یہ6 جولائی 2000ء کی سرد رات تھی۔ لندن کے بارونق علاقوں میں زندگی انگڑائیاں لے کر بیدار ہو رہی تھی۔ سنٹرل لندن میں واقع لیکسٹن سکوائر پر تین نوعمر لڑکے جمع تھے۔ تینوں کے ہاتھ میں وہسکی کی ایک ایک بوتل تھی اور وہ پہلی مرتبہ یہ تجربہ کرنے جا رہے تھے۔ان میں یوان نامی لڑکا زیادہ ہی پر جوش تھااور آدھی سے زیادہ بوتل پی گیا۔ اس کے دوست ایک دو گھونٹ لینے کے بعد رُک گئے۔ شاید انہیں یہ تجربہ خوشگوار نہیں لگا تھا۔ یوان نے اپنے دوستوں کو ہچکچاتے دیکھا‘ تو اُسے غصہ آگیا۔ اُس نے دونوںکے ہاتھ سے بوتلیں لیں اور حلق میں انڈیل لیں۔ چند ہی منٹوں بعد یوان زمین پر اوندھا پڑا تھا جبکہ اس کے دوست خوفزدہ ہوکر بھاگ چکے تھے۔ کچھ دیر بعد پٹرولنگ پولیس وہاں سے گزری اور یوان کو پبلک مقام پر شراب نوشی کے جرم میں گرفتار کرلیا ۔ یوان کی شناخت کی گئی تو وہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا بیٹا ایوان بلیئر نکلا۔ پولیس نے ٹین ڈائوننگ سٹریٹ کال کی اور ٹونی بلیئرکے سیکرٹری کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ بلیئر کوخبر ہوئی تو انہوںنے نہ تو پولیس آفیسرکو کوئی دھمکی دی نہ ہی تھانے کا عملہ معطل کیا بلکہ کہا ''میرا بیٹا بھی برطانوی عوام کی طرح ہے۔ یوان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو برطانوی شہریوںکے ساتھ کیا جاتا ہے‘‘۔ آخر میں ٹونی بلیئر نے اپنے بیٹے کے کرتوتوں پر معافی مانگی اور فون بند کر دیا۔ 17 جنوری 2008ء کے دن بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا۔ پچیس سالہ ایلکس مغربی لندن کی سڑکوں پر چہل قدمی کرتا ہوا ایک بار میں داخل ہو ا ‘وہسکی کا آرڈر دیا اور ایک
طرف بیٹھ گیا۔کائونٹر پر کھڑا ایک شخص پہلے سے ایلکس کا منتظر تھا۔ وہ ایلکس کے قریب آیا‘ جیب سے ایک شیشی نکالی اور ایلس کے ہاتھ میں تھما دی۔ ایلکس نے شیشی میں موجود سفوف کا جائزہ لیا ۔ تسلی کر لینے کے بعد جیب سے کچھ پائونڈ نکالے اور اس شخص کو دے دئیے۔ یہ منظر سی سی ٹی وی کے سکیورٹی کیمروں میں محفوظ ہو رہا تھا۔ چند ہی منٹ بعد پولیس وہاں پہنچ گئی۔ایلکس کو ہتھکڑیاں لگائیں اور حوالات میں بند کر دیا گیا۔ ایلکس کی شناخت معلوم کی گئی تو ایلکس برطانیہ کے سکیورٹی منسٹر ایڈمرل لارڈ کا بیٹا نکلا۔ ایڈمرل کو خبر پہنچی کہ آپ کا صاحبزادہ منشیات کے الزام میں گرفتار ہو چکاہے تو سکیورٹی منسٹربولے ''ہر ایک کو قانون کا سامنا کرنا ہو گا‘ چاہے وہ کوئی بھی ہو‘‘۔ 20جولائی 2001ء کے دن بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ ولیم نامی نوجوان صبح سویرے اٹھا۔ سائیکل پکڑی‘ اخبارمارکیٹ سے اخبار لئے اور تقسیم کرنے نکل گیا۔ ایک گلی سے مڑ رہا تھا کہ دو پولیس والوں نے روک لیا‘ ولیم کی تلاشی لی گئی تو ایک اخبار کے اندر سے کوکین برآمد ہوئی ۔ ولیم نے رعب جماتے ہوئے کہا کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں۔ یہ سن کر پولیس والے مسکرائے ‘ ہتھکڑیاں لگائیں اور اُسے لے جا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ یہ نوجوان برطانیہ کے ہوم سیکرٹری جیک سٹرا کا بیٹا ولیم سٹرا تھا۔ ہوم سیکرٹری کو اطلاع ہوئی تو وہ یہ کہہ کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا کہ ''قانون سب کیلئے یکساںہے‘‘۔ 25دسمبر 2007ء کے
دن پیش آنے والا واقعہ بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص اپنی گاڑی میں لندن جانے کیلئے نکلا۔ ڈرائیونگ کے دوران اسے موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا۔ وہ فون اٹھاکر پیغام پڑھنے ہی لگا تھا کہ اُس کی کار اگلی کار سے جا ٹکرائی اور دوسری گاڑی میں موجود کار سوار ہلاک ہو گیا۔ یہ مقدمہ عدالت میں پہنچا۔ عدالت نے اسے تین ماہ قید اور پانچ سو پائونڈ جرمانے کی سزا سنا دی اور وہ شخص سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ نذیر احمد نامی یہ شخص 51 سال پہلے میر پور میں پیدا ہوا‘ جوانی میں برطانیہ آ گیا‘ محنت سے تقدیر بدلی اور برطانوی پارلیمنٹ کے ہائوس آف لارڈز کا رُکن لارڈ نذیر احمد کہلانے لگا۔ اتنے اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود عدالت نے اُسے 26فروری2009ء کو سزا سنا کر جیل بھیج دیا۔ لارڈ نذیر نے خوش دلی سے یہ فیصلہ قبول کر لیا۔
اب آپ پاکستان آ جائیں۔چارسدہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے سے صرف ایک ہفتہ قبل لاہور میں ایک گاڑی ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئی۔ لاہور انٹرنیشنل ایئرپورٹ انتہائی حساس علاقے میں واقع ہے۔ یہاں آنے اور جانے کے لئے آپ کو کئی ناکوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ دہشت گردی کے پیش نظر یہاں سخت ترین سکیورٹی نافذ ہے۔ اس گاڑی کو ایک پولیس ناکے پر روکا گیا۔ گاڑی میں پانچ چھ افراد سوار تھے۔ گاڑی کی حالت بھی خستہ اور ساتھ خواتین اور بچے بھی نہ تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گاڑی کو روکا جاتا‘ اس کی مکمل اور سخت چیکنگ ہوتی‘ تمام مردوں کے شناختی کارڈ دیکھے جاتے اور سامان کی تلاشی لی جاتی۔ کار سوار افراد کوئی مجرم تھے نہ دہشت گرد۔ تاہم یہ لاہور پولیس تھی اور یہ لوگ اس پولیس کی نفسیات اور کمزوریوں سے بخوبی واقف تھے۔ ان کی فلائٹ کا وقت ہو چلا تھا چنانچہ ایک شخص کو خیال سوجھا۔ اس نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور جیسے ہی ایک پولیس اہلکار اس گاڑی کے قریب آیا تو اسے پیش کر دیا۔ اس دوران میں ان کاایک ساتھی اپنے موبائل فون سے ویڈیو بنانے لگا۔ اہلکار نے نوٹ چپ چاپ جیب میں رکھ لیا اور گاڑی کو آگے جانے دیا۔ یہ ویڈیو کسی نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی اور وہاں سے یہ ملکی میڈیا میں چلنے لگی۔ زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹا البتہ اسی واقعے کے چند روز بعد باچا خان یونیورسٹی پرحملہ ہو گیا۔
جس ملک میں پولیس اہلکار سو کے نوٹ کے لئے لاہور ایئرپورٹ جیسے حساس مقام کو دہشت گردوں کے لئے کھلا چھوڑ دیں‘ وہاں کیسا نیشنل ایکشن پلان اور دہشت گردی کی کیسی جنگ؟ یہ جنگ اگر لڑ رہی ہے تو صرف فوج‘ لیکن کب تک؟ اکیلی وہ اس عفریت کو جڑ سے ختم کر سکتی ہے؟ کراچی میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر سیاستدان اگر اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کریں گے تو دہشت گردی کی جنگ کون اور کیسے لڑے گا؟سندھ میں پی پی پی ‘ ایم کیو ایم اور پنجاب میں اگر رینجرز کے ایکشن پر نون لیگ شور مچاتی ہے تو چور کی داڑھی میں تنکا کس کو دکھائی نہیں دے گا؟یہی نام نہاد لیڈر جب برطانیہ جیسے ملکوں میں جاتے ہیں تو سرخ سگنل تک کراس نہیں کرتے لیکن اپنے وطن میں دہشت گردوں کے معاونین کو بچانے کے لئے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ان کے لئے یہ ہر قانون توڑ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک صرف فوج کا ہے؟ کیا قربانیاں دینا صرف فوج کا کام اور ان کا کام لوٹ مار ہے؟کیا یہ چاہتے ہیں کہ فوج جنگ لڑتی رہے اور یہ دہشت کے سانپ پالتے پوستے رہیں؟سولہ دسمبر اور بیس جنوری کے سینکڑوں شہید طالبعلموں کا قرض صرف اسی صورت ادا ہو سکتا ہے جب تمام سیاستدانوں اور تمام قومی اور صوبائی اداروں کو نکیل ڈالی جائے ۔ دہشت گردی ختم کرنی ہے تو اس ملک کو سکریچ سے ٹھیک کرنا ہو گا۔ ان سیاستدانوں سے آغاز کرنا ہو گا جو اپنے صوبے میں رینجرز کے آنے پر چوں چاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی اصل مجرم ہیں۔ سب کو قانون کے سامنے سرنڈر کرنا ہو گا‘ چاہے لیڈر ہو یا کارکن‘ پولیس والا ہو یا عام طالبعلم ،ایسا نہیں ہوتا تو پھر جو مرضی کر لیں‘ یہاں دہشت گردی ختم ہو گی نہ امن قائم ہو گا۔باقی سب کہانیاں ہیں۔