پندرہ سال قبل تک میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں داخلہ خالصتاً ایف ایس سی میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر ملتا تھا۔ پھر نہ جانے ارباب اختیار کو کیا سوجھی کہ راتوں رات فیصلہ کیا‘ آئندہ میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلے کے لئے صرف ایف ایس سی کا رزلٹ کافی نہیں ہو گا بلکہ تمام طلبا کو انٹری ٹیسٹ کے پل صراط سے بھی گزرنا ہو گا۔ یہ فیصلہ طلبا‘ والدین اور اساتذہ کی مشاورت کے بغیرکیا گیا چنانچہ آج تک اس کے نتائج طلبا اوران کے والدین بھگت رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جس نے ایف ایس سی میں جان مار کر دو سال سخت محنت کی ‘وہ پچانوے فیصد نمبر حاصل کر کے بھی میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں اس وجہ سے داخل نہ ہو سکا کہ اس کے نمبر انٹری ٹیسٹ میں کم تھے۔ اس پر طلبا اور والدین نے متعدد بار احتجاج بھی کیا لیکن اس قسم کے شریفانہ احتجاجوں کو کون پوچھتا ہے۔ ذرا ملاحظہ کریں کہ انٹری ٹیسٹ تشکیل کیسے پاتا ہے۔ مستقبل کے معماروں کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا‘ یہ آپ بھی دیکھ لیجئے۔ انٹری ٹیسٹ کے ابتدائی سالوں میں امتحانی پرچے ایف ایس سی اور اے لیول کے کورسز سے بنائے جاتے تھے جن میں طلبا کو پزل کرنے کا پورا اہتمام ہوتا۔ یعنی ایک بچہ جس نے ایف ایس سی پڑھی ہی نہیں‘ اسے اس میں سے سوالات دے دئیے گئے اور جس نے اے لیول نہیں کیا‘ اس کے سامنے اے لیول سے سوالات تیار کر کے رکھ دئیے گئے۔ معاملہ یہیں تک رہتا تو بھی ٹھیک تھا لیکن جب ایف ایس سی اور اے لیول دونوں کے علاوہ کسی اور نصاب سے سوالات انٹری ٹیسٹ میں ڈالے جانے لگے‘ تو طلبا اور والدین کی برداشت جواب دے گئی ۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پرچے تک آئوٹ ہونے لگے جس پر کئی طالب علموں نے یہ پرچے عدالت میں پیش کر دئیے۔پرچے آئوٹ ہونے والے کیس میں بعض ایسے اداروں کے نام بھی آئے جو انٹری ٹیسٹوں کی تیاری کراتے
تھے۔ بالآخر طلبا کا احتجاج اور تگ و دو رنگ لائی اور 2008ء میں انٹری ٹیسٹ کے نظام میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئیں۔ سب سے اہم یہ کہ ایف ایس سی اور اے لیول کے طلباء کے لیے امتحانی پرچہ جات علیحدہ علیحدہ بنائے گئے اور اس بات کی سختی سے ہدایت کی گئی کہ انٹری ٹیسٹ کے پرچہ جات پڑھائی گئی ٹیسٹ بکس کے اندر سے ہی تیار کیے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبا کو اکیڈمیوں کے اخراجات سے نجات مل گئی اور ان کا وقت بھی بچ گیا۔ بہت سے غریب طلباء کو اس کا فائدہ ہوا کہ انہوں نے کسی اکیڈمی میں داخلہ لئے بغیر تیاری کی اور انٹری ٹیسٹ میں اچھے نمبر لے کر داخلہ کے مستحق ٹھہرے۔ خصوصاً جنوبی پنجاب کے طلباء کا 2008ء سے 2010ء تک بڑی تعداد میں ایم بی بی ایس میں داخلہ ہوا۔ اس سے قبل یہ طالب علم اکیڈمی مافیا اور سرکار کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم تھے۔ ان کے علاقوں میں ویسے بھی ایسی اکیڈمیاں برائے نام تھیں۔ جو موجود تھیں‘ انہیں افورڈ کرنا ہر کسی کے بس میں نہ تھا۔ تاہم خوشی کا یہ ماحول جلد ہی کافور ہو گیا جب 2011ء میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (UHS) نے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرانے والے اداروں کی ملی بھگت سے دوبارہ ایف ایس سی اور اے لیول کے کورسز کو ملا کر ایک سلیبس تیار کیا۔ اس سلیبس میں کچھ عنوانات ایسے ہیں جن کا ایف ایس سی کے کورسز میں کہیں ذکر نہیں یا صرف نام کی حد تک ذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2011ء سے انٹری ٹیسٹ کے پرچہ جات میں کچھ MCQS ایسے ہوتے ہیں جن کے جوابات ایف ایس سی کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ 2011ء سے پہلے داخلے کے میرٹ کا فارمولا کچھ اس طرح تھا
کہ ایف ایس سی میں حاصل کردہ نمبروں کے 70 فیصد اور انٹری ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبروں کے 30 فیصد نمبر شمار کئے جاتے تھے۔ لیکن 2011ء اور اس کے بعد سے نیا فارمولا رائج ہو چکا ہے جس کے مطابق انٹری ٹیسٹ کے 50 فیصد‘ ایف ایس سی میں رزلٹ کے 40 فیصد اور میٹرک کے نمبروں کے 10 فیصد نمبر شمار کر کے ایم بی بی ایس میں داخلہ کا میرٹ بنتا ہے۔ یہ فارمولا جس کسی تیس مار خان نے بنایا‘ اس نے یہ تک نہیں دیکھا کہ وہ امتحان جس میں طلباء و طالبات سات مضامین کی تیاری کرتے ہیں، دو سال میں دو مرتبہ امتحان میں شرکت کر کے بارہ دن امتحان دیتے ہیں، اس کا داخلے میں حصہ تو صرف 40 فیصد ہے اور وہ انٹری ٹیسٹ جس کا دورانیہ صرف سوا دو گھنٹے ہے اور جس کا کورس بھی انتہائی مختصر ہے اس کا حصہ یا وزن 50 فیصد شمار کیا گیا ہے۔ اس جناتی فارمولے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرانے والے اداروں‘جن کا زیادہ تعلق لاہور سے ہے‘کی مانگ بڑھ گئی ہے اور ظاہر ہے اس فارمولے کے پیچھے جو ذہن اور نیت کارفرما تھی‘ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس نئی صنعت کو فروغ دیا جائے تاکہ مجبور والدین کا جیب‘ پسینہ اور خون نچوڑنے کا بھرپور اہتمام کیا جا سکے۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ جنوبی پنجاب کے طلباء و طالبات متاثر ہوئے ہیں۔ ایف ایس سی کے دو سال میں ان کے اتنے اخراجات نہیں ہوتے جتنے انہیں 40 دن کی انٹری ٹیسٹ کی ٹیوشن فیس وغیرہ کے طور پر کرنے پڑتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے ساتھ ہر حکومت کو خاص قسم کی محبت رہی ہے۔ ایسے انٹری ٹیسٹ اس محبت میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ چلیں وہاں میٹرو منصوبے نہ بنیں تو ان کاکام چل سکتا ہے۔ وہ عام بسوں میں سفر کر کے گزارا کر سکتے ہیں۔ وہاں انڈر پاس نہ بنیں تب بھی کوئی گلہ نہیں کہ کسی چوک چوراہے میں ایک دو منٹ زیادہ انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن لاہور میں بیٹھے ہوئے بابو جب اس طرح کے فیصلے اور پالیسیاں لائیں گے توجنوبی پنجاب کے ان لوگوں کی مایوسی اور محرومیاںمزید بڑھیں گی جو چاہتے ہیں ان کے بچے بھی ڈاکٹر انجینئر بن کر قوم کی خدمت کر سکیں۔ انٹری ٹیسٹ کے نئے نئے فارمولے لا کر کمزور طبقے کے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے سے محروم کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ آپ چاہے ان کے حصے کا بجٹ اٹھا کر لاہور پر لگا دیں لیکن کم از کم وہاں کے بچوں کو تعلیم و ترقی میں برابر ی کا حق تو دیں۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں ہم نے دہشت گردی ختم کرنی ہے اور جنوبی پنجاب دہشت گردوں کا خاص مسکن ہے تو دوسری طرف آپ ان علاقوں کو مسلسل نظر انداز بھی کر رہے ہیں اور ان کی محرومیوں کو اس حد تک بڑھا رہے ہیں کہ دو وقت کی روٹی بھی ان کے لئے وبال جان بن گئی ہے۔ جب پڑھے لکھے نوجوان کے ساتھ ایسا ہو گاتو پھر وہ اپنے غم کو مٹانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرے گا ‘اس کی مثالیں ہمارے درمیان موجود ہیں کہ دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ہاتھ نکلا۔ جب آپ ان کے لئے سارے راستے بند کر دیں گے تو ان کی توانائیاں کہیں نہ کہیں تو صرف ہوں گی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور ہر الیکشن میں آپ کو ووٹ دے کر آپ کو اربوں کھربوں کے وسائل لوٹنے پر لگا دیں اور خود کو کسی کھونٹے سے باندھ چھوڑیں۔ نوجوانوںکو جب بھی حقوق دینے کی باری آتی ہے‘ تو انہیں لیپ ٹاپ کا لولی پاپ تھمادیا جاتا ہے۔ نون لیگ کی حکومت نوجوانوں لو پیلی ٹیکسیاں دے کر ڈرائیور بنا کر خوش ہے۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس قسم کی سکیموں سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ یہ تو اچھے بھلے پڑھے لکھے نوجوانوں کو پڑھائی چھڑوا کر ڈرائیوری پر لگانے والی سکیمیں ہیں۔ کرنے والا کام تو یہ تھا کہ ہائر ایجوکیشن کو مشرف دور کی طرح فعال کیا جاتا جس کی وجہ سیایسے ایسے لوگوں کو بھی پی ایچ ڈی کرنے کا موقع ملا جو خواب میں بھی ایسا نہیں سوچ سکتے تھے۔ لیکن یہاں تو سوچ بسوںاور انڈرپاسوں کی تعمیر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
اس سارے مسئلے کا حل یہی ہے کہ ایم بی بی ایس میں داخلہ کے لیے فوری طور پر پرانا فارمولا بحال کیا جائے، یعنی ایف ایس سی کے 70 فیصد اور انٹری ٹیسٹ کے 30 فیصدنمبروں پر داخلہ کا میرٹ بنایا جائے۔ انجینئرنگ کے داخلہ میں ابھی تک یہی فارمولا رائج ہے ۔ امتحانی پرچہ جات ایف ایس سی اور اے لیول کے کورسز سے علیحدہ علیحدہ بنائے جائیں۔ سلیبس غیر مبہم انداز میں نہ بنایا جائے بلکہ واضح طور پر ایف ایس سی کی کتابوں کے ابواب کے نمبر بتا دیئے جائیں۔ اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ کوئی بھی سوال آئوٹ آف سلیبس نہ ہو۔ ایف ایس سی کے امتحانات جونہی ختم ہوںـ‘ ایک ہفتہ کے اندر اندر انٹری ٹیسٹ لے لیا جائے تاکہ تمام طلبا انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرانے والے اداروں کے بھاری اخراجات اور بلیک میلنگ سے بچ سکیں۔ حکمرانوں کو میٹروبسوں کے کھلونوں سے کھیلنے سے کچھ فرصت ملے تو اس طرف بھی توجہ دیں کہ یہ نوجوانوں کے مستقبل کا سوال ہے۔