لکھنا تو وزیراعلیٰ شہباز شریف کے اس تازہ بیان پر تھا کہ ''پنجاب پولیس نے کبھی کسی بے گناہ کو ہتھکڑی نہیں لگائی‘‘ کہ یہ بیان بذات خود ایک لطیفہ بھی ہے اور اس حقیقت کا آئینہ دار بھی کہ پولیس اور سیاستدانوں کے درمیان تعلقات کس قدر مضبوط ہیں‘ پولیس سنگین جرائم کرنے کے باوجود بھی ہمیشہ باعز ت کیوں بری ہو جاتی ہے اور کیوں یہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ ماڈل ٹائون سانحہ اس کی ایک مثال ہے کہ جس میں پولیس نے واقعی بے گناہوں کو ہتھکڑیاں نہیں لگائیں بلکہ حاملہ خواتین سمیت بزرگوں کو سیدھا منہ پر گولیاں ماریں۔ اس پر ستم یہ کہ دوسری جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ میں حکمران بری ہو گئے اور جن چند پولیس والوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا وہ بھی ایک خانہ پری تھی جو جلد بے گناہ ثابت ہو جائیں گے۔ فی الوقت مانچسٹر برطانیہ سے شاہد عمران صاحب کا خط ملاحظہ فرمائیے جو ایک سرکاری ہسپتال میں پیش آنے والے دردناک واقعے پر مبنی میرے گزشتہ کالم ''آخر کیوں‘‘ کے حوالے سے لکھا گیا۔
''محترم جناب عمار چوہدری صاحب! آج آپ کا کالم ''آخر کیوں؟‘‘ پڑھنے کے بعد بے اختیار دل چاہا کہ آپ سے رابطہ کیا جائے۔ میرا تعلق ڈسکہ ضلع سیالکوٹ سے ہے آج کل برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں رہا ہوں ۔ عمران غازی اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ہونے والے تکلیف دہ سلوک پر ہم صرف کڑھ سکتے ہیں یا دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک مرحومہ کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آج آپ سے رابطہ کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کے ذریعے حکمرانوں اور پاکستانیوں کو بتا سکوں کہ ''کافروں‘‘ کے اس ملک برطانیہ میں ہم کتنی اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں قدم قدم پر ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم واقعی انسان
ہیں اور ہماری بھی کوئی قدرو قیمت ہے۔ میں آپ کو کچھ واقعات ایسے بتانا چاہتا ہوں کہ جس سے یہاں کے شعبہ طب کے بارے میں آگاہی ہو سکے۔ ایک اور بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ہمارے دل اب بھی پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ جو کچھ آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں اسے قطعاً یہ نہ سمجھا جائے کہ برطانیہ آ کر میرا دماغ خراب ہو گیا ہے اور وطن کی محبت ہوا ہو چکی ہے۔
تقریباً چار سال قبل میری بیٹی‘ جو اس وقت تقریباً دو سال کی تھی‘ میری اہلیہ کے ساتھ ایک جاننے والے کے ہاں گئی اور وہاں کھیلتے ہوئے اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلدان گر کر ٹوٹ گیا۔ میری بیٹی نے جلدی میں اس گلدان کے ٹوٹے ہوئے حصے پکڑنے کی کوشش کی جس سے ہاتھ زخمی ہو گیا۔ میں اس وقت کام پر تھا لہٰذا اہلیہ فوراً بیٹی کو لے کر ہسپتال پہنچی اور مجھے بھی اطلاع کر دی۔ میرے پہنچنے سے پہلے ابتدائی طبی امداد دی جا چکی تھی اور ایکسرے کا انتظار ہو رہا تھا۔ ایکسرے کے لیے میں اپنی بیٹی کے ساتھ گیا اور جب میں نے زخم کی گہرائی دیکھی تو میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی ۔ خیرایکسرے کے بعد ہمیں ایمرجنسی میں بھیج دیا گیا۔ ایک سینئر ڈاکٹر چند نرسوں کے ساتھ ہمارے پاس آیا اور بتانے لگا کہ آپریشن کرنا پڑے گا اور اس کے لیے بیٹی کو بے ہوش کرنا ہو گا۔ میری اہلیہ جو اس وقت کافی پریشان تھی ڈاکٹر سے کہنے لگی کہ میں آپ کو اتنی چھوٹی بچی کو بے ہوش کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس میں خطرے کی کوئی بات نہیں۔ میں ایک دن کے بچے کو بے ہوش کر کے بھی کامیاب آپریشن کروا چکا ہوں۔ میری اہلیہ نے پھر بھی کہا کہ آپ کو کوئی دوسرا طریقہ ڈھونڈنا پڑے گا کیونکہ میں اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ جب کافی بحث و تمحیص کے بعد بھی میری اہلیہ کی کسی طرح تسلی نہ ہوئی تو اس ڈاکٹر نے کنسلٹنٹ کو فون کیااور ہمیں بتایا کہ کنسلٹنٹ اگلے دن صبح آ کر ہمیں ملے گا اور ہمارے سوالوں کے تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کرے گا لیکن اگر پھر بھی ہماری تسلی نہ ہوئی تو بادل نخواستہ انہیں آپریشن کرنا پڑے گا اور ریاست اس کی ذمہ داری قبول کرے گی۔ دوسرے معنوں میں ریاست بچی کے فائدے میں آپریشن کی اجازت دے گی کیونکہ یہ اس کی جان بچانے اور زخم مندمل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگلے دن کنسلٹنٹ ہمارے پاس آئی اور تفصیل کے ساتھ سب کچھ سمجھایا۔ یہاں میں یہ بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کنسلٹنٹ نے صرف آپریشن کے ایک حصے کی نگرانی کرنا تھی جو مریض کو بے ہوش کرنے اور بے ہوشی کے دوران اس امر کو یقینی بنانے کے متعلق تھا کہ سارا آپریشن ٹھیک طریقے سے مکمل کیا جا سکے ۔اس کنسلٹنٹ کے نیچے ایک ڈاکٹر اور تقریباً چار نرسیں صرف بے ہوشی کے عمل کو سرانجام دینے کے لیے موجود تھیں جبکہ آپریشن کرنے والا عملہ الگ تھا۔کنسلٹنٹ کے جانے کے بعد سرجن ہمارے پاس آیا۔ وہ میری بیٹی کی تمام ابتدائی رپورٹس کا مطالعہ کر چکا تھا۔ اس نے ہمیں زخم کی گہرائی سے آگاہ کیا اور آپریشن کے دیگر پہلوئوں پر روشنی ڈالی جس کے بعد ہم نے اجازت نامے پر دستخط کر دیئے۔ آپریشن کے بعد سرجن دوبارہ ہمارے پاس آیا اور بتایا کہ آپریشن بالکل ٹھیک ہو گیا ہے نیز اس نے آپریشن کے بعد کی احتیاطی تدابیر سے بھی ہمیں آگاہ کیا۔
دوسرا واقعہ جو میں یہاں درج کرنے جا رہا ہوں ہو سکتا ہے آپ کو اس پر یقین نہ آئے لیکن یہ بھی سچا واقعہ ہے۔ میری چھوٹی بیٹی کو شدید بخار نے آ لیا اورہم اسے لے کر بھاگم بھاگ ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچے۔ ڈاکٹر جب اس کا چیک اپ کر رہی تھی تو اس دوران میری بیٹی (جو اس وقت ایک سال کی تھی) نے اپنی نیپی خراب کر دی۔ ہم اس وقت حیران رہ گئے جب ڈاکٹر نے ہمارے ساتھ باتیں کرتے کرتے درازسے نیپی نکالی‘ کچھ وائپس لیے‘ اسے صاف کیا اور نئی نیپی پہنا دی۔ اس نے ایک لمحے کو بھی کراہت محسوس نہیں کی اور نہ ہی ناک بھوں چڑھائی۔ یہاں تک کہ اس نے ہمیں یہ بھی نہیں کہا کہ اسے صاف کر کے واپس لائیں‘ میں پھر چیک کروں گی۔ کیا اس کا تصور آپ پاکستان کے کسی سرکاری یا نجی ہسپتال میں کر سکتے ہیں؟
اسی طرح جب میری بیٹی کی پیدائش ہوئی تو ڈلیوری کے دوران عملے کی کوتاہی سے ہمیں کافی کوفت کا سامنا کرنا پڑا تاہم الحمدللہ کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن پھر بھی اس کوفت کی وجہ سے ہم نے ہسپتال کے شعبہ شکایات کے نام سرسری سی شکایت کی ای میل کر دی ۔ ای میل بھیجنے کے چند سیکنڈ بعد ہی ایک جوابی ای میل موصول ہوئی کہ ہمیں آپ کی شکایت موصول ہو گئی ہے ہم اسے پڑھنے کے بعد آپ سے رابطہ کریں گے۔ دو دن بعد شعبہ شکایات کے سربراہ کی ای میل موصول ہوئی۔ مجموعی طور پر وہ ایک معذرت خواہانہ ای میل تھی۔ ہماری کوفت پر انہوں نے معافی مانگی اور آئندہ خدمات کو بہتر بنانے کی یقین دہانی کرائی۔ نیز انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اگر ان کے اس تحریری معافی نامے سے ہم مطمئن نہیں تو ہم عدالت میں جا سکتے ہیں۔ ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ معاملے کو یہیں ختم کر دیا جائے۔ اصل مقصد تو اربابِ اختیار کے نوٹس میں لاناتھا تاکہ دیگرلوگوںکو اس کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے لہٰذا ہم نے ایک جوابی ای میل شکریے کے ساتھ روانہ کر دی۔
اس طرح کے بیسیوںواقعات گوش گزار کیے جا سکتے ہیں۔ برطانیہ میں یہ تمام طبی سہولتیں مفت دستیاب ہیں۔ ہم نے ان کے لیے ایک ٹکہ بھی نہیں خرچ کیا‘ اس کے باوجود ہم یہاں اعلیٰ معیار کی خدمات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران بھی خدا کا خوف کریں اور بڑے بڑے منصوبوں کے ساتھ عوام کی طبی ضروریات اور صحت عامہ کے لئے بھی پیسہ اور وقت نکالیں۔خیر اندیش ‘محمد شاہد عمران ‘ مانچسٹر ‘برطانیہ۔‘‘
یہ خط پڑھنے کے بعد اندازہ لگائیے کہ جو حکمران اپنے ملک سے علاج نہیں کراتے‘ یہاں کا پانی نہیں پیتے‘ یہاں کی ادویات استعمال نہیں کرتے‘ یہاں کا کپڑا نہیں پہنتے‘ وہ لندن اور استنبول سے میٹروبسوں کے کھلونے تو لے آتے ہیں لیکن وہاں کے ہسپتالوں جیسے ہسپتال یہاں نہیں بناتے۔ کیوں؟کیوں کہ ان سے بھاری کک بیکس اور تگڑے کمیشن نہیں ملتے۔ سوال پھر وہی ہے کہ دنیا میں یہ جتنے مرضی ظلم ڈھا لیں‘عوام کو چاہے یہ سسک سسک کر مرنے پر مجبور کرتے رہیں‘ ملنا تو انہیں بھی نان برینڈڈ کفن اوردو ضرب چھ فٹ کا گڑھا ہی ہے‘ وہاں یہ کیاکریں گے؟