سولہ دسمبر کو درندہ صفت دہشت گردوں نے پشاور آرمی پبلک سکول کے بچوں کو شہید کیا تھا تو گزشتہ روز پنجاب پولیس لاہور کے سرکاری سکول کے بچوں پر ٹوٹ پڑی اور انہیں لاٹھیوں اور ٹھڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ پشاور واقعہ میں اگر تحریک طالبان ملوث تھی تو لاہور سکول سانحے کا تمغہ لاہور پولیس نے اپنے سر سجایا۔ کہتے ہیں طالبان کے پیچھے را اور موساد ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر لاہور پولیس کا پشت پناہ کون ہے؟اگر پشاور کے بچوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف فوجی عدالتیں بن سکتی ہیں تو پنجاب پولیس کے مظالم کے خلاف کون سی عدالتیں بنیں گی؟ اگر طالبان کے خلاف ساری جماعتیں اکٹھی ہو سکتی ہیں تو پولیس کے خلاف کب ہوں گی؟ بھاٹی چوک میں قائم گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول کو ٹرسٹ سے سرکاری سرپرستی میں لیا گیا تو والدین‘ اساتذہ اور بچوں نے مل کر احتجاج کیا۔ مانا کہ بچے معاملے سے لا علم ہوں گے‘ انہیں محض احتجاج میں شریک کیا گیا لیکن پولیس تو اندھی نہ تھی۔ چوتھی جماعت کے جس بچے کا سر پھٹا‘ وہ سمجھا تھا کہ شاید اس کے سکول پر انہی طالبان کا حملہ ہو گیا ہے جنہوں نے پشاور میں اس جیسے بچوں کو شہید کیا تھا۔ ایک طرف سکولوں میں سکیورٹی اقدامات‘ اونچی دیواریں‘ دیواروں پر آہنی تاریں‘ ریت کی درجنوں بوریوں میں چھپا ایک بندوق بردار اور دہشت گردوں کے حملوں کا خوف اور دوسری طرف اس پولیس کی بربریت جس کی ذمہ داری عوام کی حفاظت ہے نہ کہ ان پر اپنی طاقت کے جوہر دکھانا۔خوف کے اس عالم میں بچے کیا خاک پڑھیں گے؟ جو ان کی حفاظت پر مامور ہیں اگروہ ہی انہیں چھلنی کرتے رہیں گے تو یہ اپنی جان کیسے بچائیں گے؟
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ دہشت گردوں کو دیکھ کر چاہے پولیس کی دوڑیں لگ جائیں لیکن یہ اتنی بھی ڈرپوک اور نا اہل نہیں ہے کہ نابینائوں کو مزا نہ چکھا سکے۔ رہے سکول کے بچے تو اب انہیں بھی سبق مل گیا کہ انہیں طالبان اور پولیس دونوں سے خود کو بچانا ہو گا۔ صوبائی وزیر زعیم قادری سکولوں کے بچوں کو این سی سی کی تربیت دینے کی تجویز دے چکے ہیں۔ اگر وہ اس تربیت میں طلبا کو پولیس تشدد سے بچنے کا بھی طریقہ بتا دیں تو لاکھوں بچوں کا بھلا ہو جائے گا۔ جو بچے بڑے ہو کر پولیس میں جانا چاہتے ہیں ان کے ذہن پر یہ واقعہ کیا اثرات چھوڑے گا۔ کیا کوئی چاہے گا کہ وہ بڑا ہو کر اپنے ہی بچوں کے سر اپنے ہاتھوں سے پھاڑے اور سرکار سے اس کی تنخواہ بھی وصول کرتا رہے۔ رہا گزشتہ روز والا واقعہ تو اس پر وزیراعلیٰ پنجاب نوٹس لے چکے ہیں۔ لہٰذا تسلی رکھئے۔ دو چار پولیس والے تو ضرور معطل ہوں گے‘کمیٹی بھی بن جائے گی اور کیا چاہیے؟یا پھر وہ ہو گا جو سانحہ ماڈل ٹائون کے اہم ملزم ایس پی سکیورٹی علی سلمان کے ساتھ ہوا جو گزشتہ روز ملک سے فرار ہو گیا۔ کیا اس کا نام ای سی ایل میں نہ تھا؟ اگر تھا تو پھر کس نے اس کے فرار میں مدد دی‘ کیا کبھی پتہ چل سکے گا یا اس پر بھی ایک کمیٹی بن جائے گی؟ کیا ہم اس بچے کو بھی بھول جائیں جسے گرین ٹائون کے ایک درندہ صفت نے زیادتی کے بعد پھانسی دے کر قتل کر دیا تھا۔ گزشتہ روز اس بچے کے والدین کو امدادی چیک دینے کی باقاعدہ سرکاری
تقریب سجائی گئی۔ پوری قوم نے دیکھا کہ انہیں پانچ لاکھ روپے کا چیک یوں تھمایا گیا جیسے انہیں ان کے بچے کے قتل پر پورا انصاف دیا جا رہا ہے۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ انہیں یہ بھی تنبیہ کی گئی کہ اسے اس وقت تک کیش نہ کرائیں جب تک ہم نہ کہیں۔ یعنی بچے کے دردناک قتل پر بھی سیاست اور چالاکیاں۔ یہ ملک ہے یا جنگل ؟
حکمران دس روز تک قوم کو پٹرول کا ناچ نچا تے رہے ۔ سنا تھا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ یہ اپنے عوام کی خوراک‘ بیماری‘ تحفظ اور آرام کا خیال رکھتی ہے۔ گزشتہ دس روز میں عوام کو جس قدر ذلیل کیا جا سکتا تھا‘ کیا گیا۔ اس کے بعد تو بس یہی صورت باقی بچتی تھی کہ عوام کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا جاتا۔ یہ اذیت عوام کو کس نے دی‘ کون اس کا ذمہ دار تھا‘ کس کو معلوم نہیں؟ وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی بدستور اپنے عہدے پر ہیں۔ ان کی سرزنش جنہوں نے کرنی تھی‘ وہ انہیں بچانے میں لگے
رہے۔ایکشن لے بھی لیا جاتا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا۔ عباسی صاحب کے ہاتھ سے وزارت جاتی۔ جب معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا تو انہیں اس سے بھی زیادہ پر کشش وزارت مل جاتی لیکن اس طرح حکمرانوں کی کچھ عزت رہ جاتی۔ شاہد خاقان عباسی کا حکمران خاندان سے خون کا رشتہ نہیں لیکن انہیں پھر بھی کچھ نہ کہا گیا۔ یہاں مجھے وہ ماں یاد آ رہی ہے جس کے بیٹے نے کراچی میں بھتہ نہ دینے پر فیکٹری سپر وائزرکو قتل کردیا تھا۔ گزشتہ دنوں جب یہ لڑکا پکڑا گیا تو ٹی وی پر اس کی فوٹیج چلی جسے دیکھ کر ماں نے پہچانا کہ یہ تو میرا لعل ہے۔ وہ دیوانہ وار اسے چومنے کے لئے ٹی وی سکرین سے لپٹ گئی لیکن جونہی اسے علم ہوا کہ اس کے بیٹے نے ایک شخص کا ناحق خون کیا ہے‘ وہ پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے پولیس کو فون کیا کہ ٹی وی پر دکھایا جانے والا مجرم اس کا سگا بیٹا ہے ۔چند برس قبل احمد نامی شخص آکر اس کے بیٹے کو اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ عبدالرحیم بھتہ خوری میں ملوث ہو چکا ہے۔ اس نے بتایا میرا خاوند ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے۔وہ محنت مزدوری کرکے جو لاتا ہے‘ اس سے میرا اور میری دو بیٹیوں کا گزارا ہوتا ہے۔یہاں ماں نے ایک ایسی بات کی اور ایسا سٹینڈ لیا جو ہر اس شخص کے منہ پر تھپڑ رسید کر گیا جو اپنے رشتہ داروں‘ اپنے دوستوں اور تعلق داروں کو قانون سے چھڑانے کی اس لئے کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ مجرم اس کا قریبی ہوتا ہے اور اسے فائدہ پہنچاتا ہے۔ ایک ماں کے لئے بیٹے سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہو گی۔ کون ماں نہیں چاہے گی کہ جس بوجھ کو وہ نو ماہ اٹھائے پھرتی رہی‘ جس کی پرورش کے لئے وہ راتوں کو جاگتی رہی‘ جس کی کلکاریوں سے گھر کا آنگن مہکتا تھا‘ جو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا ٹکڑا تھا‘آج وہ اسی دل کے ٹکڑے کو دیکھ کر اپنا منہ پھیر لے گی۔ وہ اپنا دل صرف اس لئے سخت کر لے گی کیونکہ اس کے بچے نے جرم کیا تھا۔ ماں کے الفاظ نے تاریخ رقم کر دی ۔بولی۔ میرا اپنے بیٹے عبدالرحیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پولیس اس کو قانون کے مطابق سزا دے کیونکہ وہ ایک مجرم ہے اسے سزاملنی چاہیے۔ کیا ہم اس قسم کے فیصلوں کی توقع اپنے حکمرانوں سے کر سکتے ہیں؟ حکمرانوں کو چھوڑیں‘ اپنی بات کریں۔ ہمارے بچوں سے معمولی سی غلطی سرزد ہو جائے تو ہم انہیں بچانے کی اس لئے کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے جگر کا ٹکڑا ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ انہوں نے کون سا جرم کیا ہے۔ کس کو مارا ہے ۔ کس کا حق چھینا ہے۔ بس یہ دیکھتے ہیں کہ اپنے بچے کو بچانا کیسے ہے۔ کون سا باپ چاہے گا کہ اس کا بیٹا تھانے میں رات گزارے یا جیل کی کال کوٹھڑی میں رہے۔ کس ماں کی خواہش ہو گی کہ اس کا بیٹا عمر قید یا پھانسی کے تختے تک پہنچ جائے۔ ہر کوئی اپنے بچوں کے لئے جائز ناجائز کی پروا کیے بغیر روزی کمانے میں لگا ہے۔کوئی یہ نہیں دیکھ رہا جو نوالہ وہ اپنے بچوں کو کھلا رہا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ بچوں سے محبت کیلئے ہر کوئی جان چھڑک رہا ہے تو پھر یہ ماں کون تھی؟ اس نے تو نبی ﷺ کے اس فرمان کی یاد تازہ کر دی جنہوں نے فرمایا تھا اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کٹوا دیتا۔
عبدالرحیم کی ماں نے کمال کر دیا۔ ہم انصاف کے لئے حکمرانوں‘منصفوں کی طرف دیکھتے رہ گئے اور عبدالرحیم کی ماں سب پر بازی لے گئی۔