ہمیشہ کی طرح پٹرول بحران میں بھی عوام ذلیل ہو رہے ہیں اور حکمران نہال۔ کسی میں تھوڑی سی حیا ہوتی تو اپنا استعفیٰ سامنے رکھتا اور فکر ہوتی تو پیشگی اقدام کرتا۔ ٹی وی پر جتنے حکومتی نمائندے آ رہے ہیں‘ سب اگر مگر کی ڈوئی چلانے میں لگے ہیں۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ایسا کون سا بہانہ ڈھونڈیں جس سے مسئلہ ٹھنڈا ہو جائے۔ اور تو اور ماضی میں کہیں سے چھوٹی سی بات پر نوٹس لے لیے جاتے تھے لیکن آج دس روز گزرنے کے بعد ایسا بھی نہیں ہوا۔ سب سے زیادہ ہمدردی مجھے نون لیگ کے ووٹروں اور ہمدردوں سے ہے جو کل تک عمران خان اور دھرنوں کو ہر مسئلے کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے ‘ آج منہ چھپائے پٹرول کی قطاروں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔تاجر شریف برادران کو اس لئے ووٹ دیتے تھے کہ یہ لوگ خود بزنس مین ہیں اس لئے کاروباری طبقے کے مفادات کا خیال رکھیں گے۔ واقعی کاروباری طبقے کا خیال رکھا گیا‘ لیکن صرف ان کا جو حکومت میں رہ کر کاروبار کر رہے ہیں یا پھر ان کے چہیتوں کا۔حکمرانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اب حکومت کرنے کے لئے صرف اور صرف ڈھٹائی کی ضرورت ہے۔ کوئی تعلیم‘ ذہانت اور تجربہ کسی بھی شعبے کے لئے اب درکار نہیں رہا۔ آپ جتنے زیادہ بے حس ہیں‘ جتنا زیادہ کھلنڈرے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘ آپ کو اتنے ہی بڑے عہدے سے نوازا جائے گا۔ کیا عوام اب حکومت کو بتائیں گے کہ بیس دن کا پٹرول ریزرو رکھو اور مستقبل کی پلاننگ کرو۔ کیا حکمرانوں کو احساس ہے کہ ان کے اس عمل سے دہشت گردوں کو کتنی تقویت مل رہی ہے۔ کیا معلوم کہ
دہشت گرد قطاروں میں لگ کر کتنا پٹرول اکٹھا کر چکے۔ حکومت کو تو ان قطاروں کی کوئی پروا نہیں لیکن اگر ایسے کسی ہجوم کو کسی دہشت گردنے نشانہ بنا لیا تو حکومت کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔نہ عوام کو پروا ہے کہ کس چیز میں پٹرول لینا ہے نہ پٹرول پمپ والوںکو کوئی فکر ہے۔ کوئی شیشے اور پلاسٹک کی بوتلیں لا رہا ہے‘ کوئی پانی کی بڑی بوتلیں جنہیں بار بار ری فل کیا جاتا ہے۔ کیا اس طرح یہ دوبارہ قابل استعمال رہ جائیں گی؟ کچھ لوگ چھوٹی موٹی دیہاڑی بنانے کے لئے پہلے لمبی لائنوں میں لگتے ہیں‘ موٹر سائیکل یا بڑے کین میں نو دس لیٹر پٹرول بھرواتے ہیں اور پھر سڑک کنارے چپکے چپکے اسے مہنگا بیچتے ہیں‘ ان لوگوں کی وجہ سے عوام کو تھوڑا بہت پٹرول مل جاتا ہے۔ حکمرانوں کو اور کوئی نظر نہیں آیا تو انہیں نشانہ بنانے کی تیاری کر چکے ہیں۔ یعنی عوام کو جو تھوڑا بہت پٹرول چاہے مہنگے داموں ہی سہی‘ میسر تو تھا وہ بھی اب ہاتھ سے جائے گا۔ حکمرانوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے لوگ اب عمران خان کے دھرنے کو یاد کرنے لگے ہیں۔ یہ دھرنا کیا تھا‘ ایک پائوں تھا جو حکومت کی شہ رگ پر رکھا تھا۔ دھرنا نہیں رہا تو حکومت خوب کھل کھیل رہی ہے۔ اس وقت کہا گیا چینی صدر دھرنے کی وجہ سے نہ آ سکے۔ انہوں نے بڑے پروجیکٹس لانے تھے۔ کوئی بتائے‘ اس ملک میں جتنے مرضی پروجیکٹس لے آئو‘ جتنی
مرضی سکیمیں شروع کر لو جب تک یہ بابو قابو نہیں آ ئے گا‘ کوئی پروجیکٹ‘ کوئی سکیم چل سکتی ہے؟ جو حشر پٹرول کا ان بابوئوں نے کیا ہے یہی حشر انہوں نے چینی صدر کی سرمایہ کاری کا کرنا تھا تو پھر رونا کس بات کا؟اس وقت عوام جتنے غصے میں ہیں‘ اگر کوئی دبنگ لیڈر اس غصے کو کیش کرانا چاہے تو اس کے لئے چنداں مشکل نہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ مذہبی جماعتیں ان عوامی ایشوز کو اپنے احتجاج کا باقاعدہ حصہ کیوں نہیں بناتیں؟ کیا یہ مسئلہ جمعیت علمائے اسلام یا جماعت اسلامی کو درپیش نہیں ہے؟ کیا وہ عام آدمی کے ساتھ کھڑی نہیں ہو سکتیں؟ آ جا کے تحریک انصاف رہ جاتی ہے۔ اگر عمران خان کسی ایشو پر احتجاج کی کال دیںتو کہا جاتا ہے کہ لندن پلان کی سازش ہے۔ آج کل ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سعودی عرب میں اکٹھے ہیں۔ واپسی پر انہوں نے پٹرول بحران پر احتجاج کا آغاز کیا تو شور مچے گا کہ دونوں ''سعودیہ پلان‘‘ کے تحت حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ جو بیوروکریسی پاکستان میں کتابیں پڑھ کر نوکریاں لگتی ہے وہی کتابیں پڑھ کر بیوروکریٹ امریکہ میں نوکریاں کر رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ وہاں پر کوئی زیر کو زبر کر سکے۔ امریکہ میں لاکھوں گاڑیاں بجلی پر منتقل ہو چکی ہیں اور انہیں تیل کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کے باوجود امریکہ تیل کی پیداوار میں مسلسل اضافے میں مصروف ہے۔اگر ہماری بیوروکریسی وہاں ہوتی تو یہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ ساز باز کر لیتی کیونکہ تیل کی زیادہ پیداوار سے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی پوری صنعت ڈوبنے کا خطرہ تھا‘مگرامریکہ نے یہ خطرہ مول لیا‘ اس لئے کہ وہاں ترجیحات مختلف ہیں۔ان کا پہلا مقصد سستا فیول نہیں بلکہ صاف ستھرا ماحول ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اوزون کی تہ کو مزید نقصان سے بچانے کے لئے ماحول دوست صنعتیں اور گاڑیاں متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ اس کے جواب میں ہم کیا کر رہے ہیں‘ یہ سامنے کی بات ہے۔
حکومت صرف پٹرول کے معاملے میں ہی نہیں بوکھلائی بلکہ دہشت گردی کی جنگ کو بھی پولیس کلچر کے ذریعے ٹریٹ کیا جا رہا ہے۔ دینی کتب کی دکانوں پر پولیس کے غیر علانیہ چھاپے شروع ہیں۔ ادھر نیشنل ایکشن پلان منظور ہوا، ادھر ہماری پولیس دکان داروں پر چڑھ دوڑی ہے۔ کسی گرفتار ہونے والے کو کچھ خبر نہیں کہ اس کا قصور کیا ہے؟ بس اتنا معلوم ہوا کہ کسی نے کسی کتاب میں اپنی دانست میں قابل اعتراض مواد تلاش کیا اور فیصلہ کر دیا کہ اس کتاب کو بین کر دیا جائے۔ نہ کوئی انتباہ نہ کوئی پیشگی فہرست پیش کرنے کی زحمت۔ بلاشبہ قانون سے لاعلمی عذر نہیں۔ لیکن بڑے سے بڑے ملزم کو بھی صفائی کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا یک طرفہ پابندی کا فیصلہ ہے کہ کتاب پر پابندی لگا کر فیصلہ فائل میں دبا دو۔ کیا متاثرہ فریق کو خواب میں پتہ لگنا تھا کہ اس کی تحریر کردہ یا مطبوعہ کتاب پر سرکار نے پابندی لگا دی ہے؟ دنیا کے کسی غیر مہذب اور غیر متمدن ملک میں بھی شاید ایسا نہ ہوتا ہو جو ہمارے یہاں ہو رہا ہے۔ اگر اخبار میں ممنوعہ کتب کی فہرست کا اشتہار نہیں دیا جا سکتا تو کم از کم اتنا تو ہو کہ متعلقہ ناشر‘ مصنف کو اس کی اطلاع دے دی جائے۔ ہو یہ رہا ہے کہ اچانک پولیس کی گاڑی آتی ہے اور دکان دار کو اٹھا لے جاتی ہے اور اس پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کر کے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بھلے وہ دکان دار دہشت گرد ہو، کم از کم انصاف کے تقاضوں کو تو پورا کیجیے۔ آپ ایک بار ان دکان داروں کو ممنوعہ کتابوں کی فہرستیں تو فراہم کیجیے۔ کیا یہ ان کا اخلاقی اور قانونی حق نہیں؟ہاں آپ کے اتمامِ حجت کے بعد بھی کوئی شخص پاکستان کی پر امن فضا کو مسموم بنانے سے باز نہیں آتا تو پھر اس کا نصیب۔ پھر اس کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت تھانے اور جیلیں بھر کر دہشت گردی کی جنگ جیتنا چاہتی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ پھر جس طرح پولیس کے چھاپے مارنے اور بے گناہوں کو بغیر جرم اور ثبوتوں کے اندر کرنے سے چوری اور ڈاکے ختم نہیں ہوئے‘ دہشت گردی بھی ختم نہیں ہو گی۔