تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دھرنا ختم کر کے اچھا کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کی کہانی اسی روز ختم ہو جاتی۔ سولہ دسمبر تک خان صاحب کی جدوجہد دھاندلی اور انتخابی اصلاحات کے گرد گھوم رہی تھی‘ تاہم پشاور سانحے کے بعد اب یہ معاملات چھوٹے لگنے لگے ہیں اور جس نیم دلی اور سستی روی کے ساتھ حکمران دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ عوام کو ان سے خاص امید باقی نہیں رہی۔اس خلا کو کسی نہ کسی لیڈر نے تو پُر کرنا ہے۔ خان صاحب غور کریں تو پشاور سانحے میں اُن کیلئے چند اہم پیغامات پنہاں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جس اقتدار کے لئے اٹھارہ برس سے جنگ لڑ رہے ہیں‘ یہ وہ اقتدار نہیں جو آج سے دس بارہ برس پہلے ملنا تھا۔ اس وقت تک حکومتوں کو اس قدر بھیانک اور درندہ صفت دشمن کا سامنا نہ تھا۔ بم دھماکے تو اس وقت بھی ہوتے تھے لیکن ان میں اتنا تسلسل نہ تھا اور کسی ایک گروہ یا تحریک نے ملک کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع نہ کی تھی۔ اکا دُکا واقعات ہوتے تو بھارت کا نام لگا دیا جاتا اور بات آئی گئی ہو جاتی۔ تاہم نائن الیون کے بعد ہوا کا رُخ ہی تبدیل ہو گیا۔ پاکستان امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو ممکن ہے یہی ''مجاہدین‘‘امریکہ کے ساتھ مل کر ہمارا ڈبل تورا بورا بناتے اورپاکستان عراق یا شام بن چکا ہوتا۔ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو وہ میزائل جو پاکستان نے کبھی روس کے خلاف چلائے تھے‘ ان کا رخ اُلٹا پاکستان کی طرف ہو گیا۔ یہ انسانی بموںکی صورت میں بازاروں ‘ چوکوں اور چوراہوں میں پھٹنے لگے۔ جتنی دیر پرویز مشرف حکمران رہے‘ سیاسی اور دفاعی پالیسی اُن کے ہاتھ میں رہی۔ وہ اچھی تھی یا بری‘ لیکن مستقل مزاجی کے ساتھ وہ دہشت گردی کی جنگ لڑتے رہے۔ اس دوران سیاسی اور مذہبی جماعتیں‘یہ سمجھنے
کی بجائے کہ ہمیں کتنی شدت سے دشمن کا جواب دینا ہے‘ یہ بحث کرتی رہیں کہ یہ جنگ ہے کس کی۔ سب اسے امریکی جنگ کہنے اور حکومت کو کمزور کرنے میں لگے رہے ۔ پرویز مشرف کو راستے سے ہٹانے کے بعد اقتدار سیاستدانوں کے ہاتھ آیا تو انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو گیا۔ زرداری صاحب کے دور میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ امریکہ سے جو اربوں ڈالر دہشت گردی کی جنگ کیلئے ملے‘ ان کا استعمال کہاں ہوا‘ کسی کو معلوم نہیں ۔ سوائے اس کے ‘ کہ دہشت گردی میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے لئے چند لاکھ امداد کا اعلان ہو جاتا ‘ کوئی قابل ذکر اقدامات نہ کئے گئے۔ نواز شریف وزیراعظم بنے‘ تو انہیں دو قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک‘ دہشت گردی کی جنگ جو بارہ برس سے جاری تھی‘ اور دوسرا تحریک انصاف کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف مہم۔ دہشت گردی کی جنگ کو انہوں نے فوج پر چھوڑ دیا اور جو کام سیاستدانوں کا تھا‘ اس سے مکمل پہلو تہی برتی۔ جو مٹی پائو پالیسیاں زرداری صاحب کے دور سے چل رہی تھیں‘ وہی آگے بڑھائی گئیں۔ کسی کو اگر یاد ہو تو اس سال کے آغاز میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ایک کمیٹی کا اعلان جناب نواز شریف نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں کیا تھا۔ یہ کمیٹی بھی ماضی کا حصہ بن گئی‘ یہاں تک کہ سولہ دسمبر کا سانحہ رونما ہوا اور ایک اور کمیٹی بنا دی گئی۔ اس سے قبل چار ماہ تک عمران خان دھرنوں اور جلسوں کی شکل میں حکومت کو ٹف ٹائم دیتے رہے لیکن حکومت سے ایک مطالبہ بھی نہ منوا سکے۔ تاہم ان کی اس جدوجہد نے عوام کے اندر تبدیلی کی زبردست لہر پیدا کر دی اور لوگ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا شروع ہو گئے۔ وہ دھرنوں میں جس طرح حاکم وقت کو پکارتے ‘اس سے لوگوں کو لگتا‘ انہیں ایک بولڈ لیڈر میسر آ گیا ہے۔ تاہم لوگ خان صاحب کو کس قدر اور کس کے خلاف بولڈ دیکھنا چاہتے ہیں‘اس کا اندازہ گزشتہ روز پشاور آرمی پبلک سکول کے باہر شہید ہونے والے ایک بچے کی والدہ کے جذبات سے لگایا جا سکتا ہے‘ اس نے خان صاحب کو اپنے بچے کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ بچے شہید ہو گئے‘کون سی تبدیلی آئی گئی؟خاتون نے خان صاحب کے کندھے جھنجھوڑتے ہوئے کہا ‘ آپ جتنے بولڈ ہیں‘ اتنے بولڈ فیصلے بھی کریں۔
خان صاحب چاہیں تو خاتون کے ان دو سوالوں میں اپنے اور ملک کے سیاسی مستقبل کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ کل انہیں معلوم ہوا ہو گا کہ اگر وہ نواز شریف کی جگہ وزیراعظم ہوتے تو
انہیں کس قدر تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ عوام‘ اپوزیشن اور میڈیا سب ان سے ایک ہی سوال کرتے کہ بتائو دہشت گردی کی جنگ میں کیا کردار ادا کیا؟ لوگوں کی جانیں محفوظ کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے؟ تب کسی نے تعریفیں نہیں کرنی تھیں کہ آپ نے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کر ا دیں ‘ بلکہ سب نے گریبان پکڑنا اور اپنے بچوں کے خونِ ناحق کا حساب مانگنا تھا۔ خان صاحب کی گزشتہ چار ماہ کی جدوجہد کو لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن یہ بھی سوال پوچھتے ہیں کہ جب ان کے بچے ہی شہید ہو جائیں تو وہ شفاف الیکشن اور دھاندلی کی تحقیقات کا اچار ڈالیں گے؟ جن بیسیوں گھروں سے ننھے تابوت اٹھائے گئے‘ انہیں ہمدردی اور جذباتی بیانات سے تسلی کب تک دی جا سکتی ہے؟ خان صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ پشاور سانحے کے بعد اب اقتدار کا حقدار اور عوام کا اصل لیڈر وہی ٹھہرے گا جو دہشت گردی کی جنگ کو پہلی فوقیت دے گا۔ لوگ اب نئے پاکستان سے پہلے ایک نیا عمران خان دیکھنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے خان صاحب کا ماضی کا موقف جو کچھ بھی تھا‘لوگ اب انہیں نڈر رُوپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسے عمران خان کی صورت میں‘ جو جس جذبے اور جوش کے ساتھ دھاندلی کے خلاف کھڑا تھا اُس سے کہیں زیادہ بہادری اور ولولے کے ساتھ دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے۔ ایسا عمران خان‘ جو دشمن کو اس کا نام لے کر للکارے اور اسے اس کی اوقات یاد دلائے‘ اورجو قوم کو ہماری جنگ تمہاری جنگ کے قضیے سے باہر نکالے۔
خان صاحب! پشاور سانحے کے بعد پوری دنیا کے پاکستانیوں کے کلیجے کٹ چکے ہیں‘ لوگ دل گرفتہ ہیں‘ چھپ چھپ کر روتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ اگر حکمران نیک نیتی سے جنگ لڑ رہے ہوتے تو عوام کو ان سانحوں میں اس قدر تکلیف نہ ہوتی۔ عوام ایک طرف امن چاہتے ہیںتو دوسری طرف ایک ایسے قائد کے متلاشی ہیں جو کرب کی اس گھڑی میں ان کی ڈھارس بندھائے ‘ جو فوج کی ہمت بڑھائے اور بچوں میں وطن کیلئے لڑنے اور مرنے کا جذبہ پیدا کرے۔ خان صاحب! خود تو آپ دھرنوں میں خودکش بمباروں اور دہشت گردوں کی آمد کی اطلاعات سے نہیں ڈرے تو کیا آپ قوم کے دل سے موت کا خوف دور کرنے اور انہیں جہاد کیلئے تیار کرنے کی خاطر ایک تحریک نہیں شروع سکتے؟ اس مقصد کیلئے آپ علامتی قسم کا دھرنا یا روزانہ کی بنیاد پر کوئی خطاب شروع سکتے ہیں لیکن اب یہ دھرنا یا خطاب دھاندلی کے کمیشن کیلئے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے خلاف ہونا چاہیے‘ ان 134بچوں اور شہید اساتذہ کے لئے ہونا چاہیے‘ ان پچاس ہزار لوگوں اور فوجیوں کیلئے ہونا چاہیے جنہوں نے وطن کی مٹی کو اپنے خون سے سینچا۔ اپنے خطاب میں آپ روزانہ قوم کو دہشت گردی کی جنگ کے خلاف پیش رفت سے آگاہ کریں اور جہاں حکومت وسائل کی فراہمی یا کسی اور وجہ سے لیت و لعل سے کام لے یہ سب قوم کے سامنے رکھ دیں اور دہشت گردوں کو یہ پیغام دیں کہ انہوں نے نہتے معصوم بچوں پر حملہ کر کے جو گھنائونا فعل کیا ہے‘ اس پر چند ایک کالی بھیڑوں کے علاوہ ان کا کوئی ہمدرد ملک میں باقی نہیں رہا۔ یقین کیجئے گر آپ نے قوم کو دہشت گردوں کے خلاف اکٹھا کر دیا‘ اگر آپ نے حکمرانوں کو یہ جنگ اپنی جنگ سمجھ کر لڑنے پر مجبور کر دیا اور اگر آپ نے شہید بچوں کے والدین کے زخموں پر پھاہا رکھ دی تو قوم آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی۔ آگے بڑھئے خان صاحب‘ قوم کو سیاستدانوں میں کسی سے کوئی اُمید نظر آتی ہے تو وہ آپ ہیں۔