مستعصم باللہ بغداد کا آخری عباسی خلیفہ تھا۔اسے سونے چاندی اور ہیرے جواہرات جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ریاست کتنی کمزور پڑ چکی ہے‘ اس کی دفاعی صورتحال کیسی ہے‘ معیشت اور فوج کا بیڑہ کس قدر غرق ہو چکا ہے ‘ اسے کوئی پروا نہ تھی۔ عوام کے ساتھ کیا بیت رہی ہے‘ وہ کس حال میں ہیں ‘کس طرح گزارا کر رہے ہیں‘ اس کی ریاست میں کون بھوکا سوتا ہے‘ کون بیمار ہے اور کون کس مشکل میں مبتلا ہے‘ ان باتوں سے اس کا کوئی لینا دینا نہ تھا۔ 1258ء میں جب ہلاکو خاں نے بغداد کا رخ کیا اور اسے تہس نہس کر دیا تو مستعصم باللہ روپوش ہو گیا۔ اسے گرفتار کیا گیا تو اس کی حالت فقیروں سے بھی بدتر تھی۔ بال مٹی سے اَٹے اور چہرہ دُھول میں گم۔ ہلاکو خان مستعصم سے خوب واقف تھا۔ اس نے مستعصم کو کئی روز بھوکا رکھنے کا حکم دیا۔ چند روز بعد جب اسے ہلاکو خان کے سامنے پیش کیا گیا تو مستعصم باللہ بھوک سے بلبلاتے ہوئے بولا: مجھے کچھ کھانے کو دو۔ ہلاکو خان نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا جس کے بعد مستعصم کے سامنے ایک تھال سجا دیا گیاجو ایک خوبصورت کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔ مستعصم کے ہاتھ بیڑیوں سے بندھے تھے۔ اس نے ہاتھ آگے کرنے کی کوشش کی اور چیختے ہوئے بولا ‘ میرے ہاتھ تو کھول دو‘میں کھائوں کیسے؟ جیسے ہی اس کے ہاتھ کھولے گئے وہ تیزی سے کھانے پر جھپٹا۔جب اس نے طشتریوں سے رومال اٹھائے تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کے نیچے لذیذ پکوانوں اور مشروبات کی جگہ ہیرے جواہرات پڑے تھے۔ مستعصم جو کئی دنوں کی بھوک کی وجہ سے نڈھال تھا اور
چڑچڑا ہو چکا تھا‘ روتے ہوئے بولا۔ یہ کیا؟ یہ کھانا تو نہیں ہے۔ مجھے کھانا دو‘ میں بھوک سے مر رہا ہوں۔ یہ سن کر ہلاکو خان نے کہا کہ کھائو انہیں۔ اگر تم ہیرے جواہرات جمع کرنے کی بجائے ایک مضبوط فوج بناتے‘ اگر تم ریاست کا دفاع مضبوط کرتے‘ اسے سیاسی‘دفاعی اور معاشی سطح پر مستحکم کرتے تو آج تمہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اس کے بعد ہلاکو خان کے حکم پر مستعصم باللہ جس قالین پر بیٹھا تھا‘ اُسی قالین میں اُسے لپیٹ دیا گیا‘ پھر اس قالین پر گھوڑے دوڑائے گئے اور کچھ ہی دیر میں وہ گھوڑوں کے پیروں تلے مسلا گیا۔
چند روز قبل فیس بک پر کسی نے سابق صدر زرداری کے اثاثے اور بینک اکائونٹس کی تفصیلات شیئر کیں۔ خدا جانتا ہے اس میں کتنا سچ اور کتنا مبالغہ تھا‘ لیکن یہ تفصیلات کئی صفحات پر محیط تھیں۔ ایسی ہی خبریں حکمران خاندان اور چودھری پرویز الٰہی کے حوالے سے بھی انٹرنیٹ پر گھومتی رہتی ہیں کہ جن کو پڑھ کر دماغ مائوف ہونے لگتا ہے کہ اگر اس میں سے دس فیصد بھی سچ ہے تو یہ اتنی زیادہ دولت ہے جو اس ملک میں آ جائے تو اس سے نہ صرف تمام قرضے اُتر جائیں بلکہ صحت‘ تعلیم‘ روزگار جیسے بنیادی مسائل بھی حل ہو جائیں۔ ان میں سے جو بھی حکمران بنا ‘ اس کی پوری کوشش رہی کہ زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کیا جائے۔ ملک کے ساتھ کیا ہوتا ہے‘ اس کے دفاع اور اس کی معیشت کا کیا بنتا ہے‘ یہ سوچنے کی زحمت کسی نے نہ کی۔ شکر ہے کہ پاک فوج کا ادارہ ان سیاستدانوں کے ہاتھوں سے محفوظ ہے‘ اسی لئے ملکی دفاع بھی مضبوط ہے اور ہم رات کو سکون کی نیند بھی سو جاتے ہیں لیکن ان سیاستدانوں کو جب بھی موقع ملتا ہے‘ یہ اپنی فوج ‘ اپنے دفاع پر بھی وار کرنے سے نہیں چُوکتے۔ چند روز قبل زرداری صاحب جس طرح اس ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کر رہے تھے‘ اسے دیکھ کر کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ صاحب پاکستان کے صدر اور اس کی فوج کے سپریم کمانڈر رہ چکے ہیں۔ زرداری صاحب سے چند روز قبل یہی زبان نریندر مودی بول رہے تھے۔ تو پھر دونوں میں فرق کیا ہے؟ وہ بھارت سے پاکستان میں وار کرتے ہیں اور یہ اپنے ملک کے ہو کر اسے نوچنے میں لگے ہیں۔ کیا کسی کو آج شوکت عزیز یاد ہے۔ یہ شخص پانچ برس پاکستان کا وزیراعظم رہا۔ یہ بریف کیس پکڑ کر پاکستان آیا اور بریف کیس اٹھا کر چلاگیا۔ کوئی کیوں نہیں پوچھتا کہ یہ واپس اس ملک کا رخ کیوں نہیں کرتا۔ اس طر ح کے وائسرائے ساٹھ ستر برس بعد بھی اس ملک پر حکومت کریں گے‘ کیا قیام پاکستان کے وقت کسی کو اندازہ تھا۔ آپ حکمرانوں کو چھوڑیں‘ اس وقت عام سیاستدانوں سے لے کر عام اشرافیہ کے ایک کھرب روپے سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔ یہ رقم اتنے ہی حلال طریقے سے کمائی گئی ہے تو پھر اسے ملک میں کیوں نہیں رکھا گیا۔ آج حکمران ترکی‘ اور چین کے دورے کرتے ہیں اور اربوں کی سرمایہ کاری پاکستان لانے پر بغلیں بجاتے ہیں لیکن اپنا سرمایہ بیرون ملک رکھا ہوا ہے۔چلیں مستعصم باللہ تو بہت پرانی بات ہے‘ کیا یہ صدام حسین‘ معمر قذافی جیسے لیڈروں سے بھی سبق نہیں سیکھ سکتے جو چند برس قبل تک انہی کی طرح جاہ و جلال اور عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر جس طرح انہیں پابند سلاسل کیا گیا اور جس طرح ان کی جان لی گئی‘ اس میں بھی انہیں کوئی عبرت نظر نہیں آتی۔
ہم کیوں دیوار سے لگ چکے ہیں‘ ہمیں دنیا کیوں اگنور کرتی ہے اس کا ایک پہلو اور بھی ہے اور یہ پہلو ہماری انا پرستی ہے۔ ہم مخلوق خدا کے لیے نہیں‘ صرف اپنے لیے سوچتے‘ اپنے لیے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ تجارت‘ معیشت اور صنعت سازی کا دوسرا مطلب دوسروں کو خوشیاںدینا‘ سہولتیں فراہم کرنا اور دنیا کے لیے آسانیاں پیدا کرنا بھی ہے۔ ہم نے مشہور فلسفی ابن طفیل کی یہ بات بھی نظر انداز کر دی کہ کائنات کی ہر چیز دوسروں کے لیے ہے‘ درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتا‘ دریا اپنا پانی خود نہیں پیتا‘ سورج اپنی حرارت خود نہیں سمیٹتا‘ پھول اپنی خوشبو خود نہیں سونگھتا اور یہ بہاریں‘ یہ برساتیں اور یہ نغمے سب دوسروں کے لیے ہیں لیکن ہم عجیب لوگ ہیں‘ ہم وہ درخت ہیں جو اپنا پھل کسی کو کھانے نہیں دیتے؛ چنانچہ ہمارا پھل گل سڑ کر ایک روز ٹہنی سے گرجاتا ہے اور کیڑے مکوڑے بھی اسے منہ لگانے کو تیار نہیں ہوتے‘ ہم وہ دریا ہیں جو اپنا پانی خود پی سکتا ہے نہ ہی کسی مچھلی‘ کسی بگلے اور کسی پودے کو اپنا حلق تر کرنے کے لیے اپنا ایک قطرہ دینے کو تیار ہے؛ چنانچہ ہم اور ہمارا پانی کائی اور دلدل بنتے جا رہے ہیں‘ہم وہ سورج ہیں جو کسی کو حرارت اور روشنی نہیں دیتا ہم اپنے دامن میں روشنی اور دنیا میں اندھیرا دیکھنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ ہماری روشنی ہمارے بھی کسی کام نہیں آتی اور ہم مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہونے کے سوا کچھ نہیں کر رہے اور ہم وہ پھول ہیں جو کسی کو خوشبو تک دینے پر آمادہ نہیں‘ جو اپنی خوبصورتی پر ناز کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتا؛ چنانچہ خزاں کے ساتھ ہی ہم سوکھ کر کانٹا ہو جاتے ہیں اور خشک پتوں اور مٹی کے درمیان مسلے جاتے ہیں۔ ہم اتنا بھی نہیں سمجھ سکے کہ وہ قومیں کبھی عزت کروا سکتی ہیں نہ ترقی کی منزل پا سکتی ہیں جو صرف لینا جانتی ہیں‘ دینا نہیں ۔ اگر ہم اور ہمارے حکمران اسی طرح مال و دولت کی حرص میں مبتلا رہے‘ ہمارے حکمرانوں نے مستعصم باللہ کی طرح ہیرے جواہرات اور ڈالر جمع کرنے کی طمع جاری رکھی اور اگر خود کو دفاعی اور معاشی لحاظ سے مضبوط نہ کیا تو کسی دن کوئی ہلاکو خان اِدھر بھی آئے گا اور کہے گا‘ کھائو اپنے یہ ڈالر‘ یہ ہیرے‘ یہ جواہرات!