سانحہ یوحنا آباد کے حوالے سے اعلیٰ پولیس افسران نے کیا شاندار وضاحت دی ہے کہ پولیس سانحہ ماڈل ٹائون دہرانے سے بچنا چاہتی تھی کیونکہ حکومت کی اجازت سے گولی چلانے والے پولیس افسر ابھی تک معطل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون اور سانحہ یوحنا آباد کو ملانا درست نہیں۔ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یوحنا آباد میں دہشت گردوں نے چرچ میں دھماکے کئے جس کے بعد مسیحی برادری مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئی۔ ماڈل ٹائون میں پہلا حملہ یا ایکشن پولیس کی طرف سے کیا گیاجس کے ردعمل میں لوگ باہر آئے۔ یوحنا آباد میں مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا جبکہ ماڈل ٹائون میں لوگوں نے پولیس یا نجی و سرکاری املاک پر پتھر تک نہ اٹھایا اور کسی کو مارنا تو درکنار خود چودہ لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے اور سو کے قریب زخمی اور اپاہج ہو گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان افسران کے مطابق ماڈل ٹائون میں اگر حکومت کی اجازت سے گولی چلائی گئی تو پھر وہ کون سی حکومتی شخصیات ہیں جنہوں نے گولی چلانے کے احکامات دئیے‘ یہ پولیس افسران ان کا نام کیوں نہیں لیتے۔ طاہر القادری کے گھر پر پولیس کا دھاوا بولنے کا حکم دینے والے ایس پی سکیورٹی سلمان علی بیرون ملک کیوں فرار ہوئے‘ کیوں انہوں نے کمیشن میں بیان ریکارڈ نہیں کرایا کہ انہیں یہ حکم کس نے دیا تھا۔ اگر انہیں ڈر تھا تو پھر وہ عدالت سے دن دہاڑے پولیس کی معیت میں فرار کیوں ہوئے۔ دوسری بات یہ کہ یوحنا آباد میں گولی چلانے کے لئے حکومت کی اجازت لینے کا سوال کہاں سے پیدا ہو گیا اور کیا گولی
چلائے بغیر مشتعل افراد کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا؟ شام کو رینجرز کی پانچ گاڑیاں آئیں اور پانچ منٹ میں وہاں ماحول ایسا ہو گیا جیسے یہاں تشدد کا کوئی واقعہ پیش ہی نہ آیا ہو۔ کیا رینجرز نے آ کر وہاں گولیاں چلائی تھیں جو چند منٹوں میں امن ہو گیا؟ سوشل میڈیا میں ہزاروں تصاویر میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل مظاہرین کی اکثریت نوعمر لڑکوں پر مشتمل تھی جبکہ سات آٹھ سال کے سینکڑوں بچے بھی احتجاج میں واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔جلائے جانے والے افراد کو جب سڑکوں پر گھسیٹا گیا تو ان کے اردگرد بچے یوں جمع تھے جیسے گلی ڈنڈے کا کھیل کھیلا جا رہا ہو۔ تاہم اتنے کم عمر کے بچے بھی پولیس کے قابو میں نہ آئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون ایک طے شدہ منصوبے کے تحت برپا ہوا۔ خواجہ سعد رفیق اور کئی دوسرے لیڈر طاہر القادری کی وطن واپسی سے قبل کئی پریس کانفرنسوں میں علی الاعلان کہہ چکے تھے کہ قادری صاحب وطن واپس تشریف لائیں‘ ہم نے ان کے ''شاندار‘‘ استقبال کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ وہ تیاریاںقوم نے دیکھ لیں جن کا ذکر ان تند و تیز پریس کانفرنسوں میں تواتر کے ساتھ کیا گیا۔ حکومت اور پولیس دو افراد کو جلانے والوں کے خلاف تو کارروائی کا ارادہ ظاہر کر رہی ہے اور اس سلسلے میں ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے سولہ افراد کو پہچان لیا گیا ہے جن میں سے چھ سزا یافتہ مجرم ہیں لیکن نہ حکومت نہ اعلیٰ پولیس افسران‘ کوئی اس نکتے
پر غور نہیں کر رہا کہ ان دو بے گناہوں کو کیوں پکڑا گیا اور جنہوں نے پکڑ کر ہجوم کو دے دیا‘ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی۔ جس وقت چرچ میں دھماکہ ہوا حافظ نعیم اور نعمان بابر اس علاقے میں موجود تھے۔ پولیس جو دھماکے کے بعد وہاں پہنچی تھی‘ اپنی عادت کے مطابق موقع پر موجود افراد کو مشتبہ سمجھ کر گرفتار کر لیا۔ یوحنا آباد میں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے نہ ہی مسلمان علاقوں میں مسیحیوں کا۔ دونوں ایک دوسرے کے علاقوں میں آتے جاتے ہیں‘ اکٹھے کاروبار اور نوکریاں کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتے ہیں‘ اردگرد کی سینکڑوں فیکٹریوں میں ہزاروں مسیحی کام کرتے ہیں لیکن کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا لہٰذا پولیس کا صرف شک کی بنیاد پر دو باریش نوجوانوں کو پکڑنا کہ یہ مسلمان ہیں اور موقع پر موجود ہیں‘ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلی غلطی پولیس سے ہوئی اور یہی غلطی دونوں کی دردناک ہلاکت کا باعث بنی۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ پولیس نے ان دونوں کو تھپڑ اور گھونسے مارتے ہوئے پولیس کی گاڑی میں جا پھینکا۔ یہ مناظر ویڈیو میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب شور پڑا تو پولیس اہلکاروں نے یہی ظاہر کیا کہ یہ مشکوک افراد تھے اور چرچ کے اردگرد موجود پائے گئے تھے۔ اس پر وہاں موجود مسیحی جو پہلے ہی مشتعل تھے‘ جتھوں کی شکل میں اکٹھے ہوئے اور پولیس کی گاڑی کی طرف پل پڑے۔ اگر پولیس نے انہیں گرفتار کر ہی لیا تھا تو فوراً وہاں سے نکال کر پولیس سٹیشن لے جاتی‘ گاڑی میں بٹھائے رکھنا دوسری سنگین غلطی تھی ۔ جب مظاہرین نے پولیس کی گاڑی پر دھاوابولا تو پولیس نکل کر ایک طرف ہو گئی اور دونوں افراد بپھرے ہوئے ہجوم کے ہتھے چڑھ گئے۔ وہ کتنی دیر انہیں گاڑی کے اندر ہی مارتے رہے ۔ اس دوران میں پولیس ہوائی فائرنگ کر سکتی تھی‘ مزید کمک بلا سکتی تھی‘ واٹر کینن سے ہجوم پر پانی پھینکا جا سکتا تھا‘ آنسو گیس استعمال کی جا سکتی تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی کام نہ کیا گیا۔ یہ سانحہ ماڈل ٹائون کی بات کرتے ہیں۔ وہاں تو کسی پولیس افسر کو خراش تک نہ آئی۔ مظاہرین نے پولیس پر گولی نہیں چلائی‘ کسی کو زخمی نہیں کیا‘ اگر کیا تھا تو پولیس اس کی فوٹیج دکھا دے۔ البتہ پولیس نے جس طرح بوڑھوں کے سر پھاڑے‘ انہیں سڑکوں پر گھسیٹا اور گولیاں ماریں‘ یہ سب آن ریکارڈ ہے۔ جبکہ یوحنا آباد میں مظاہرین میٹروسٹیشن کو توڑتے رہے‘ دکانوں اور کولڈ ڈرنک کے ٹرک لوٹتے رہے ‘ سڑک بلاک کر کے گاڑیوں پر حملے کرتے رہے لیکن پولیس کو یہ سب نظر نہ آیا۔ یہ اسے ماڈل ٹائون سے ملاتے ہیں۔ وہاں تو گلو بٹ پولیس کی سرپرستی میں گاڑیاں توڑ رہا تھا اور ایس پی ماڈل ٹائون اسے گلے مل کر شاباش دے رہا تھا۔ماڈل ٹائون مکمل طور پر یکطرفہ میچ تھا جو پولیس نے حکومت کی شہ پر کھیلا اور جیتا جبکہ یوحنا آباد میں پولیس نے خود مظاہرین کو کھل کھیلنے کا موقع دیا اور اب یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ماڈل ٹائون میں گولیاں چلا کر پھنس گئے تھے لہٰذا یہاں ہاتھ روکے رکھا۔ میں باقی افسران کے بارے میں تو نہیں جانتا لیکن ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف جیسے لوگوں کی موجودگی میں بھی پولیس کی یہ کارکردگی ہے تو پھر یہ ان کا قصور نہیں بلکہ ان حکمرانوں کا ہے جو ڈاکٹر صاحب جیسے گنے چنے قابل افسران کو کھل کر کام نہیں کرنے دیتے۔ یہی افسر جب خیبر پختونخوا جاتے ہیں تو شاندار کارکردگی دکھاتے ہیں لیکن یہاں انہیں روبوٹ بنا لیا جاتا ہے۔ اگر رینجرز نے ہی ہر جگہ حالات کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے تو پھر پولیس کی کیا ضرورت ہے۔ حکومت نے تو پولیس کو سیاسی دبائو سے آزاد کرنا نہیں لہٰذا اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ پولیس کو براہ راست رینجرز جیسے ادارے کے نیچے لایا جائے‘ اس کی ٹریننگ سے لے کر آپریشنز تک کی نگرانی یہی ادارہ کرے ‘ حکمران اپنی سکیورٹی کے لئے ذاتی سکیورٹی گارڈز رکھیں جیسے عوام نے رکھے ہوئے ہیں‘ ٹرانسفر‘ پوسٹنگ ‘ تنزلی اور ترقی کے تمام تر اختیارات حکومت سے دُور رکھے جائیں اور پولیس کی سکاٹ لینڈ یارڈز کی طرز پر تعمیر نو کی جائے تاکہ اس کا قبلہ درست ہو‘ یہ واقعی عوام کی حفاظت کرنے والی فورس بنے اور جس طرح رینجرز کے آنے پر یوحنا آباد اور ملک کے دیگر حصوں میں یکدم سکون ہو جاتا ہے‘ پولیس بھی اس قابل ہو جائے کہ اس کی ہیبت سے جرائم پیشہ عناصر کی دوڑیں لگیں‘ نہ کہ عوام کی۔