حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات ویسا ہی کھیل بنتا جا رہا ہے جو سابق دور میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان کھیلا گیا تھا۔ پانچ برس تک دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے اور جلسے کرتے رہے اور عوام یہ سمجھتے رہے کہ شاید یہ اصلی لڑائی ہے اور نون لیگ بیرون ملک پڑا پیسہ واپس لانے میں واقعی مخلص ہے ۔ پانچ سال گزر گئے۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ یہاں تک کہ الیکشن کے دن آ گئے۔ اس دوران بھی نون لیگ کی جانب سے کہا گیا کہ ہم حکومت میں آ کر سوئس بینکو ں میں پڑی دو سو ارب ڈالر کی رقم واپس لائیں گے لیکن دو سال ہونے کو ہیں مگر نون لیگ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اس پر کچھ نہیں کر سکی کیونکہ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی۔ تحریک انصاف کا معاملہ اس لئے ایسا لگ رہا ہے کیونکہ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ نون لیگ کبھی اپنے پیٹ سے کپڑا نہیں ہٹائے گی‘ یہ اس سے مذاکرات پہ مذاکرات کر رہی ہے۔ مذاکرات وہاں ہوتے ہیں جہاں دونوں فریق غلطی پر ہوں۔ اس میں لین دین ہوتا ہے اور کچھ لینے دینے کے بعد معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔ یہاں معاملہ یک طرفہ ہے اور اسے یکطرفہ خود نون لیگ نے بنایا ہے۔ حکمران جماعت سے چار حلقے کھلوانے کا مطالبہ کیا گیا جسے آج تک کسی نہ کسی شکل میں التوا میں ڈالا گیا جس سے اس امر کو تقویت مل گئی کہ دال میں کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ چنانچہ ایسے مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلنا ہے‘ سب کو معلوم ہے۔ دوسری طرف نون لیگ کو پیپلزپارٹی والی فرینڈلی اپوزیشن کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ یہ عمران خان والی سیاست افورڈ ہی نہیں کر سکتی۔ یہ شہید ہو جائے گی لیکن کسی صورت دھاندلی سے پردہ نہیں اٹھنے دے گی۔ پی ٹی آئی کے لئے اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ یا تو اپنے سارے مطالبات واپس لے لے یا پھر مذاکرات کا کھیل کھیلتی رہے یہاں تک کہ مزید دو برس گزر جائیں اوراگلے انتخابات سر پر آجائیں۔
حکومت تحریک انصاف کے ساتھ ایک اور کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ چاہتی ہے مذاکراتی عمل کو شیطان کی آنت کی طرح اتنا طویل کیا جائے کہ معاملے کی اہمیت خود اپنی موت آپ مر جائے۔ بالفرض پی ٹی آئی مذاکرات سے انکار کر دیتی ہے اور دوبارہ سڑکوں پر آنے کا اعلان کرتی ہے تو حکومت وہی پھپھے کٹنی والا کھیل کھیلے گی۔ یہ پروپیگنڈا کرے گی کہ دیکھو ہم تو مذاکرات کر رہے تھے‘ پی ٹی آئی نے خود ہی انتشار کا راستہ اختیار کر لیا۔ دوسرا پوائنٹ یہ اچھالا جائے گا کہ پشاور سانحے کے بعد ملک کو دہشت گردی کے خلاف جس اتحاد کی ضرورت تھی‘ پی ٹی آئی نے اسے تار تار کردیا۔ اگر دوبارہ دھرنا شروع ہو گیا اور اس دوران میں ملک میں دہشت گردی کا کوئی بڑا سانحہ رونما ہو گیا تو حکومت کو تو دھچکا پہنچے گا ہی مگر پی ٹی آئی کی بھی شامت آ جائے گی۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کی توپوں کا رخ پی ٹی آئی کی طرف ہو جائے گا۔ سب اسے لعنت ملامت کریں گے کہ دیکھو اتنے نازک حالات میں بھی یہ اپنے اقتدار کا لالچ کر رہی ہے اور عوام کی جانوں کی اسے کوئی پروا نہیں۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی کے لئے کہیں زیادہ نقصان دہ ہو گی۔ اس موقع پر اگر یہ اپنا دھرنا دوبارہ موقوف کرے گی تب مرتی ہے‘ نہیں کرے گی تب گالیاں کھائے گی۔ حکومت جو پہلے ہی کچھ نہ کرنے کی قسم کھا کر بیٹھی ہوئی ہے اور جو گزشتہ برس ہر نقصان کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈال رہی تھی اور وزیراعظم بھی
جس ملک میں جا رہے تھے‘ یہی فرما رہے تھے کہ دھرنے کی وجہ سے معیشت آگے نہیں بڑھ رہی تو ان سب کو یہ ڈھنڈورا مزید زور و شور سے پیٹنے کا موقع مل جائے گا کہ دیکھو پہلے پی ٹی آئی والے صرف معیشت کو تباہ کر رہے تھے اور اب دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس دوران میں اگر پی ٹی آئی نے شہر بند کرنے اور سول نا فرمانی کی دیگر اشکال پر عمل کرنا شروع کر دیا تو حکومت کی سکیورٹی کا زیادہ حصہ اس پر صرف ہوناشرو ع ہو جائے گا‘ دہشت گردی کے لئے مختص وسائل کا رُخ دھرنوں اور جلسوں کی بیخ کنی کی طرف ہو جائے گا اور اگر خدانخواستہ جلسوں اور پہیہ جام میں پھر کوئی ہلاکتیں ہو گئیں تو عوام اور سرکار ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور حالات پُرتشدد صورت اختیار کر جائیں گے ۔ حکومت یہاں وہی کارڈ دوبارہ کھیلے گی۔ جلتی پر تیل ڈالنے کی خاطر گیارہ جماعتیں پھر سے اکٹھی ہوں گی‘ پارلیمنٹ کے اجلاس ہوں گے اور پی ٹی آئی کو دہشت گردی روکنے میں رکاوٹ ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ صورتحال اس نہج کو پہنچ جائے گی کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق یا کوئی اور انہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ ایسی صورت میں یہی آپشن باقی رہ جائے گا کہ تیسرا فریق آئے اور معاملہ حل کرائے۔ اگست میں جس طرح فوج نے اس مسئلے کو نمٹایا‘ اگر اسے کہا گیا تو اس کی پہلی کوشش یہی ہو گی کہ معاملہ صلح صفائی اور مذاکرات کے راستے پر ڈال دیا جائے۔ بالفرض فریقین میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا ‘ نہ حکومت دھاندلی کی تحقیقات پی ٹی آئی کی شرائط کے مطابق کراتی ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتی ہے تو پھر درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ راستہ صرف مڈ ٹرم انتخابات کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ عمران خان جہاں وزیراعظم کے استعفیٰ کی شرط سے پیچھے ہٹ چکے ہیں‘ جہاں دھرنا ختم کر چکے ہیں تو دھاندلی کی تحقیقات کی شرط بھی مڈٹرم انتخابات کے اعلان کے بدلے واپس لے لیں گے۔ اگر پی ٹی آئی نے اس شرط میں کڑی انتخابی اصلاحات کا نکتہ نہ اٹھایا تو حکومت آسانی سے مان جائے گی ‘ دوسرا راستہ ایک نئے ڈیڈ لاک کی صورت میں ختم ہو گا اور یہ ڈیڈ لاک اس طرح سے کھلے گا کہ اس کے بعد یہ سارے کے سارے جمہوریت کے ڈھول اُٹھا کر دوبارہ سڑکوں پر ہوں گے اور اگر اب کی بار ایسا ہوا تو عوام کی اس عمل کو مکمل تائید حاصل ہو گی کیونکہ جو سیاستدان عوام کے بچوں کی جان پر بھی سیاست کرتے رہیں‘ عوام نے ایسی جمہوریت اور ایسے سیاستدانوں کا اچار نہیں ڈالنا۔ حکمران اور اپوزیشن سانپ سیڑھی کا یہ کھیل بند کریں اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فوج سے بھرپور تعاون کریں‘ پھر نہ کہیں کہ مارے گئے!
پس تحریر: کل وزیرمملکت عابد شیر علی پھر ٹی وی پر جلوہ گر ہوئے۔ فرماتے ہیں 58ایکسین حضرات کرپشن میں ملوث پائے گئے۔ ان کے خلاف سخت ایکشن ہو گا۔ ہم وزیرموصوف کو یاد کرائے دیتے ہیں کہ ایسے ہی کئی دبنگ قسم کے اعلانات انہوں نے آغاز حکومت میں بھی کئے تھے۔ یہاں تک کہا تھا کہ کرپٹ ایکسین اور ایس ڈی اوز کی فہرست متعلقہ سب ڈویژنل دفاتر میں چسپاں کی جائے گی۔ یہ فہرست دیکھنے کے لئے میں کئی مرتبہ لیسکو کے ہیڈ آفس گیا لیکن مجھے ایسی کوئی فہرست نظر نہ آئی۔ بلکہ وہاں اس محکمے میں اُلٹا حکومتی سطح پر کرپشن کے جو ہوشربا قصے میں نے سنے‘ انہیں سن کر اس قسم کے بیان مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔ چلیں انہیں چھوڑیں قوم کو جو ستر ارب کی اووربلنگ کا چونا لگاآج تک اس کا حساب تو حکومت سے دیا نہیں گیا۔ یہ معاملہ بھی کمیٹیوں کی نذر ہو گیا۔ اگر بجلی کا مسئلہ واقعی حل کرنا ہے تو پہلے لیسکو وغیرہ کے ان افسران کو نکیل ڈالی جائے‘ جو دیگر ممالک کی شہریت اس وجہ سے لے چکے ہیں کہ انہیں کبھی بھی یہاں سے بھاگنا پڑ سکتا ہے۔ یہ لوگ اپنی فیملیاں اور پیسہ پہلے ہی باہر شفٹ کر چکے ہیں اور یہاں دیگر ناموں سے جعلی کمپنیاں بنا کر این ٹی ڈی سی اور واپڈا کو ناقص آلات فراہم کر رہے ہیں۔ وزیرموصوف نئے ایکسئینز کی بات کرتے ہیں۔ این ٹی ڈی سی کے ایک افسر کا کیس چار برس سے نیب کے پاس موجود ہے‘ وہ سکھر گرڈ سیشن میں گزشتہ برس ناقص پینل بھیجنے کی منظوری دینے اور بارہ کروڑ کا نقصان پہنچانے کا ''شاندار‘‘ کارنامہ بھی انجام دے چکا ہے‘اس پر اس کی گزشتہ ہفتے اگلے گریڈ میں ترقی بھی کی جا چکی ہے اور معلوم ہوا ہے کہ موصوف سکھر کیلئے ہی دوبارہ ناقص پینلز کی منظوری کیلئے بھی پر تول رہے ہیں۔ اطلاعاً عرض کر دوں کہ اس افسر کی تعیناتی براہ راست وزارت بجلی و پانی نے کی تھی تو پھر کیسا احتساب‘ کیسے بیانات اور کیسے حکومتی دعوے؟