مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔
بچانے والا تو یقینا اللہ ہے لیکن یہ مارنے والا کون ہے‘ یہ میںآپ کو بعد میں بتاتا ہوں۔ پہلے گزشتہ روز جو واقعہ پیش آیا وہ سن لیجئے۔
منگل کی دوپہر لاہور میں اچھرہ کے نزدیک ایک بلند عمارت میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ عمارت میں دکانوں اور دفاتر کے علاوہ رہائشی اپارٹمنٹس بھی ہیں چنانچہ جولوگ چند منٹ قبل تک ہنستی بستی زندگی گزار رہے تھے‘ قیامت خیز لمحات نے ان کے اوسان خطا کر دئیے۔ جنریٹر یا شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ نے چند ہی منٹ میں پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ کا دھواں عمارت کے کمروں اور راہداریوں میں گھستا چلا گیا۔عمارت کا اندرونی ٹمپریچر جو آگ لگنے سے قبل پچیس سے تیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا‘ چند لمحوں میں ساٹھ ڈگری تک چلا گیا۔ اس درجہ حرات پر پانی بھی کھولنے لگتا ہے۔ جو لوگ نیچے والے فلورز پر تھے وہ تو فوراً باہر نکل گئے لیکن چوتھے اور اس سے اوپر کے فلورز والے لوگ وہیں پھنس گئے۔ آکسیجن کی کمی اور دھوئیں کی وجہ سے سانس لینا اور دیکھنا مشکل ہو چکا تھا چنانچہ راستہ ڈھونڈنا ممکن نہ رہا۔ عمارت کی ہنگامی سیڑھیاں نہ ہونے کے باعث ہر کوئی اپنے اپنے فلیٹ اور دفتر میں مقید ہو گیا۔ سبھی لوگ فیروزپور روڈ کی جانب کھلنے والی کھڑکیوں کی جانب لپکے اور باہر منہ نکال کر مدد طلب کرنے لگے۔ پانچویں فلور پر ایک دفتر میں چار نوجوان آگ کی تپش سے جھلس رہے تھے۔ آگ اس دفتر کے قریب ہی کسی حصے میں لگی تھی چنانچہ یہاں کا ٹمپریچر ناقابل برداشت حد کوپہنچ چکا تھا۔ انہوں نے
جس کھڑکی کو تھام رکھا تھا وہ بھی آہستہ آہستہ پگھل رہی تھی۔ان چاروں کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ وہ ریسکیو کا انتظار کریں اور اس کے انتظار میں آگ میں جھلس کر مر جائیں یا پھر نیچے کود جائیں۔ مزید چند منٹ انتظار کے بعد ایک نوجوان سے رہا نہ گیا ‘ اس نے اپنے بیوی بچوں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں یاد کیا ‘کلمہ پڑھا اور پانچویں منزل سے کود گیا۔ گرتے ہی اس کی ہڈیاں چٹخیں‘ سر سے خون کا فوارا پھوٹا اور چند ہی لمحوں میں ساکت ہو گیا۔ اس کا انجام دیگر تین نوجوان دیکھ چکے تھے لیکن آگ آہستہ آہستہ انہیں بھی لقمہ بنا رہی تھی۔ چنانچہ ایک ایک کر کے باقی تینوں نے بھی کلمہ پڑھا اور چھلانگ لگا دی۔ یہ تینوں نوجوان بچ تو گئے لیکن انہیں سر اور جسم پر شدید چوٹیں آئیں۔ ان تین کو فوری طور پر سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا ۔ ان میں سے ایک کا نام حافظ بلال احمد ہے جو میرے قریبی عزیز ہیں۔ اطلاع ملنے پر میں ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچا تو سامنے عجیب منظر میرا منتظر تھا۔ ایک بڑا ہال تھا۔ اس میں تیس چالیس بستر تھے۔ ہر بستر پر دو مریض لیٹے تھے۔ اے سی تو دُور کی بات پنکھے تک بند تھے۔ میں نے بلال کو دیکھا۔ سر سے پائوں تک خون آلود تھا۔ سر ‘ بازو اور ٹانگوں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ ٹانگوں اور بازوں کی ہڈیاں کئی جگہ سے ٹوٹ گئی تھیں۔ سر پر شدید ضرب آئی تھی جس کے لئے سی ٹی سکین فوری طور پر ضروری تھا۔ سی ٹی سکین کروانے
گئے تو معلوم ہوا کہ مشین کئی برس سے خراب ہے۔ مریض کے بھائیوں نے جب ڈاکٹرز سے دو تین بار پوچھا تو وہ زبان اور دست رازی پر اُتر آئے۔ دو تین مرتبہ ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ مریض کی جان کا مسئلہ تھا۔ ہم نے جناح ہسپتال جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں کی سی ٹی سکین مشین صحیح کام کر رہی تھی۔ ہم نے لامہ والے کاغذ پر سائن کئے جس کا مطلب تھا ہم مریض کو اپنی مرضی سے لے جا رہے ہیں اور اگر اسے راستے میں کچھ ہوا تو یہ ہسپتال ذمہ دار نہ ہو گا۔ میں نے سوچا جس ہسپتال میں چھ برس سے سی ٹی سکین مشین ہی نہیں ہے وہ پہلے کون سا ذمہ داری دکھا رہا ہے۔ ہم ایمبولینس میں مریض کولے کر باہر نکلے تو جیل روڈ کی کھدائی کی وجہ سے رش میں پھنس گئے۔ خادم اعلیٰ کے حکم پر اربوں روپوں سے اسے سگنل فری کرنے کے لئے دن رات ایک کیا جا رہا تھا۔ کوئی دو گھنٹے بعد ہم جناح ہسپتال پہنچے۔ یہاں سی ٹی سکین تو ہو گیا لیکن آپریشن کا مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ بازو کا آپریشن تو یہاں ہو جائے گا‘ ٹانگ کا آپریشن کہیں اور سے کروانا پڑے گا کیونکہ یہاں متعلقہ ٹیکنالوجی والی امیج مشین موجود نہیں۔ مریض کو بار بار آپریشن کیلئے بے ہوش کرنا مناسب نہ تھا اس لئے مشورے سے یہی طے پایا کہ ایک ہی بے ہوشی میں دونوں آپریشن مکمل ہو جائیں۔کسی مہربان نے مشورہ دیا کہ انہیں گھرکی ہسپتال لے جائیں‘وہاں ہر طرح کی جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے اور بہترین سرجن بھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نہایت قابل ڈاکٹر عامر عزیز کے ہوتے ہوئے وہاں علاج کے بارے فکر مند نہیں ہونا پڑے گا۔ چنانچہ ایک رات جناح ہسپتال کے وارڈ میں رہنے کے بعد اگلی صبح مریض کو گھرکی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں مریض آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمش میں ہے۔
اب تک آپ اندازہ لگاچکے ہوں گے کہ بچانے والا تو یقینا اللہ ہے لیکن اس کیس میں مارنے کی کوشش کرنے والا کون ہے۔ وہی جس نے پلازہ تو کھڑا کر دیا لیکن اس سے نکلنے کے ہنگامی راستے نہ بنائے۔ وہ سرکاری ادارہ جس نے اس پلازے کو کلین چٹ دی‘ دوسری ذمہ داری اس کی تھی۔تیسرے نمبر پر ریسکیو والے تھے جو تاخیر سے پہنچے۔ جن کے پاس ابھی تک ساتویں منزل سے بلند سیڑھیاں اور ہوا والے فوم موجود نہیں جن پر بلندی سے چھلانگ لگا کر بچا جاسکتا ہے۔ وہ ہسپتال جہاں مریض کو لے جایا گیا تو دماغ کی کیفیت جانچنے والی سی ٹی سکین مشین تک موجود نہ تھی۔ جہاں کے حالات گھوڑوں کے اصطبل سے بھی بدتر تھے۔ پھر اگلا ہسپتال جہاں ایک آپریشن ہو سکتا تھا‘ دوسرا نہیں۔ یہ سب کیا ہے۔ کیا ہم سب پاگل ہیں اور حکمران عقلمند ہیں۔ ایک طرف اربوں روپے کی رنگ برنگی بسیں چل رہی ہیں‘ دوسری طرف ہسپتالوں میں چند کروڑ کی مشینیں نہ ہونے سے لوگ کیڑوں کی طرح مر رہے ہیں۔معاشرے سے شاید خدا کا خوف اُٹھ گیا ہے۔ہمارے یہ ''مہربان‘‘ حکمران کبھی بھیس بدل کر کسی سرکاری ہسپتال میں جائیں اور دیکھیں کس طرح لوگ مریض عورتوں کو کندھے پر اٹھا کر ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ میں جا رہے ہیں۔ کس طرح دھکے کھا رہے ہیں۔ نہ ادویات ہیں‘ نہ مشینیں‘ نہ معیاری لیبارٹریاں‘ نہ کوئی سیدھے منہ بات سننے والا ۔ رہے ڈاکٹر تو وہ بھی آستین چڑھا کر لڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ بھی سچے ہیں کہ ان کے پاس ہتھیار ہو گا تو وہ علاج کریں گے۔ یہ وقت بھی آنا تھا کہ لوگ پانچویں منزل سے گر کر بھی بچ رہے ہیں لیکن سرکاری ہسپتال انہیں مارنے پر تُلے ہیں۔کیسے ہو سکتا ہے کہ اس صورتحال سے وزیراعلیٰ لا علم ہوں۔ اگر وزیراعلیٰ یہ جانتے ہیں کہ جیل روڈ کو سگنل فری کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ جلد منزل پر پہنچ جائیں تو انہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ سرکاری ہسپتالوں میں لوگوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہو رہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو بغیر پروٹوکول اور طے شدہ دورے کے جا کر دیکھ لیں۔ ایک میٹرو بس کی قیمت میں جدید سی ٹی سکین مشین آ جاتی ہے تو پھر عوام اور مریضوں کے ساتھ یہ ظلم کیوں؟ کیا عوام کے خادم ایسے ہوتے ہیں؟