ایسے چمتکار صرف پاکستان جیسے ممالک میں ہی ہو سکتے ہیں۔
جس دن قومی ہیلتھ سکیم کا اعلان ہوا‘ اگلے ہی روز اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں اس سکیم کے تحت تین مریض نہ صرف داخل ہو گئے بلکہ دو شفایاب ہو کر گھر بھی چلے گئے۔ میں نے یہ تینوں مریض سرکاری خبرنامے میں دیکھے۔ یہ تینوں جس طرح اس پروگرام کی تعریف کررہے تھے ‘ اس سے واضح معلوم ہو رہا تھا کہ ان کے پلک جھپکتے میںہیلتھ کارڈ کیسے بنے‘ وہ کیسے بیمار ہوئے‘ یہاں کیسے پہنچے اور انٹرویو کے بعد وہ فوراً یہاں سے کیسے روانہ ہو جائیں گے۔ جس ملک میں شناختی کارڈ بنوانے کے لئے انسان کو کئی کئی دن دھکے کھانے پڑیں‘ خود کو پاکستانی ثابت کرنے کیلئے طرح طر ح کے ثبوت پیش کرنے پڑیں‘ وہاں ہیلتھ سکیم کا اعلان ہونے کے بعد چند گھنٹوں میں تین مریضوں کے کارڈ بن جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ ایسے معجزے اسلام آباد کے بابو بڑی آسانی سے کر دکھاتے ہیں۔ اگر یہ کچھ نہیں کرتے تو جینوئن درخواست گزاروں کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ آپ یوتھ لون سکیم کو ہی دیکھ لیں۔ اس کے فارم کے حصول سے لے کر جمع کرانے تک نوجوانوں کو اتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ وہ درمیان میں ہی یہ خیال چھوڑ جاتے ہیں۔ بینکوں میں کوئی معلومات تک دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہم نیتوں کی بات نہیں کرتے۔ نیتوں کا حال خدا جانتا ہے لیکن یہ درست ہے کہ نیشنل ہیلتھ پروگرام عوام کی بنیادی ترین ضرورت تھی۔ سنگاپور ‘ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملک میں کروڑوں لوگ ایسے پروگراموں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہاں اس کا کیا حال ہوتا ہے‘ یہ چند ہفتوں میں پتہ چل جائے گا۔ وزیراعظم نے پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب کسی کو علاج کے لئے اپنے گھر کا
سامان بیچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ جملہ بہت جذباتی تھا۔ وزیراعظم نے واقعی لوگوں کے دلوں پر ہاتھ رکھا ہے۔ ہر دوسرا شخص آئے روز ایسی صورتحال سے گزرتا ہے کہ اسے اپنے کسی پیارے کیلئے گھر کا سامان تک فروخت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سستی روٹی سے لے کر آشیانہ سکیم اور یوتھ لون سے کسان پیکیج تک جہاں ہر سُو شکوک و شبہات اور کرپشن اور نااہلی سے بھری داستانیں بکھری ہوں‘ کیا وہاں اس طرح کے چند جذباتی جملے مریضوں کو شفا دے سکیں گے؟ کہا گیا‘ پروگرام سے دو لاکھ افراد استفادہ کریں گے اور ابتدا میں چند ضلعے مستفید ہوں گے۔ چلیں مان لیا۔ کسی بھی اچھے اور بڑے کام کی ابتدا اسی طرح ہوتی ہے۔ یہ واقعی نہیں ہو سکتا کہ یکایک یہ پروگرام پورے ملک میں لاگو کر دیا جائے۔ پہلے یہ چند اضلاع میں کامیاب ہو جائے تو اس کا دائرہ کار آہستہ آہستہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ مگر یہ تو لوگوں کو بتایا جائے کہ اس سکیم کی اہلیت بھی کہیں حکمران جماعت سے قربت تو نہیں بن جائے گی؟ بیمار تو ہر بندہ ہوتا ہے اور خطرناک اور مہنگی بیماریاں مثلاً بائی پاس اور کینسر وغیرہ کا علاج امیر سے امیر کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ تو پھر ایسا طریقہ کار کیا ہو گا کہ جس کے تحت لوگوں کو اس سکیم کے تحت رجسٹر کیا جائے اور ان کا علاج شروع کیا جائے۔ میں یہ سوال اس لئے اٹھا رہا ہوں کہ ؔحکومت سکیموں کا اعلان تو جلد بازی میں کر دیتی ہے لیکن لانچ کرنے کے بعد عملدرآمد کا سلسلہ آتا ہے تو بھگدڑ سی مچ جاتی ہے۔
کچھ دن پہلے کسان پیکیج لانچ ہوا۔ اس بارے میں یہ اطلاعات آئیں کہ اس میں من پسند لوگوں کو نوازا جا رہا ہے۔ پانچ ایکڑ کی بجائے دو ایکڑ کی ادائیگی کی جا رہی ہے لیکن کھاتے میں پانچ ایکڑ لکھے جا رہے ہیں۔وزیراعظم بیوروکریسی پر انحصار کر کے فیتہ کاٹ دیتے ہیں اور بیوروکریسی سارے پیکیج کو ہی جڑ سے کاٹ دیتی ہے۔ جب ناکامیاں سامنے آتی ہیں تو اس وقت تک کوئی نئی سکیم سامنے لائی جا چکی ہوتی ہے یوں لوگ نیا دھوکہ کھانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سکیم ظاہر ہے آسمان پر نہیں نافذ ہونی۔ انہی شہروں کے عوام ہوں گے‘ یہی بیوروکریسی ہو گی جو انہیں اہل یا نااہل کرے گی اور یہی ہسپتال ہوں گے جہاں نہ ہی وافر ڈاکٹر اور دیگر عملہ میسر ہے‘ نہ علاج کے لئے مشینیں دستیاب ہیں۔ آپ لاہور جیسے شہر کے صرف دو ہسپتالوں چلڈرن ہسپتال اور پی آئی سی کو دیکھ لیں‘ اگر حکومت اتنے عرصے سے یہاں علاج کی مفت اور جدید سہولتیں فراہم نہیں کر سکی تو ہیلتھ سکیم کے تحت علاج کن ہسپتالوں میں ہو گا؟ ۔ اسی طرح سندھ اور جنوبی پنجاب میں وینٹی لیٹرز کی کمی سے آئے روز بچے مر رہے ہیں۔چلڈرن ہسپتال میں خناق کے انجکشن کی کمی سے بچوں کی اموات آپ آئے روز دیکھ ہی رہے ہیں۔یہاں دل کے سوراخ یا دیگر مرض والے بچوں کو کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال کا وقت ملتا ہے۔ ہسپتال کے روح رواں ڈاکٹر مسعود صادق نے مجھے خود بتایا تھا کہ وہ خود اس صورتحال کو دیکھ کر کڑھتے ہیں کہ جب رحیم یار خان سے ایک غریب خاندان چل کر آتا ہے اور ہم اسے مجبوراً چار سال بعد کی آپریشن کی تاریخ دیتے ہیں ۔یہ جھٹکا اس سے کہیں بڑا ہوتا ہے جو والدین کو اپنے بچے کی بیماری سے پہنچتا ہے۔ سینکڑوں بچے باری کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہی حال پی آئی سی کا ہے۔ یہاں دو سو بیڈز پر مشتمل نئی ایمرجنسی بننے جا رہی ہے لیکن خالی ایمرجنسی تو کافی نہیں‘ جب تک انجیو گرافی ہی فوری نہیں ہو گی کہ جو علاج کا تعین کر سکے اور جس کے لئے سات آٹھ ماہ کا وقت دیا جاتا ہے تو مریض کے یہاں آنے کا فائدہ؟
ہیلتھ سکیم دیکھنی ہے تو سنگاپور کی دیکھئے ۔ سنگاپور میں صحت کا نظام لازمی بچت‘سبسڈیز اور قیمتوں کے توازن کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے سات طرح کی سکیمیں چل رہی ہیں۔ ہر شہری کی تنخواہ سے کچھ حصہ کاٹا جاتا ہے جو بعد میں اْس کے اور اس کے بیوی بچوں کے علاج معالجے کے کام آتا ہے۔ مریض علاج کے لئے اپنی مرضی سے کسی بھی ہسپتال کا انتخاب کر سکتا ہے۔ میڈی فنڈ سکیم اس غریب اور کم آمدنی والے طبقے کے لئے ہے جو علاج کی بڑی رقم افورڈ نہیں کر سکتے اور نہ ہی تنخواہوں سے مسلسل کٹوتی کرواسکتے ہیں۔ سنگاپور میں ہر علاقے میں مقامی سرکاری کلینکس قائم ہیںجہاں علاج معالجے کی بنیادی سہولیات ملتی مفت ہیں۔ اس مقصد کے لئے نیلے اور اورنج کارڈ جاری کئے جاتے ہیں جسے دکھانے پر علاج کی سہولیات اْسی علاقے میں دستیاب ہو جاتی ہیں۔ والدین بچے کی پیدائش پر ساڑھے چار سو سے ساڑھے سات سو ڈالر یومیہ تک حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک سکیم معذور افراد کے لئے ہے۔ ایسے معذور افراد جواٹھارہ سو ڈالر سے چھبیس سو ڈالر ماہانہ کماتے ہیں‘ انہیں ڈیڑھ سو ڈالر ماہانہ علاج کی مد میں ملتے ہیں اور جن معذور افرادکی آمدنی اٹھارہ سو ڈالر ماہانہ سے کم ہو یا وہ کچھ بھی نہ کماتے ہوں انہیں پھر بھی اڑھائی سو ڈالر علاج کی مد میں ملتے ہیں۔ ان ساری سکیموں میں ایک قدر مشترک ہے کہ جتنی کسی کی تنخواہ زیادہ ہو گی ‘ اسے میڈیکل فنڈز نسبتاً کم ملیں گے اور جس کی تنخواہ جتنی کم ہو گی اْسے اس حساب سے علاج کے لئے زیادہ امداد اور سہولیات ملیں گی۔
اگر پاکستان میں ہیلتھ سکیم بنانی تھی تو یہاں کا پہلے ہیلتھ کا انفراسٹرکچر ٹھیک کرنا چاہیے تھا اور ہیلتھ انفراسٹرکچر ٹھیک ہو گا نہیں کیونکہ ان کا بجٹ تو میٹرو اور اورنج لائنوں میں استعمال ہو رہا ہے اور اب جیل روڈ پر ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے ؟ یہ کیا مذاق ہے۔ رات کو کسی کو خواب آتا ہے اور صبح اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ جب کوئی ہیلتھ کارڈ لے کر ہسپتال جا ئے گا اور آگے سے ایکسرے یا سی ٹی سکین مشین ہی خراب ملے گی تو وہ وہاں اپنا یا دوسروں کا سر ہی پھوڑے گا ۔ بہتر ہوتا کہ میڈیا کو اس بارے کوئی بریفنگ دی جاتی لیکن لگتا ہے عجلت میں لانچ کی گئی اس سکیم کے بارے میں بتانے کو حکومت کے پاس بھی کچھ نہیں۔یہاں تو سب کاغذی پروگرام ہی لگتا ہے۔