جیسے جیسے 11 مئی کے الیکشن کی تاریخ قریب آ رہی تھی‘ مسلم لیگ نون کی تشہیری مہم میں روزانہ یہ جملہ استعمال ہورہا تھا کہ اجالوں یا اندھیروں کا فیصلہ کرنے میں اتنے دن باقی ہیں۔گیارہ مئی کو عوام نے فیصلہ سنا دیا اور نون لیگ کی حکومت بنے دو سال مکمل بھی ہو چکے لیکن اندھیروں اور اجالوں کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ اس سے قبل اس جماعت کے رہنمائوں کے بیانات آن ریکارڈ ہیں جن میں کبھی چھ ماہ تو کبھی دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کئے جاتے رہے۔ ایک بار تو جوش خطابت میں خادم اعلیٰ کے منہ سے یہ نکل گیا کہ ہم دو سال میں بجلی ہی ختم کر دیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ یہی لوگ اب کہہ رہے ہیں کہ صرف تین سال اورصبر کرلو‘ اگلے الیکشن سے ایک دو ماہ قبل لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ اگلے الیکشن سے قبل سسٹم میں بجلی کہاں سے آئے گی یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ پاکستان میں زیادہ تر بجلی تیل‘ پانی اور گیس سے پیدا ہوتی ہے۔ سولر ُ کوئلے اور ہوا سے بجلی کا تناسب بہت کم ہے۔ لوڈشیڈنگ اس لئے ہوتی ہے کہ حکومت تیل سے بجلی پیدا کرنے والے نجی پاور پلانٹس کو مکمل ادائیگی نہیں کرتی ‘حکومت ان کے پیسے نیچے لگائے رکھتی ہے اور یہ بجلی نیچے لگا لیتے ہیں۔ چونکہ لوڈشیڈنگ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے چنانچہ اسے کیش کرانے کے لئے حکمران کچھ سرمایہ ایک طرف رکھ لیتے ہیں اور جیسے ہی الیکشن قریب آتے ہیں‘ آئی پی پیز کو اتنی ادائیگی کر دی جاتی ہے کہ وہ الیکشن تک چند ہفتوں کے لئے بجلی کی سپلائی میں تعطل پیدا نہیں کرتے۔ یہ پاور سٹنٹ زرداری صاحب اور وزیراعظم نواز شریف دونوں نے استعمال کیا۔ زرداری صاحب نے اپنے دور کے آخر میں اور میاں صاحب نے اپنے دور کے آغاز میں۔ وزیراعظم نے آتے ہی گردشی قرضوں کے نام پر چار پانچ سو ارب روپے کی ادائیگی کی جس پر چند ہفتوں کے لئے لوڈشیڈنگ کم ہو گئی۔ جیسے ہی گردشی قرضے اور ادائیگیاں بڑھیں‘ لوڈشیڈنگ واپس آ گئی۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حکمران اور بیوروکریسی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے‘ ان کی سوچ پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں لوڈشیڈنگ ختم کرنا کون سی مشکل بات ہے کہ جب اسی دور میں درجنوں ممالک میں لوگ گھریلو سطح پر بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت بھی کر رہے ہیں۔کل اخبار میں ایک نوجوان کی تصویر چھپی تھی جس نے سولر رکشہ بنایا تھا۔ رکشے کی چھت پر سولر پینل نصب تھے اور یہ مکمل طور پر مفت چلتا تھا۔ یہی خبر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی گئی تو وہاں پر یہ کمنٹس دئیے گئے کہ اس نوجوان کو غائب کر دیا جائے گا۔ بعض طاقتیں ایسے لوگوں کو آگے نہیں آنے دینا چاہتیں جو اس قسم کی ایجادات کے ذریعے بجلی کے متبادل ذرائع کا استعمال کریں اور عوام کی مشکلات کم کریں۔ اس سے ظاہر ہے پٹرول کی بچت ہو گی اور ایسا اگر بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا تو پٹرولیم کمپنیاں کیا کریں گی۔ جو مگرمچھ مال کھا رہے ہیں ان کے پیٹ کیسے بھریں گے۔ایسے ہی بہاولپور کے ایک نوجوان شفیق اقبال جس نے سولر اور بائیو فیول میں بے انتہا کام کیا‘ اسے طرح طرح سے ٹارچر کیا گیا۔ بالآخر یہ شخص دل کا مریض بن گیا اور اب بمشکل اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔لوگوں کو حیرت ہو گی کہ اس نوجوان کو امریکہ سے بھی آفر ہوئی لیکن اس نے ملک میں رہ کر ملک کے لئے کام کرنے کو ترجیح دی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ تیل سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی اجارہ داری اور اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہو چکا کہ کوئی بھی حکمران اس طرح کا قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جو بھی ہائیڈل یعنی پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنائے گا‘ یہ آئی پی پیز اکٹھے ہو کر دیوار کھڑی کر دیں گے۔ ہائیڈل بجلی پیدا ہو گئی تو کھربوں کی سرمایہ کاری کرنے والے ان آئی پی پیز کو کون پوچھے گا۔ آپ اپنے بجلی کے بلوں میں درج کئی عشروں سے نیلم جہلم سرچارج دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ ہوتا تو چند پیسے ہے لیکن یہ برسوں سے ہر صارف سے لیا جا رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس رقم سے نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ مکمل کیا جائے اور اس سے سستی بجلی غالباً نو روپے فی یونٹ پیدا کی جائے۔ یہ پراجیکٹ 1989ء میں شروع کیا گیا اور اسے ایک سو تیس ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا جانا تھا۔ یہ لاگت آج 274 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ پراجیکٹ آج سے دس برس پہلے مکمل ہونا تھا لیکن یہ ابھی تک تکمیل کے بنیادی مراحل سے ہی نہیں گزر سکا۔ کیوں؟ کیونکہ یہی آئی پی پیز اس طرح کے پراجیکٹس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اتنے طاقتور ہیں کہ جنرل مشرف جیسے فوجی لیڈر کی کوشش کے باوجود انہیں کالاباغ ڈیم بنانے میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر حکمران عوام سے سچ کیوں نہیں بولتے۔ یہ کیوں انہیں نہیں بتاتے کہ ہمارے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں اور ہم یہ جھوٹے وعدے صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ کیا کسی سیاستدان میں اتنی اخلاقیات اور اتنی جرأت ہے کہ وہ عوام کے سامنے آئے اور سچ بول سکے؟ اتنی ہمت اور جرأت کسی میں نہیں ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ جو کام یہ کر سکتے ہیں وہ بھی نہیں کئے جاتے۔ میں چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ لیسکو کی قانونی دستاویزات میں درج ہے کہ جو میٹر ریڈر ریڈنگ لینے گھر یا دکان وغیرہ میں جائے گا وہ مالک مکان یا کرائے دار کو ریڈنگ کارڈ دکھائے گا‘ اس پر مالک مکان کے دستخط لے گا اور دونوں موقع پر یہ دیکھیں گے کہ آیا جو ریڈنگ نوٹ کی جا رہی ہے وہ میٹر سے کسی طرح مختلف تو نہیں۔چند روز قبل وزیرمملکت عابد شیر علی نے کہا کہ میٹر ریڈر اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے لہٰذا خواتین میٹر ریڈر بھرتی کریں گے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ جو پہلے بندے بھرتی کئے ہیں آپ انہیں کیوں سیدھا نہیں کرتے۔ کیوں سرکاری اداروں میں ایسے قوانین نہیں بنائے جاسکتے کہ جو بندہ ٹھیک کام نہیں کر رہا ‘اس کا احتساب کیاجا سکے۔ جب حکومت ان کی‘ سینیٹ ان کی‘ تو پھر یہ اتنے لاچار کیوں؟خواتین والا تجربہ بھی ناکام جائے گا کہ یہ اتنا نرم و نازک کام نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ جو بجلی چوری کر رہا ہے وہ اتنی آسانی سے جینوئن میٹر ریڈنگ کیسے کرائے گا۔ جس ملک میں پولیو کے قطرے پلانے والی غریب خواتین ورکرز کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہو وہاں لاکھوں کروڑوں کی بجلی چوری کرنے والے کیسے سکون سے بیٹھیں گے۔یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے۔ جو حکمران لیسکو واپڈا میں موجودہ قوانین پر عمل نہیں کرا پا رہے انہوں نے کیا تیر مار لینا ہے۔ اب عابد شیر علی فرماتے ہیں کہ ملک بھر میں ستر ہزار ٹرانسفارمر تبدیل ہونے والے ہیں۔وزیر موصوف بتائیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ نئے ٹرانسفارمر بجلی کے عالمی معیارات کے مطابق ہی بنائے اور لگائے جائیں گے۔ کیونکہ ابھی تک تو حالت یہ ہے کہ جیسے ہی درجہ حرارت پینتالیس ڈگری سے اوپر جاتا ہے‘ جیسے ہی لوڈ بڑھتا ہے گرڈ سٹیشنزا ور ٹرانسفارمر ٹرپ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس تکنیکی سامان اور آلات کی چیکنگ کرنے والوں کو رشوت یا دبائو کے ذریعے خرید لیا جاتا ہے اور گھٹیا میٹریل سپلائی کر کے کروڑوں بنا لئے جاتے ہیں ۔گزشہ برس میں نے سکھر گرڈ سٹیشنز پر ایسے ہی آلات کی سپلائی کا ایک سکینڈل لکھا تھا لیکن کس کو فرق پڑتا ہے۔ سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ واپڈا اور این ٹی ڈی سی میں نوے فیصد بھرتیاں سیاسی ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے سیاستدان اور جاگیردار خود بجلی چور ہیں۔ واپڈا میں افسروں نے خود نجی کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں۔ یہ خود ہی گھٹیا مال بناتے ہیں اور خود ہی ٹینڈر منظور کر کے سپلائی کرتے ہیں۔ اس سارے گھن چکر میں اگر نقصان کسی کا ہوتا ہے تو اس ملک اور اس کے عوام کا ہوتا ہے۔ خود ان سب کے گھروں میں بیس بیس لاکھ کے جنریٹرز لگے ہوئے ہیں‘ زیادہ تر نے ہسپتالوں کو جانے والی خصوصی لائنوں سے بجلی حاصل کر رکھی ہے تو پھر انہیں اس مسئلے سے کیا لگے۔ کرپشن کا عالم یہ ہے کہ کشمور میں تعینات ایک لائن سپرنٹنڈنٹ ندیم شاہ کروڑ پتی بن گیا ہے۔اس نے سیکڑوں ایکڑ زمین خرید لی ہے اور لینڈ کروزر میں گھومتا ہے۔ اس کے بارے میں عابد شیر علی فرماتے ہیں کہ ہم نے اسے تبدیل کیا تو وہ کورٹ سے حکم امتناعی لے کر آ جاتا ہے۔ اب جہاں وزیرمملکت اپنے ماتحت ادارے کے ایک معمولی سے افسر کے حوالے سے اتنا بے بس نظر آئے‘ وہاں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوئوں پر کون اور کیوں یقین کرے گا؟
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا