تعلیم‘ صحت اور روزگار‘ یہ تین ایسے شعبے ہیں جن پر اگر توجہ دی جائے تو اس ملک میں واقعی تبدیلی آ سکتی ہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ملک کے لوگ الف ب تک پڑھنا نہ جانتے ہوں‘ وہاں پولیو سے لے کر دل کے علاج تک کی بیماریاں عام اور ان کے علاج کی سہولیات موجود نہ ہوں اور وہاں ہزاروں سرکاری و نجی یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ ڈگریاں جاری کر رہی ہوں اور طلبا یہ ڈگریاں لے کر ایک دفترسے دوسرے دفتر تک جوتیاں چٹخا رہے ہوں ‘ایسا ملک اس سب کے باوجود ترقی کر جائے۔ پاکستان نہ کوئی عرب ملک ہے جہاں پٹرول کے بے بہا خزانے نکلتے ہوں اور نہ ہی یہاں ہر شخص منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہاں سب کو ہاتھ پائوں ہلا کر ہی کچھ نہ کچھ ملتا ہے۔ موجودہ حکومت اپنا آدھا وقت پورا کر چکی ہے۔ اس دوران بہت سے اچھے پروجیکٹس بھی شروع ہوئے لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سب سے اہم شعبہ تعلیم ہے۔ حکومت کو آئندہ تعلیم کے لئے زیادہ بجٹ اور توانائیاں مختص کرنا ہوں گی۔ تعلیم کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں‘ اس حوالے سے بھارت کو دیکھ لیجئے۔بھارت کی تین یونیورسٹیوں کا شمار دنیاکی ٹاپ 200یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے‘ بھارت کے ٹیکنالوجی کے چھ کالج ایشیا کے ٹاپ 20کالجوں میں گنے جاتے ہیں‘ دنیا کے ٹاپ بزنس سکولز میں انڈین سکول آف بزنس حیدرآباد 12ویں نمبر پر ہے‘بھارت میں خواندگی کی شرح 66فیصد ہے‘ بھارت کا تعلیمی نظام ان کا اپنا وضع کیا ہوا ہے‘ بھارت میں اب بھی 80فیصد سکول سرکاری انتظام کے تحت چل رہے ہیں‘ ہر سال 11فیصد بھارتی طلبا اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بھارت کے تعلیمی معیار کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ ہر سال ایک ہزار سے زائد امریکی طلبا امریکی تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر بھارت آ تے ہیں اور یہاں اعلیٰ تعلیم اور یہیں روزگار حاصل کرلیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ پاکستان کو دیکھ لیجئے۔ یہاں خواندگی کی شرح 56فیصد ہے‘ یہاں ایک درجن سے زیادہ تعلیمی نظام چل رہے ہیں‘ پاکستان کی کوئی یونیورسٹی دنیا کی پہلی دو سو یونیورسٹیوں میں نہیں آتی‘ پنجاب کی بڑی سرکاری یونیورسٹی جو شہر کے وسیع رقبے پر محیط ہے‘ ورلڈ رینکنگ میں 1801نمبر پر ہے‘ پاکستان آنے والے غیر ملکی طلبا انتہائی تھکے ہوئے ممالک سے آتے ہیں اور واپسی پر یہ ڈگری ان کے کسی کام نہیں آتی‘ پاکستان کے صرف 4فیصد طلبا اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اوریہاں ماضی میں تعلیمی ادارے باقاعدہ بم دھماکوں سے اڑائے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ حکومت اگر اس طرف مزید توجہ دے اور بھارت سے بہتر حکمت عملی اپنائے تو تعلیم کے حوالے سے یہ ملک بہت آگے جا سکتا ہے۔
دوسرا شعبہ صحت کا ہے۔بڑوں کو چھوڑ دیجئے‘بچوں میں بھی صرف دل کے امراض کو دیکھ لیجئے‘ آپ کو خود صورتحال کا اندازہ ہو جائے گا۔ صرف دل کے نقائص کے ساتھ پاکستان میں سالانہ چالیس ہزار پیدا ہوتے ہیں‘ ان میں سے دس ہزار کو آپریشن اور انجیوپلاسٹی کی ضرورت ہوتی ہے باقی ادویات سے ٹھیک ہو جاتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے ایسے ہوتے ہیں جو صحتمند پیداہوتے ہیں لیکن بعد میں دل کے مریض بن جاتے ہیں۔ ان دس ہزار میں دو سے تین ہزار بچے انجیوپلاسٹی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں جبکہ سات آٹھ ہزار بچوں کو اوپن ہارٹ سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں کل ملا کر پندرہ سو سے دو ہزار سرجیکل آپریشن ہو رہے ہیں‘ دوسرے لفظوں میں پانچ سے چھ
ہزار بچے ہر سال خاموشی سے ابدی نیند سو جاتے ہیں کیونکہ سرجری اور انجیوپلاسٹی دو لاکھ سے چار لاکھ میں ہوتی ہے اور یہ اخراجات عام آدمی برداشت نہیں کر سکتا‘ بدقسمتی یہاں ختم نہیں ہوتی‘ پاکستان میں اُن بچوں کا علاج بھی ممکن نہیں جن کے دل کا والو مکمل طور پر بند ہوتا ہے یا بنا ہی نہیں ہوتا‘ انہیں کسی اور انسان یا جاندار کا والو لگانا پڑتا ہے اور اس علاج کا سیٹ اپ بھی یہاں موجود نہیںیہ بھارت‘ برطانیہ اور امریکہ میں ہے لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ہر بچہ وہاں جانے کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا چنانچہ یہاں آ کر پھر سینکڑوں بچے موت کی آغوش میں سونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک بیماری کا حال تھااور وہ بھی بچوں سے متعلق ۔ صحت کے باقی معاملات کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے نیشنل ہیلتھ سکیم شروع کی تو لوگوں کو حوصلہ ہوا کہ کسی نے تو پہل کی۔حکومت کا اگلا قدم سرکاری ہسپتالوں کا معیار بہتر کرنا ہے ۔ اس پر بھی کام شروع ہے کہ ہر علاقے میں صحت کی سہولیات یکساں ہوں اور کسی کو صوبے یا ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں علاج کے لئے نہ جانا پڑے‘ اگرچہ یہ انتہائی مشکل اور کٹھن کام ہے تاہم اگر ایسا ہو گیا تو اس سے صحت میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔
تیسرا شعبہ روزگار ہے۔ ہمارے ہاں ہرکسی کا رجحان محض کاپیاں کتابیں چاٹ کر نوکری حاصل کرنے کی جانب ہے۔ بہت کم لوگ ہنرمندی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ نوکریاں طلب کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں‘یہی وجہ ہے کہ جب بیروزگار کو کوئی امید نظر نہیں آتی تو پھر اُس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں‘وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا شروع کر دے یا پھر بندوق کے زور پر اپنا حق چھین لے۔ پہلا راستہ بے عزتی اور ذلت کی انتہا کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ جیل کی سلاخوں یا موت کی وادی میں جا کر گم ہوجاتا ہے۔ لوگوں کو سمجھنا ہو گا اب وہی شخص زندہ رہے گا جو چھوٹے موٹے کام اور ہنر جانتا ہو گا اور ایک سے زیادہ شعبوں میں مہارت حاصل کرے گا۔ اس کے تین فائدے ہوں گے‘ پہلا یہ کہ اگر ایک شعبے میں نوکری چلی بھی جاتی ہے تو دوسرے شعبے میں روزگار چل سکے گا۔ دوسرا یہ کہ نوکری نہ بھی رہے تو ہنر مند شخص معمولی سرمائے سے اپنا کام شروع کر سکے گا اور تیسرا یہ کہ ایسا شخص گھر کے کام خود کرکے اخراجات بچا سکے گا۔ اسے ملٹی سپیشلائزیشن اپروچ کہتے ہیں اور یہ اپروچ یورپی ممالک میں بہت مقبول ہے۔ آپ دنیا میں جہاں چاہے چلے جائیں‘ آپ کو چند شعبے ایسے ملیں گے جن کی مانگ ہر جگہ اور ہر وقت رہتی ہے اور ان کی بدولت مناسب روزگار چلایا جا سکتا ہے۔ الیکٹریشن‘ موٹر مکینک‘ رنگساز‘ پلمبر‘ بڑھئی‘ درزی‘ کمپیوٹر اور موبائل فون مکینک چند ایسے شعبے ہیں جن کیلئے بہت لمبا کورس کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور کام میں مہارت آ جائے تو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔محلے کے الیکٹریشن کو
کام کیلئے بلائیں‘ وہ کل کا وعدہ کر کے چار دن بعد آئے گا‘ آپ ترکھان کو گھر میں کام دے دیں‘ وہ تھوڑا سا کام کر کے دوسرے کام پر چلا جائے گا‘ آپ پلمبر‘ موٹرمکینک‘ ہارڈ ویئر انجینئر کو دیکھ لیں‘ سب کے سب کام میں جتے نظر آئیں گے۔ یہ لوگ ایک ٹول کٹ اور ایک موبائل فون کے ذریعے ہر طرح کے حالات میں اپنا گزارا چلا لیتے ہیں ۔ اس وقت سرکاری طور پر ٹیوٹا کا ادارہ ہنر سکھانے والا سب سے بڑا سرکاری ادارہ ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والا فلاحی تنظیم اخوت سے بلا سود قرض لے کر باعزت روزگار شروع کر لیتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بارہ برس قبل اس پودے کی بنیاد رکھی تھی‘ آج یہ ادارہ سرکاری اشتراک سے سالانہ اربوں روپے کے قرضے دے رہا ہے۔ حکومت کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں اور بجٹ بھی‘ چنانچہ حکومت کی مزید معاونت اُن لاکھوں افراد کو بھی اس دائرے میں لے آئے گی جو چھوٹی موٹی رقم نہ ہونے کے باعث اپنا روزگار شروع نہیں کر سکتے۔
جس طرح حکومت نے چین کے ساتھ کامیاب تجارتی معاہدے کئے‘ یوٹیوب سے اپنی شرائط پر پاکستانی ورژن بنوایا کر اسے کھولا‘پاک چین راہداری کا منصوبہ شروع کیا‘ موٹروے کو مزید شہروں سے منسلک کیا‘ پٹرولیم قیمتیں کم کیں‘نیشنل ہیلتھ سکیم شروع کی‘ جدید بسوں اور ٹرینوں کے پراجیکٹ شروع کئے‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج کے ساتھ مل کر ضرب عضب آپریشن شروع کیا اور عوام کو سکون کی فضا میسر کی‘ان تینوں شعبوں پر بھی حکمران اسی جذبہ سے کام کریں تو کوئی شک نہیں‘ ہم اپنے ملک میں وہ تبدیلی دیکھ سکیں گے جس کے نعرے تو کوئی اور لگاتا آ رہا ہے لیکن اس کی تعبیر موجودہ حکمران دکھا جائیں۔