد میں اُتارے ہوئے مری جاتی ہے۔ یہ تو پھر جیتے جاگتے شہزادے تھے۔ آج سے اقتدار‘ جمہوریت‘ الیکشن‘ دھاندلیاں‘ووٹ‘ تحریکیں‘ جلسے‘ پہیہ جام‘ سب الفاظ بے معنی ہو چکے‘ پشاور کی قیامت کے سامنے اپنی وقعت کھو چکے۔ اب بس ایک ہی لفظ کی حرمت باقی ہے اور وہ ہے انتقام۔ایک سو بتیس معصوموں کا انتقام....بند کرو یہ بُل شِٹ....میری جنگ‘ تمہاری جنگ‘ فلانے کی جنگ!