چند دن قبل اندرون شہر جانا ہوا۔ ایک دوست سے ملنا تھا۔ گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی کہ ایک کھلا خالی پلاٹ نظر آ گیا۔ یہاں پہلے سے دس بارہ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ گاڑی کھڑی کر کے میں دوست کی طرف چلا گیا۔ دو گھنٹے بعد واپس آیا۔ گاڑی میں بیٹھا اور اسے چلانے ہی لگا تھا کہ ایک باریش شخص گاڑی کے قریب آیا اور بولا۔ گاڑی کھڑی کرنے کا کرایہ دو۔ میں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ کہنے لگا‘ دو گھنٹے کے سو روپے بنتے ہیں۔ میں نے پوچھا‘ تم سرکاری ٹھیکیدار ہو یا نجی؟ بولا‘ یہ ہمارے مالکوں کا پلاٹ ہے۔ وہ بیرون ملک ہوتے ہیں۔ ہم اس کی رکھوالی کرتے ہیں۔ جو گاڑی یہاں کھڑی کرتا ہے اسے کرایہ دینا پڑتا ہے۔ مجھے دیر ہو رہی تھی۔ اسے سو کا نوٹ تھمایا اور وہاں سے نکل آیا۔
بعد میں دیر تک میں سوچتا رہا کہ وہ شخص اس زمین کا مالک بھی نہ تھا لیکن اس نے کچھ دیر کا کرایہ وصول کیا تو پھر یہ زمین جس پر ہم رہ رہے ہیں‘ آخر اس کا مالک بھی تو ہے ‘ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس زمین اور اس کی نعمتوں کے استعمال کے بدلے ہم اسے کیا دے رہے ہیں؟ میںنے تو ایک خالی پلاٹ پر گاڑی کھڑی کی‘ نہ وہاں سے پانی پیا‘ نہ وہاں کوئی پھل تھے جو توڑے جاتے‘ نہ ہی کوئی اور نعمتیں لیکن اس زمین پر تو ہم لاکھوں کروڑوں نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ خزانوں کے خزانے ہیں جو ختم ہونے کو نہیں آ رہے۔ تو پھر ہم کس غلط فہمی میں ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے دلوں کے راز تک جانتا ہے‘ ہماری ہر بات‘ ہر عمل ایک رجسٹر میں نوٹ کیا جا رہا ہے اور یہ رجسٹر قیامت کے روز ہمیں دکھایا جائے گا اور انسان اس وقت
حیران ہو جائے گا کہ اس نے معمولی سے معمولی نیکی یا گناہ کیا ہو گا‘ وہ بھی اس میں موجود ہو گا۔ لیکن یہ کیسے ہو گا؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب جب ہم نہیں پاتے اور غیب پر دل سے یقین نہیں رکھتے تو ایمان کی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں آپ کو تین مثالیں دوں گا‘ آپ خود بتائیے گا اگر انسان یہ کچھ کر سکتا ہے تو انسان کو بنانے والا کیا کچھ نہیں کر سکتا۔ پہلی او بی ڈی ڈیوائس ہے۔ ماچس کی ڈبیہ جتنی اس ڈیوائس کی قیمت ہزار روپے ہے۔ یہ الیکٹرانک گاڑیوں میں ڈیش بورڈ کے نیچے پلگ کی جاتی ہے۔یہ بلیوٹوتھ یا وائرلیس کے ذریعے کچھ معلومات ہمارے موبائل فون تک پہنچاتی ہے۔مثلاً یہ بتاتی ہے کہ گاڑی کی بیٹری کتنا کرنٹ دے رہی ہے‘ گاڑی کے انجن کا ٹمپریچر کیا ہے‘ گاڑی کا آر پی ایم کتنا ہے‘ اس کا ٹارک‘ اس کی سپیڈ کتنی ہے‘ اس میں پٹرول کتنا ہے‘ یہ ایک لٹر میں کتنے کلومیٹر چل رہی ہے‘ اس کے علاوہ یہ ڈیوائس بتاتی ہے کہ گاڑی کے انجن یا الیکٹرانک سرکٹ میں نقائص تو موجود نہیں‘ اگر کوئی نقص ہوتا ہے تو یہ فوراً موبائل سکرین پر ظاہر کر دیتی ہے‘ یہ بتاتی ہے آپ نے کس ملک کے کس شہر کے کس علاقے سے سفر شروع کیا اور کہاں ختم کیا‘ سفر کا دورانیہ کتنا تھا‘ اس میں پٹرول کتنا خرچ ہوا‘ آپ کی ایوریج‘ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ سپیڈ کیا رہی‘ آپ نے بریکیں کتنی مرتبہ استعمال کیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسری ڈیوائس کار ٹریکر ہے۔ یہ بھی گاڑی کے اندر خفیہ جگہ پر نصب ہوتا ہے۔ ٹریکنگ کمپنی کے دفتر میں بیٹھے لوگ آپ کی درج
ذیل معلومات لمحہ بہ لمحہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔مثلاً جیسے ہی گاڑی سٹارٹ ہوتی ہے انہیں پتہ چل جاتا ہے‘ ساتھ ہی آپ کے موبائل پر ایس ایم ایس بھی آ جاتا ہے‘ اگر کوئی چور گاڑی لے اڑتا ہے تو یہ میلوں دُور بیٹھے انجن آف کر سکتے ہیں‘ گاڑی کی سپیڈ کیا رہی‘ گاڑی کن گلیوں سڑکوں سے ہوتی ہوئی منزل مقصود تک پہنچی‘ یہ سب کچھ ایک نقشے کی شکل میں ان کے سامنے آ رہا ہوتا ہے۔ وہ یہاں تک جان سکتے ہیں کہ فلاں موڑ یا پوائنٹ پر گاڑی کی سپیڈ کیا تھی‘ یہی نہیں وہ اپنے دفتر میں گاڑی میں موجو د افراد کی باتیں بھی سن سکتے ہیں‘ اگر گاڑی میں کیمرہ ہو گا‘ وہ ان کی حرکات دیکھ بھی سکتے ہیں اور انہیں ریکارڈ بھی کر سکتے ہیں اور یہ سارا ڈیٹا وہ دنیا میں کہیں بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔تیسری چیز ہے ایک ہیلتھ سافٹ ویئر جو ہمارے موبائل فون میں انسٹال ہو جاتا ہے۔ یہ سافٹ ویئرآپ کو بتاتا ہے‘ آپ نے آج کتنی لمبی واک کی‘ اس کا دورانیہ کتنا تھا‘ آپ کتنی مرتبہ رُکے‘ آپ کے چلنے کی رفتار کیا تھی‘ آپ کا دل کتنی مرتبہ دھڑکا‘ آپ کی کتنی
کیلوریز خرچ ہوئیں‘آپ نے کتنے قدم اٹھائے‘ ایک منٹ میں کتنی مرتبہ سانس لیا‘ایکسرسائز یا واک کے دوران آپ کی رگوں پر دبائو کتنا رہا‘ اس کے علاوہ یہ سافٹ وئیر آپ کے خون میں موجود آکسیجن لیول اور واک کے دوران آپ کے بولے گئے ایک ایک لفظ کی ریکارڈنگ بھی دکھا سکتا ہے۔ یہ صرف تین مثالیں تھیں‘ سوال یہ ہے کہ اگر ہزار روپے کی ڈیوائس گاڑی کے پل پل کی خبر دے سکتی ہے‘ اس میں پیدا ہونے والی خرابی اور اس کے حل تک سے آگاہ کر سکتی ہے‘ گاڑی کے انجن کی باقی رہ جانے والی زندگی اور اس کی خامیاں بتا سکتی ہے‘ اگر ٹریکنگ کمپنی کا چند ہزار کا ٹریکر آپ کی گاڑی کی ہر حرکت اور آپ کی آواز اور تصویر تک ریکارڈ کر سکتا ہے اور سال ہا سال کا ڈیٹا محفوظ بھی رکھ سکتا ہے اور پلے سٹور سے مفت ڈائون لوڈ ہونے والا ایک سافٹ وئیر آپ کے اٹھنے والے قدم گن سکتا ہے‘ ان کی سمت اور ان کی رفتار کا تعین کر سکتا ہے‘ یہ آپ کے دل کی دھڑکن ‘ خون کا دبائو اور خون میں موجود آکسیجن کی مقدار تک بتا سکتا ہے تو پھر وہ ہستی‘ جس کے قبضۂ اختیار میں میری ‘آپ کی اور اس دنیا کے ہر جاندار کی جان ہے‘ جس نے یہ ٹیکنالوجی ‘ یہ ڈیوائسز اور یہ سافٹ ویئربنانے والوں کو بنایا‘ جس نے ان دماغوں کو تخلیق کیا جو ہماری گاڑیوں‘ جہازوں‘ ڈرونوں اور انسانوں کی ہر حرکت کو گلوبل پوزیشننگ سسٹم اور سیٹیلائٹس کی مدد سے کنٹرول کر رہے ہیں تو پھر وہ جو علیٰ کل شئی قدیرہے‘ علیم بذات الصدورہے ‘مالک یوم الدین ہے ‘جس نے پرندے کے چار ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ کر زندہ کر دیا‘ جس نے ابراہیم ؑ کو لگنے والی آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور جس نے بنو مخزوم کی زنیرہ ؓ کی گرم سلاخوں سے پگھلائی گئی آنکھیں واپس لگا دیں‘ وہ اپنی ہی پیدا کردہ مخلوق کی حرکات‘ سکنات اور افعال سے کیونکر واقف نہ ہو گا؟ اگر کمپیوٹر سائنس میں دو سال لگانے والا گاڑیوں کی لمحہ بہ لمحہ نقل و حرکت نوٹ کرنے والا سافٹ ویئر بنا سکتا ہے تو اس مالک الملک کے لئے کیا مشکل ہے کہ وہ کسی ڈیوائس ‘ کسی سافٹ وئیر‘ کسی رجسٹر میں ہماری زندگی کے پل پل کو نوٹ نہ کر سکے اور ایک وقت مقررہ پر ہمارے سامنے لا نہ سکے؟ آپ خود دیکھیں ‘ ہمارے زیادہ تر گناہ ایسے ہوتے ہیں جو ہم چھپ کر کرتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں ہمیں کسی نے دیکھا نہیں لیکن جب ہم ان مثالوں پر غور کریں تو جسم میں ایک جھرجھری سی آ جاتی ہے کہ ہم کس سے چھپ کر گناہ کرتے ہیں جو اندھیری رات میں‘ زمین میں دبے سیاہ پتھر کے اندر موجود کیڑے کی حرکت سے واقف بھی ہوتا ہے‘ اسے دیکھتا بھی ہے اور اسے رزق بھی پہنچاتا ہے۔
ذرا سوچئے‘ آپ کا باس آپ کو ایک مہینے کے لئے کسی جگہ مارکیٹنگ کے لئے بھیجے‘ کیا آپ کی یہ کوشش نہیں ہو گی کہ آپ زیادہ سے زیادہ محنت کریں‘ زیادہ سے زیادہ آرڈرز اکٹھے کریں تاکہ جب اپنے باس کے سامنے پیش ہوں تو سرخرو ہو سکیں؟ کیا آپ چاہیں گے کہ آپ اس حالت میں اس کے سامنے جائیں کہ آپ کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو؟ ہم سب نے اسی طرح ایک دن اپنے خالق کے سامنے پیش ہونا ہے ‘ اپنے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے اور اگر شرمندگی سے بچنا ہے تو ہمیں چاہیے ‘ہم سورہ کہف کی اس آیت کو دل میں بٹھا لیں: پس‘ جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو‘ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔