فن لینڈ کا ایک تاجر گزشتہ ہفتے تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا جس پر پولیس نے اسے روکا اور اس کا چالان کر دیا۔ اسے کتنا جرمانہ کیا جائے ، یہ جاننے کے لئے حکام نے اس کی آمدنی کا تخمینہ لگانے کا فیصلہ کیا ۔ موصوف کے گزشتہ برس کے انکم ٹیکس کے گوشواروں کی چھان بین کی گئی ۔ان گوشواروں کے مطابق 2013ء میں رائم کوئسالہ کی آمدنی ساڑھے چھ ملین یورو تھی یعنی ساڑھے چار ملین پاؤنڈ سے زیادہ۔گاڑی تیز چلانے کی پاداش میں اس کی آمدنی کے مطابق اسے چون ہزار یورو یا ساٹھ لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا۔ فن لینڈ میں تیز رفتاری کے لیے جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں وہ آمدنی سے منسلک ہیں۔جرمانہ یومیہ اُجرت کے مطابق لیا جاتا ہے ۔یعنی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی آمدن جتنی زیادہ ہوگی جرمانہ بھی اتنا ہی زیادہ دینا ہوگا۔مسٹر کوئسالہ کو تیز رفتاری پر جرمانے کی سزا انتہائی سخت لگی اور انھوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ میں نے اس سے پہلے کبھی بیرون ملک رہائش کا نہیں سوچا تھا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ فن لینڈ زیادہ کمائی والوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے ۔تاہم سوشل میڈیا پر ان کے ہم وطنوں نے ان کی قطعی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ایک شخص نے لکھا کہ اگر آپ قانون نہیں توڑیں گے تو آپ کو کوئی جرمانہ نہیں بھرنا پڑے گا۔یہ بھی لکھا گیا کہ دولت مند تاجر کو شکایت کرنے کے بجائے اپنے کیے پرشرمندہ ہونا چاہیے ۔ایک اور نے لکھا کہ جرمانے کی چھوٹی رقوم امیروں کو قانون توڑنے سے نہیں روک سکتیں۔ امیروں کو بھی اتنی ہی تکلیف ہونی چاہیے جتنی کہ اس صورت میں کم آمدنی والوں کو ہوتی ہے ۔
اب آپ پاکستان کی صورتحال دیکھ لیجئے۔ یہاں جو جتنا امیر وہ اتنا کم ٹیکس دے رہا ہے اور جو جتنا غریب وہ اتنا ہی زیادہ۔ جہاں تک ٹریفک جرمانوں کی بات ہے تو لینڈ کروزر یا مرسڈیز کو اول تو روکا ہی نہیں جاتا اور روک لیا جائے اور کوئی دلیر اہلکار چالان کاٹ دے تو بعد میں متعلقہ شخص اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے الٹا اس آفیسر کی انکوائری کر ا دیتا ہے۔ اسی لئے ٹریفک پولیس کو حکم ہے کہ وہ بڑی گاڑیوں پر توجہ نہ دیں بلکہ موٹرسائیکلوں ‘رکشوں اور آٹھ سو سی سی کی گاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ نشانہ بنائیں کیونکہ ان لوگوں کی نہ تو کوئی زیادہ پہنچ ہوتی ہے‘ نہ ہی یہ زیادہ چوں چرا کر سکتے ہیں۔ ٹریفک اہلکاروں کو روزانہ بیس سے پچاس چالان لازماً کرنے کا ٹاسک ملتا ہے چنانچہ یہ لوگ چنگ چی رکشوں اور موٹرسائیکلوں کا شکار کرنا پسند کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بڑی بے رحمی سے پیش آتے ہیں۔
گزشتہ دنوں لاہور میں ایسے ہی ایک ٹریفک سارجنٹ نے ایک موٹرسائیکل سوار سے بدتمیزی کی اور چالان پر اس کے نام کی جگہ انسان ولد جانور لکھ دیا۔ ٹریفک اہلکاروں کی تربیت ہی اسی طرح کی گئی ہے کہ وہ عام لوگوں کو جانوروں کی طرح ٹریٹ کریں‘انہیں سر عام گالیاں دیں اور حسب ضرورت انہیں گھونسوں اور ٹھڈوں کا نشانہ بنائیں۔ یہ چلن صرف ٹریفک اہلکاروں تک محدود نہیں بلکہ ایک عام سرکاری ملازم سے لے کر ملک کے اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں تک سبھی انسانوں کو جانوروں کی طرح ہی ٹریٹ کرتے ہیں۔ آپ نابینا افراد کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ یہ لوگ تین ماہ قبل سڑکوں پر نکلے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ انہیں ملازمتوں میںمناسب کوٹہ دیا جائے ۔ مال روڈ پر پولیس والوں نے ان پر سرعام تشدد کیا کیونکہ وہ اس راستے کو بلاک کر رہے تھے جس سے چند ''انسانوں‘‘ نے گزرنا تھا۔ یہ معاملہ میڈیا میں نہ آتا تو کسی کو کچھ پتہ نہ چلتا لیکن شور مچنے پر وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لے کر ان کا کوٹہ دو سے تین فیصد کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان دیگر روایتی اعلانوں کی طرح ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گیا جس پر تین ماہ بعدنابینا افراد کو دوبارہ اپنے حق کے لئے سڑکوں پر آنا پڑا۔ یہ لوگ تین دن اور تین راتوں تک کھلے آسمان تلے پڑے رہے۔ اس دوران ان سے حکومتی شخصیات ملتی رہیں اور انہیں تسلیاں دلاسے بھی دیتی رہیں لیکن نابینا افراد کا موقف تھا کہ حکومت خالی وعدے اور اعلانات کرتی ہے۔ ہم جیسے ہی یہاں سے جائیں گے‘ حکومت پھر سے مکر جائے گی۔ یہ وہی موقف تھا جو تحریک انصاف نے دھرنے میں اپنایا تھا۔ عمران خان نے ببانگ دہل کہا تھا کہ جیسے ہی حکومت پر دھرنے کا دبائو ختم ہوا حکومت جوڈیشل کمیشن اور دیگر وعدوں سے صاف مکر جائے گی۔ تحریک انصاف نے پشاور سانحے پر اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے دھرنا ختم کیا لیکن حکومت بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام وعدوں سے پھر گئی۔حکومتیں کتنی بے رحم ہوتی ہیں آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جس وقت نابینا اپنے حق کے لئے پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرہ کر رہے تھے‘ اُسی وقت اسمبلی میں صوبائی ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی سفارشات پیش کی گئیں جو فوراً ہی منظور کر لی گئیں لیکن نابینائوں کے مطالبات فوری ماننے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ بھی چند فرلانگ کے فاصلے پر اپنے آفس میںلاہور کے ترقیاتی پروجیکٹس کی میٹنگز لیتے رہے لیکن نابینائوں کو بلا کر ان کی بات نہ سنی گئی۔ مجھے حکومت پر اتنا افسوس نہیں جتنا دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں‘تنظیموں‘ این جی اوز‘ سول سوسائٹیز اور عام لوگوں پر ہے۔ کیا ہم لوگوں کا اتنا ہی کام رہ گیا ہے کہ ہم ٹی وی پر ان نابینائوں کو سردی میں گرتے پڑتے‘ لاٹھیاں کھاتے اور ذلیل و خوار ہوتے دیکھتے رہیں۔ کیوں ہم میں سے کوئی ان کے پاس نہیں جاتا‘ ان کے مطالبات کے حق میں ان کا ساتھ نہیں دیتا ؟کیوں؟ چلو اسلام آباد دھرنے میں تو تحریک انصاف کا مفاد ہو سکتا ہے لیکن یہاں کیا تھا؟ کیا یہ نابینا افراد بھی کوئی سیاسی مقاصد لے کر آئے ہیں؟ کیا سول سوسائٹی کے دو تین ہزار افراد اگر ان نابینا افراد کے ساتھ مل کر احتجاج کریں تو حکومت پر دبائو نہیں بڑھے گا؟حکومت کی آپ کیا بات کرتے ہیں۔ گزشتہ روز خبر چلی کہ سانحہ پشاور کے شہیدبچوں اور سٹاف کو حکومت نے تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ بھی التوا کا شکار ہو گیا۔ حکومت نے یہ فیصلہ 24جنوری کو بھی کیا تھا لیکن اس کے بعد پھر معاملہ لٹک گیا۔ یہاں سے آپ دہشت گردی کی جنگ میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ شہیدوں اور ان کے وارثوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کر رہے ہیں تو نابینا اور عام افراد کو یہ انسان کیوں سمجھیں گے۔ آپ خود ہی بتائیں اگر حکمران پانچویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کے امتحانات ٹھیک طریقے سے نہ کراسکیں‘ نابینا افراد کو ان کا حق دینے کے لئے چھ چھ مہینے لگا دیں اور اپنا فائدہ ہو‘ تو چیئرمین نادرا کی تنزلی کے آرڈر رات دو بجے دفتر کھلوا کر بھی کر دئیے جائیںاور اپنا فائدہ ہو تو راتوں رات ارکان اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے بل بھی پاس کروا لیں‘ اور اگر حکمران اور حلیف سیاستدان سینیٹ کے الیکشن میں جیتنے کے لئے ارکان کو پچاس پچاس کروڑ روپے‘ لینڈ کروزریں‘ بیس بیس کنال کے کمرشل پلاٹ دے دیں لیکن ایک نابینا کو بارہ ہزار روپے کی مستقل نوکری نہ دے سکیں تو انسان ولد جانور کا لقب چالان کرانے والے غریب موٹرسائیکل سواروں اور عوام پر زیادہ فٹ آتا ہے یا اقتدار کے ان شاطر کھلاڑیوں پر؟
آخر میں ایک سوال :
لاہور میں ہارس اینڈ کیٹل شو کا افتتاح 5مارچ کو ہوا‘ اسی روز ہارس اینڈ کھوتا ٹریڈنگ فیم سینیٹ الیکشن منعقد ہوئے۔ دونوں میں فرق کیا تھا؟